دعوۃ القرآن

سورة نُوح

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

یہ سورہ حضرت نوح( علیہ السلام) کی دعوت کو تفصیل کے ساتھ پیش کرتی ہے اس لیے اس کا نام سورۂ نوح ہے ۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور ان حالات میں نازل ہوئی جب کہ مشرکین مکہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوت کی مخالفت میں شدت اختیار کر لی تھی۔

 

مرکزی مضمون

 

حضرت نوح کا قصہ اس انداز میں پیش کیاگیا ہے کہ رسول کی مخالفت کرنیوالے چونک جائیں اور اس آئینہ میں اپنا عکس دیکھ لیں ۔

 

نظمِ کلام

 

آیت ۱ تا ۴ میں بیان ہوا ہے کہ جب نوح( علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا تھا تو انہوں نے کیا دعوت پیش کی تھی۔

 

آیت ۵ تا ۲۰ میں حضرت نوح کی دعوتی جدوجہد کو پیش کرتے ہوئے انہوں نے اپنے قوم کو جو فہمائش کی تھی اس کو بیان کیاگیا ہے ۔

 

آیت ۲۱ تا ۲۴ میں حضرت نوح کی اللہ کے حضور فردیاد کو پیش کیاگیا ہے جو انہوں نے اپنی قوم پر حجت تمام کرنے کے بعد ان کی ہٹ دھرمی کے پیش نظر کی تھی۔

 

آیت ۲۵ میں اس عذاب کا ذکر ہے جو قوم نوح پر آیا۔

 

آیت ۲۶ تا ۲۸ میں حضرت نوح کی اس دعا کو پیش کیاگیا ہے جو انہوں نے اس عذاب کے موقع پر کی تھی جو ان کی قوم پر آیا۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ ۱* کہ اپنی قوم کو خبردار کر دو قبل اس کے کہ ان پر درد ناک عذاب آئے ۔۲*

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو! میں تمہارے لیے کھلا خبردار کرنے والا ہوں ۔۳*

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اللہ کی عبادت کرو، اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ ۴*

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تمہارے گناہ بخش دے گا۔۵* اور تم کو ایک مقرر وقت تک مہلت دے گا۔ ۶* یقیناً جب اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آجائے گا تو اس کو ٹالا نہیں  جا سکے گا۔ ۷* کاش کہ تم جان لیتے !

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ نوح نے عرض کیا اے میرے رب میں نے اپنی قوم کو شب و روز پکارا ۔ ۸*

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر میری پکارنے ان کے فرار ہی میں اضافہ کیا۔ ۹*

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں نے جب بھی ان کو بلایا تاکہ تو ان کو بخش دے ۔ ۱۰* انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیں ، کپڑوں سے اپنے کو ڈھانک لیا۔ ۱۱* اپنی ضد پر اڑے رہے اور بڑا تکبر کیا۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر میں نے ان کو بہ آواز بلند دعوت دی۔

 

۱۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر میں نے ان کو علانیہ بھی سمجھایا اور تنہائی میں بھی۔ ۱۳*

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو۔ بلا شبہ وہ بڑا بخشنے والا ہے ۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تم پر خوب بارش برسائے گا۔ ۱۴*

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں مال اور اولاد کی فراوانی بخشے گا۔ تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور نہریں جاری کرے گا۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ اللہ کی عظمت سے ڈرتے نہیں ہو۔ ۱۵*

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ اس نے تمہیں مختلف حالتوں سے گزار کر پیدا کیا ہے ۔ ۱۶*

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ کس طرح اللہ نے سات آسمان تہ بہ تہ بنائے ۔۱۷*

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان میں ۱۸* چاند کو نور اور سورج کو چراغ بنایا۔ ۱۹*

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اللہ ہی نے تم کو زمین سے خاص طریقہ پر اُگایا۔۲۰*

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ تمہیں اس میں لوٹائے گا۔ ۲۱* اور اس سے نکال کھڑا کرے گا۔ ۲۲*

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اللہ ہی نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنایا۔ ۲۳*

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ تاکہ تم اس کے کھلے راستوں میں چلو۔ ۲۴*

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ نوح نے عرض کیا۔ ۲۵* اے میرے رب! انہوں نے میری نافرمانی کی اور ان لوگوں کی پیروی کی جن کے مال اور اولاد نے ان کو خسارہ ہی میں اضافہ کیا۔ ۲۶*

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اور انہوں نے بہت بڑی چال چلی۔ ۲۷*

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کہا ہرگز نہ چھوڑو اپنے معبودوں کو۔ اور نہ چھوڑو وَدّ کو اور نہ سُواع کو اور نہ یغوث اور یعوق اور نَسر کو۔ ۲۸*

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کیا ہے اور تو ان ظالموں کی گمراہی میں ہی اضافہ فرما۔۲۹*

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ بالآخر وہ اپنے گناہ کی بنا پر غرق کئے گئے ۔ ۳۰* پھر آگ میں داخل کر دئے گئے ۔ ۳۱ * تو اللہ کے مقابل میں انہوں نے کوئی مددگار نہ پایا۔ ۳۲*

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اور نوح نے دعا مانگی۔ ۳۳* اے میرے رب! تو زمین پر ان کافروں میں سے کوئی بسنے والا نہ چھوڑ۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر تو نے ان کو چھوڑ دیا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان سے جو اولاد بھی پیدا ہوگی وہ بدکار اور کافر ہی ہوگی۔ ۳۴*

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اے میرے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو ۳۵* اور ان کو جو میرے گھر میں مومن ہو کر داخل ہوں ۔ ۲۶* اور سب مومن مردو ں اور مومن عورتوں کو ۳۷* اور ظالموں کی ہلاکت میں اضافہ فرما۔

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔  حضرت نوح کا قصہ تفصیل کے ساتھ سورۂ ہود میں گذرچکا اور دوسری متعدد سورتوں میں بھی اس کے اجزاء بیان ہوئے ہیں ۔ اس سورۂ میں خاص طور سے ان کی دعوتی جدوجہد کو پیش کیاگیا ہے ۔

 

واضح رہے کہ حضرت نوح پہلے رسول ہیں جو حضرت آدم کے بعد ان کی نسل کی طرف جس کی آبادیاں عراق کے شمالی حصہ میں تھیں اور جن میں ایک مدت گذرجانے کی وجہ سے عقیدہ و عمل کا فساد پیدا ہوگیا تھا بھیجے گئے تھے ۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔  واضح ہوا کہ ایک رسول کی اولین ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ کے عذاب سے خبردار کر دے ۔ انبیاء علیہم السلام کی دعوت کی یہی خصوصیت ہوتی ہے جسے قرآن کی اصطلاح میں انذار( ڈرانا) کہا جاتا ہے ۔ اس میں ان لوگوں کے لیے جو دعوتِ حق کا کام کرنے کے لیے اٹھیں یہ رہنمائی ہے کہ وہ دو ٹوک الفاظ میں لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں تاکہ وہ اللہ کی طرف رجوع ہوں ۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔  اللہ کی ہدایت کے مطابق حضرت نوح نے اپنے کو اس حیثیت سے پیش کیا کہ وہ اللہ کی طرف سے واضح طور پر خبردار کرنے والے ہیں ۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔  حضرت نوح کی دعوت مختصراً یہ تھی کہ اللہ کی اور صرف اللہ کی عبادت کرو۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ شرک اور بت پرستی کو چھوڑ دو اور ایک اللہ ہی کو معبود بناؤ۔ دوسرے یہ کہ اللہ سے ڈرو اور اس کی نافرمانی اور گناہ کے کاموں سے بچو جس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ سے ڈرتے ہوئے اور اس کے حضور جوابدہی کا احساس رکھتے ہوئے ذمہ دارانہ زندگی گذارو اور تیسرے یہ کہ رسول کی اطاعت کرو جس کا مطلب یہ تھا کہ رسول کا ہر حکم واجب الاتباع ہے کیونکہ اللہ کے احکام رسول ہی کے ذریعہ ملتے ہیں اس لیے رسول کی اطاعت در حقیقت اللہ ہی کی اطاعت ہے ۔

 

حضرت نوح کی دعوت کے یہ تین نکات تھے جن کوجیسا کہ آگے چل کر واضح ہوگا دلائل کی قوت کے ساتھ پیش کیاگیاتھا۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اس دعوت کو قبول کرو تو اللہ تمہارے پچھلے گناہ معاف کر دے گا۔ ایمان لانے پر کافروں کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں جیسا کہ سورۂ انفال میں ارشاد ہوا ہے :

 

قُل لِّلَذِے نَ کَفَرُوْااِنْ ے نْتَہُوْا ے غْفَرْلَہُمْ مَاقَدْسَلَفَ’’ ان لوگوں سے کہو جنہوں نے کفر کیا ہے کہ اگر وہ باز آجائیں تو جو کچھ ان سے پہلے ہو چکا اس کے لیے انہیں معاف کر دیا جائے گا۔‘‘( انفال:۳۸)

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اس صورت میں تم پر عذاب نہیں آئے گا بلکہ اس وقت تک تمہیں دنیا میں مہلت ملے گی جو اللہ نے تمہارے لیے مقرر کیا ہے ۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اللہ نے مہلتِ عمل کی جو مدت مقرر کی ہے اس کے ختم ہونے پر کسی کو بھی مزید مہلت نہیں ملتی اس لیے اس مہلت کو غنیمت جانو اور اصلاح کرلو۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ اس دعوتی جدوجہد کا خلاصہ ہے جس کے لیے حضرت نوح نے ایک طویل عرصہ تک رات دن ایک کر دئے تھے ۔ دعوت پیش کرنے کے لیے موزوں وقت وہی ہے جب لوگ توجہ کے ساتھ بات سن سکیں ۔ خواہ وہ دن کا وقت ہو یا رات کا۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔   ایک پیغمبر کی دعوت کا بھی لوگوں نے اثرقبول نہیں کیا بلکہ الٹے اس سے متنفر ہو گئے کیونکہ وہ بڑے ہٹ دھرم لوگ تھے اور جہالت کی تاریکی سے نکلنا نہیں چاہتے تھے ۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔  حضرت نوح کی دعوت کو قبول کرنے کا مطلب اپنے کو اللہ کی مغفرت کا مستحق بنانا تھا اور اللہ کی مغفرت جس کو حاصل ہوئی یقینا وہ نہال ہوگیا لیکن حضرت نوح کی قوم نے اس کی کوئی قدر نہیں کی۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ اس رد عمل کی تصویر ہے جو اس ہٹ دھرم قوم کی طرف سے ہوا۔ ان کو حضرت نوح کی باتیں سننا گوارا نہیں تھا اس لیے وہ ان سے منہ چھپالیتے ۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ان کے مجمعوں کو بہ آواز بلند خطاب کیا۔

 

دعوت کا ایک طریقہ خطابِ عام ہے جس کے ذریعہ بیک وقت اوربہ آوازِ بلند لوگوں کے سامنے دعوت پیش کی جاتی ہے ۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ان کی مجلسوں میں بھی ان کو سمجھایا اور تنہائی میں ان سے مل کر بھی۔

 

مطلب یہ ہے کہ فہمائش کے مختلف طریقے اختیار کئے ۔۔ علانیہ بھی انہیں سمجھایا اور انفرادی ملاقاتوں میں بھی تاکہ وہ کسی طرح بات سمجھنے کے لیے آمادہ ہوجائیں ۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔  معلوم ہوتا ہے لوگ بارش کی کمی کی وجہ سے پریشان تھے اور یہ اللہ کی طرف سے آزمائش تھی تاکہ انہیں اپنی غلط روی کا احساس ہو اور وہ اللہ کی طرف لپکیں ۔ حضرت نوح نے انہیں استغفار کرنے ( اللہ سے معافی مانگنے ) کے لیے کہا اور فرمایا کہ اس صورت میں اللہ تعالیٰ تم پر موسلادھار بارش بھیجے گا۔

 

حضرت نوح کی اس ہدایت سے واضح ہوا کہ جو قوم بھی بارش کے قحط میں مبتلا ہو اس کے لیے مقبول دعا استغفار ہے یعنی وہ اپنے گناہوں کے لیے اللہ سے معافی مانگے اور اپنا رویہ درست کرلے ۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔  ’رجا‘ کے اصل معنی امید کرنے کے ہیں لیکن جب یہ لفظ لا( نفی) کے ساتھ استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی خوف کے بھیہوتے ہیں ۔ چنانچہ لسان العرب میں صراحت ہے :

 

الرجاء فی معنی الخوف لا یکون الا مع الجحد ’’ رجاء خوف کے معنی میں اسی صورت میں آتا ہے جب کہ وہ نفی کے ساتھ ہو ۔‘‘

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی سوچو کہ تم کیا تھے اور تمہیں کیا بنادیاگیا۔ حقیر پانی کی ایک بوند کو مختلف مراحل سے گذارکر تم کو ایک مکمل انسان بنایاگیا کیا اس سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ تمہارا خالق کس شان کا ہے پھر اس کی عظمت سے ڈرتے کیوں نہیں ؟

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔  سات آسمانو ں کے تہ بہ تہ ہونے کا مطلب سات عالموں کا وجود ہے جن میں سے ہر ایک کا ایک آسمان ہے ۔ ہمارا یہ نیلگوں آسمان اس دنیا کا آسمان ہے ۔ سات آسمانوں کا علم انسان کو قدیم سے انبیائی ہدایت کے ذریعہ بخشا گیا ہے ۔ اس لیے اس کی حیثیت مسلمات کی ہے ۔ حضرت نوح نے لوگوں کو آسمانوں کی تخلیق پر غور وفکر کی دعوت دی تاکہ انہیں اللہ کی عظیم الشان قدرت کا اندازہ ہو اور حضرت نوح کی دعوت کی صداقت کی نشانیاں آسمان میں بھی دیکھ لیں ۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔  چاند اور سورج آسمانِ دنیا میں ہے اس لیے ان کو آسمانوں کی طرف منسوب کیاگیا ہے ۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔  تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ نباء نوٹ ۱۱۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جس طرح پودا زمین سے اُگتا ہے اور پھر نشو و نما پاتا ہے اسی طرح انسان کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا فرماکر اس کی نشو ونما کی ہے ۔ چنانچہ اس کا سلسلۂ تناسل پانی کی حقیر بوند سے چلتا ہے اور پھر وہ اس کی ایسی نشو و نما کرتا ہے کہ وہ پروان چڑھ کر با صلاحیت انسان بن جاتا ہے ۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی پھر تم مرکر مٹی میں مل جاؤ گے ۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی قیامت کے دن وہ تم کو دوبارہ زندہ کر کے زمین سے نکالے گا۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ایسا ہموار بنایا کہ اس پر انسان کا رہنا بسنا آسان ہوگیا۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔  پہاڑوں میں درّے اسی مقصد سے رکھے گئے ہیں تاکہ لوگ ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں پہنچ سکیں ۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔  جب حضرت نوح نے سینکڑوں سال تک دعوت پیش کر کے حجت پوری طرح قائم کی اور قوم کفر ہی پر مصر رہی تو انہوں نے اللہ کے حضور وہ فریاد کی جو آگے بیان ہوئی ہے ۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد قوم کے وہ لیڈر ہیں جن کو مال کی فراوانی حاصل تھی اور جو کثیر الاولاد تھے ۔ ان چیزوں کے گھمنڈ میں وہ اللہ کے سرکش بن گئے تھے ۔ ان کی ظاہری شان و شوکت سے متاثر ہو کر لوگ ان کی باتوں میں آ رہے تھے اور گمراہ ہورہے تھے ۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔  کافروں نے حضرت نوح کے خلاف بہت بڑی سازش کی تھی جس کی تفصیل اگرچہ بیان ہوئی ہے لیکن بعد کی آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے جاہلی عصبیت کو ابھارنا چاہا اور لوگوں کو شہ دی کہ نوح تمہیں اپنے معبودوں کو چھوڑنے کے لیے کہہ رہے ہیں تاکہ لوگ برہم ہو کر نوح پر ٹوٹ پڑیں ۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ قوم نوح کے معبودوں ( بتوں ) کے نام ہیں ۔ ان کے معنی کے بارے میں علامہ سید سلیمان ندوی کی تحقیق یہ ہے کہ :

 

’’ وَدّ کے متعلق معلوم ہو چکا ہے کہ یہ وُدّ سے ہے جس کے معنی محبت کے ہیں ۔

 

سُواع۔ اس لفظ کا مشتق منہ کلام عرب میں نہیں ملتا ممکن ہے کہ سوع سے مشتق ہو جس کے معنی زمانے کے ہیں ۔

 

ے عُوق۔عوق سے (روکنا) مضارع کا صیغہ ہے ..........یعوق کے معنی روکتا ہے یعنی مصیبتوں سے روکتا ہے ۔

 

ے غُوث۔بھی یعوق کے قاعدہ سے عَلَم( اسم خاص) ہے ۔

 

غَوث۔(فریاد کو پہنچنا) اس کا مصدر ہے ے غوث کے معنی فریاد رسی کرنا ہے ۔

 

نَسْر۔ کے لغوی معنی گدھ کے ہیں ۔ اسی شکل کا ایک مجموعۂ کواکب آسمان میں ہے جس کو نسر کہتے ہیں ۔ نسر دیوتا کی حیثیت سے سامی قوموں میں بہت مدت سے پوجا جاتا ہے ۔‘‘( ارض القرآن ج ۲ ص۲۳۶۔ ۲۳۵ )

 

ان ناموں میں یغوث خالص عربی لفظ ہے جو غوث سے ہے اور جس کے معنی فریاد رسی کرنے کے ہیں یہ قوم نوح کے بت کا نام تھا لیکن مسلمانوں کے بھی ایک طبقہ نے اپنے بعض بزرگوں کو غوث کا لقب دے رکھا ہے اور انہیں حاضر وناظر اور حاجت روا سمجھ کر مدد اور فریاد رسی کے لیے پکارتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کی توحید پر کوئی آنچ نہیں آتی۔ حالانکہ یہ کھلا شرک ہے اور شرک ایک ناقابلِ معافی گناہ ہے لیکن جو مسلمان بدعات میں غرق ہیں انہیں اس کا شعور نہیں ۔ قوم نوح بت پرستی میں مبتلا تھی اور یہ پیر پرستی میں مبتلا ہیں ۔ فریاد رسی کرنے والا ( غوث) اللہ کے سوا کوئی نہیں اس لیے اسی کو پکارنا برحق ہے ۔ کاش وہ توحید اور شرک کے فرق کو سمجھ لیتے !

 

قوم نوح کے بت ان کے ساتھ ہی طوفان میں غرق ہو گئے تھے اس لیے ان کا کوئی وجود باقی نہیں رہا۔ کافر ڈوبے اور اپنے خداؤں کو لے کرڈوبے ۔

 

بت پرستی کا آغاز قومِ نوح میں ہوا تھا۔ یہ آغاز کس طرح ہوا اس پر حضرت ابنِ عباس نے روشنی ڈالی ہے ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بتوں کے یہ نام دراصل نو کی قوم کے صالح مردوں کے نام ہیں ۔ جب وہ وفات پا گئے تو شیطان نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی کہ ان کے مجسمے بنائے جائیں ۔ ان مجسموں کی انہوں نے پرستش نہیں کی لیکن جب وہ مر گئے تو بعد کے لوگ ان مجسموں کی پرستش کرنے لگے ۔ (بخاری کتاب التفسیر)

 

گویا یہ مجسمے جو ان بزرگوں کی یادگار کے طور پر بنائے گئے تھے ۔ بت پرستی کا ذریعہ بن گئے ۔ اسی لیے اسلام نے مجسمہ سازی کو حرام قرار دیا ہے ۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ کلمات حضرت نوح کی زبان سے اس وقت نکلے جب کہ ان کی قوم گمراہی پرجمی رہی۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی پانی کا ایسا طوفان آیا کہ اس میں سب کافر غرق ہو گئے ۔ دنیا میں یہ سزا ان کو ان کے گناہوں کی پاداش میں ملی۔

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ان کے جسم اگرچہ پانی میں غرق ہوئے لیکن ان کی روحیں آگ میں داخل ہو گئیں ۔ یہ عذاب ان پر عالم برزخ میں ہورہا ہے اور قیامت کے دن تو وہ جسم کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ۔ اس آیت سے برزخ(قبر) کا عذاب ثابت ہوتا ہے ۔ اس موقع پر سورۂ مومن نوٹ  بھی پیش نظر رہے ۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔  جن معبودوں کو انہوں نے مددگار اور فریاد رس سمجھا تھا ان میں سے کوئی بھی ان کی مدد کے لیے نہیں پہنچا۔ اس طرح اللہ کے عذاب نے ان معبودوں کا باطل ہونا ثابت کر دیا۔

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔  حضرت نوح نے یہ دعا اس وقت کی جب کہ وہ پوری طرح حجت قائم کرچکے تھے ۔ اس کے بعد بھی جو لوگ کافر بنے رہے اور ان سے ایمان لانے کی کوئی امید باقی نہیں رہی تو انہوں نے یہ دعا ۔سورۂ ہود میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے :

 

وَاُوْحِیَ اِلٰی نُوْحٍ اَنَّہٗ لَنْ یؤمِنَ مِنْ قَوْلِکَ اِلاَّ مَنْ قَدْآمَنَ۔ ’’ اور نوح پر وحی کی گئی کہ تمہاری قو میں سے جو لوگ ایمان لاچکے ہیں ان کے سوا اب کوئی اور ایمان نہیں لائے گا۔‘‘( ہود۔۳۶)

 

۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔  اگرچہ ہر بچہ فطرت( توحید) پر پیدا ہوتا ہے لیکن جیسا کہ حدیث میں آتا ہے اس کے ماں ، باپ اسے یہودی، نصرانی، مجوسی اور مشرک بنادیتے ہیں یعنی انسان بالعموم ماحول کا اثر قبول کرتا ہے ۔ اگروہ مشرکانہ ماحول میں رہتا ہے تو مشرک ہی بن جاتا ہے ۔ اور بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے فطری دین پر قائم رہے اور ماحول کا اثر قبول نہ کرے ۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی انسان کا یہ حال ہے کہ وہ جس فرقہ میں پیدا ہوا ہے اور جو اس کا آبائی مذہب ہے اسی سے وہ وابستہ ہے اور یہ عصبیت اسے خدا اور مذہب کے بارے میں کھلے ذہن سے سوچنے پر آمادہ نہیں کرتی۔

 

اسی لیے حضرت نوح نے یہ دعا فرمائی کہ خدا یا زمین سے کافروں کا وجود ہی ختم کر دے ورنہ یہ کافروں ہی کو جنم دیں گے ۔ اور ان فاجروں کی نسل بھی فاجر ہی ہوگی۔

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔  حضرت نوح نے اس موقع پر اپنے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کی نیز اپنے والدین کے لیے بھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دونوں مومن تھے اور اپنے مومن والدین کے لیے مغفرت کی دعا کرنا ان کی وفات کے بعد ان کے ساتھ نیکی کرنا ہے اسلام کی یہی تعلیم ہے اور حضرت نوح نے اپنے پیچھے یہی اسوہ چھوڑا ہے ۔

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔  معلوم ہوتا ہے جو شخص بھی ایمان لے آتا ہے اُسے حضرت نوح کے گھر میں پناہ لینا پڑتی اس لیے حضرت نوح نے اس صراحت کے ساتھ دعا کی کہ جو شخص بھی میرے گھر میں مومن بن کر داخل ہوا اس کی مغفرت فرما۔

 

۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔  ساتھ ہی انہوں نے عمومیت کے ساتھ تمام مومن مردوں اور عورتوں کے لیے دعائے مغفرت کی۔ حضرت نوح کی یہ دعا جو آیت ۲۶ تا ۲۸ میں بیان ہوئی ہے قوم کے غرق ہونے سے پہلے کی ہے لیکن اس کا ذکر اخیر میں ہوا تاکہ واضح ہوجائے کہ وہ بالکل بر محل تھی اور جہاں کافروں کے حصہ میں عذاب آیا وہاں اہل ایمان کے حصہ میں مغفرت آئی۔

 

٭٭٭٭٭