پہلی آیت میں انسان کی اس حالت کا ذکر ہوا ہے جب وہ کچھ بھی نہ تھا۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ’ الانسان‘ ہے ۔ اس کا دوسرا معروف نام ’’ الدہر‘‘(زمانہ) بھی ہے اس مناسبت سے کہ یہ لفظ پہلی آیت میں آیا ہے ۔ جیسا کہ ہم واضح کر چکے ہیں سورتوں کے نام موضوع کے لحاظ سے نہیں ہوتے بلکہ خاص الفاظ (Significant words) کی مناسبت سے شناخت کے لیے ہوتے ہیں ۔
مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ دورِ اول میں نازل ہوئی ہو گی۔
جزا و سزا ہے لیکن جزا (انعام)کا پہلو غالب ہے تاکہ ان ابدی انعامات کو حاصل کرنے کی لوگوں کو ترغیب ہو اور وہ نیک کردار بنیں ۔
آیت ۱ تا ۳ میں انسان کی تخلیق اور اس کا مقصد بیان کیا گیا ہے ۔
آیت ۴ میں کافروں کے لیے سخت سزا کا اعلان ہے ۔
آیت ۵ تا ۲۲ میں نیک عمل لوگوں کا عظیم الشان صلہ بیان ہوا ہے ۔
آیت ۲۳ تا ۲۶ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو صبر، نماز اور تسبیح کی ہدایت کی گئی ہے ۔
آیت ۲۷ اور ۲۸ میں ان لوگوں کو جو دنیا پر فریفتہ ہو کر آخرت کو نظر انداز کرتے ہیں ۔ متنبہ کیا گیا ہے ۔
آیت ۲۹ تا ۳۱ میں قرآن کی نصیحت کو قبول کرنے کی ترغیب دی گئی ہے تاکہ لوگ اللہ کی رحمت میں داخل ہوں ۔ لیکن جو لوگ انکار پر مصر رہیں گے انہیں دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے ۔
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا انسان پر زمانۂ مدید میں ایک وقت ایسا نہیں گزرا جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا؟ ۱*
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفہ سے پیدا کیا ۲* تاکہ اسے آزمائیں چنانچہ ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔ ۳*
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے اس کو راہ دکھا دی۔ ۴* چاہے وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا۔ ۵*
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ کافروں کے لیے ہم نے زنجیریں اور طوق اور دہکتی آگ تیار کر رکھی ہے ۔ ۶*
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ نیک لوگ ۷* ایسی شراب کے جام پئیں گے جس میں کافور کی آمیزش ہو گی۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک چشمہ ہو گا۸* جس سے اللہ کے بندے ۹* پئیں گے ۔ اور اس کی شاخیں (جہاں چاہیں گے )نکال لیں گے ۔
۱۰۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ اپنی نذریں پوری کرتے ہیں ۔ ۱۱* اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی مصیبت ہر طرف پھیلی ہوئی ہو گی۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں ۔ ۱۲*
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم تمہیں صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے کھلاتے ہیں ۔ نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ ۱۳*
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اپنے رب کی طرف سے ایک ایسے دن کا خوف رکھتے ہیں جو ترش رو اور نہایت سخت ہو گا۔ ۱۴*
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اللہ نے ان کو اس دن کی مصیبت سے بچا لیا اور ان کو تازگی اور سرور بحشا۔ ۱۵*
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔اور ان کے صبر کے بدلہ میں انہیں جنت اور ریشمی لباس عطاء کیا۔ ۱۶*
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں وہ تختوں پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے ۔ ۱۷* نہ انہیں دھوپ کی حدت محسوس ہو گی اور نہ سردی کی شدت۔ ۱۸*
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے ۔ ۱۹* اور اس کے خوشے جھک کر لٹک رہے ہوں گے ۔ ۲۰*
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے آگے چاندی کے برتن۔ ۲۱* اور شیشے کے گلاس گردش میں ہوں گے ۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ شیشے بھی وہ جو چاندی کے ہوں گے ۲۲* اور ان کے پیمانے وہ خود مقرر کریں گے ۔ ۲۳*
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو وہاں ایسی شراب کے جام پلائے جائیں گے جس میں زنجبیل (سونٹھ) کی آمیزش ہو گی۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک چشمہ ہو گا ۲۴* جس کو سلسبیل کہا جاتا ہے ۔ ۲۵*
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے پاس ایسے لڑکے گردش میں ہوں گے جو ہمیشہ اسی سِن کے رہیں گے ۔ ۲۶* تم ان کو دیکھو تو خیال کرو یہ بکھرے ہوئے موتی ہیں ۔ ۲۷*
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں جدھر بھی دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور عظیم بادشاہی دکھائی دے گی۔ ۲۸*
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے اوپر باریک ریشم کے سبز اور اطلس کے کپڑے ہوں گے ۔ ۲۹* ان کو چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے ۔ ۳۰ * اور ان کا رب ان کو نہایت پاکیزہ مشروب پلائے گا۔ ۳۱*
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے تمہاری جزا اور تمہاری سعی مقبول ہوئی۔ ۳۲*
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ (اے نبی!) ۳۳* ہم نے تم پر قرآن بتدریج نازل کیا ہے ۔ ۳۴*
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا تم اپنے رب کے فیصلہ کا انتظار کرو۔ ۳۵* اور ان میں سے کسی گنہگار یا ناشکر ے کی بات نہ مانو۔۳۶*
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے رب کے نام کا ذکر کرو صبح و شام ۳۷*
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ رات کو بھی اس کے حضور سجدہ کرو۔ ۳۸* اور رات کے طویل حصہ میں اس کی تسبیح کرو۔ ۳۹*
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ جلد حاصل ہونے والی دنیا سے محبت رکھتے ہیں اور ایک بھاری دن کو اپنے پیچھے چھوڑ رہے ہیں ۔ ۴۰*
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ہی ان کو پیدا کیا ہے اور ان کے جوڑ بند مضبوط کئے ہیں ۔ اور ہم جب چاہیں ان کی صورتیں بدل دیں ۔ ۴۱*
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ایک نصیحت ہے تو جو چاہے اپنے رب کی طرف جانے کی راہ اختیار کر لے ۔۴۲*
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تم نہیں چاہ سکتے جب تک کہ اللہ نہ چاہے ۔ ۴۳* یقیناً اللہ علم والا حکمت والا ہے ۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے ۔ ۴۴* اور ظالموں کے لیے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ ۴۵*
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان نے زمین پر جب سے آنکھیں کھولی ہیں وہ عروج اور کمالات کے جوہر دکھا رہا ہے گویا زمین پر انسانی آبادی کا یہ دور گزشتہ ادوار کے مقابلہ میں امتیازی حیثیت رکھتا ہے اور انسان اپنی اس دنیوی ترقی پر فخر کرتا ہے لیکن اپنے ماضی پر غور نہیں کرتا کہ وہ آغاز میں کیا تھا اور اس کے خالق نے اسے کیا بنا دیا۔ ایک وقت وہ تھا جبکہ انسان سڑی ہوئی مٹی میں ڈھل رہا تھا اور سڑی ہوئی مٹی کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں ہے ۔ پھر آدم کی تخلیق کے بعد اس کی نسل کا سلسلہ نطفہ سے جو پانی کی نہایت حقیر بوند ہوتی ہے چلایا گیا۔ ہر شخص پر ایک وقت گزر چکا ہوتا ہے جبکہ وہ ایسی چیز تھا جو نہ وقیع تھی اور نہ قابلِ ذکر۔ کیا انسان کا یہ ماضی اور اس کی یہ حقیقت اس بات کی یاددہانی نہیں ہے کہ اس کے رب نے اپنے کرشمۂ قدرت سے ذرہ کو آفتاب بنا دیا ہے ؟
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ نطفہ بجائے خود مخلوط ہوتا ہے یعنی اس میں کئی قسم کی رطوبتیں ہوتی ہیں اور موجودہ فیزیالوجی( Physiology) کے رو سے ایک رطوبت(Liquid) وہ ہوتی ہے جس میں جرثومۂ حیات(Spermatozoa) ہوتے ہیں اور یہ جرثومہ خصیوں سے نکل کر کیسۂ منی(Seminal Vesicles) میں جمع ہو جاتے ہیں اور تیسری رطوبت پروسٹیٹ گلینڈ(Prostate gland )کی ہوتی ہے جو اس میں خاص بو پیدا کرتی ہے اور چوتھی رطوبت وہ غدود(glands) پیدا کرتے ہیں جو پیشاب کی نالی کے پاس ہوتے ہیں اور اسے لعابدار بناتے ہیں ۔ نطفہ ان سب رطوبتوں سے مخلوط ہوتا ہے ۔ پھر جب یہ نطفہ رحم میں بیضہ(Ovum) سے مل جاتا ہے تو بیضہ بار آور(Fertilized) ہو جاتا ہے یعنی حمل قرار پاتا ہے ۔ اس طرح انسان کی پیدائش کا آغا زمرد کے مادۂ تولید( نطفہ) کے عورت کے مادۂ تولید (بیضہ) سے مخلوط ہونے کی صورت میں ہوتا ہے ۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان کی تخلیق اس لیے ہوئی ہے تاکہ اس کا امتحان لیا جائے ۔ اسی لیے اس کو سماعت اور بصارت کی قوتیں عطا کی گئی ہیں ۔ ان قوتوں نے اسے سوجھ بوجھ رکھنے والی مخلوق بنا دیا ہے اور اسے یہ شعور بخشا ہے کہ وہ خیر و شر میں تمیز کرے ۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہم نے اس پر ہدایت کی راہ واضح کر دی ۔ فطرت کی رہنمائی کے ذریعہ بھی، آفاق میں پھیلی ہوئی نشانیوں کے ذریعہ بھی اور سلسلۂوحی و رسالت کے ذریعہ بھی۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اب اسے اختیار ہے کہ اللہ کا شکر گزار بندہ بنے یا ناشکرا اور کافر بنے ۔ جب انسان کا امتحان لینا مقصود قرار پایا تو اس کو اپنی مرضی کے مطابق شاکر یا کافر بننے کی آزادی بھی بخشی گئی۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ کافر بننے کا اختیار دیا تو گیا ہے لیکن جو لوگ کافر بنیں گے وہ یاد رکھیں کہ وہ امتحان میں ناکام ہوئے ۔ انہوں نے اپنی خواہشات کے پیچھے چل کر غلط راہ کا انتخاب کیا اس لیے آخرت میں وہ سخت سزا کے مستحق ہوں گے ۔ وہ زنجیروں میں جکڑ دئے جائیں گے ، طوق ان کے گلے میں پڑے ہوں گے اور وہ بھڑکتی آگ میں جھونک دئے جائیں گے کیسی دردناک سزائیں ہیں اللہ کی ہدایت سے منہ موڑنے والوں کے لیے !
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ ’ ابرار‘ بَرٌّ کی جمع ہے اور یہ لفظ بَرٌّ سے ہے جس کے معنی صدق و وفا اور اطاعت شعاری کے ہیں ۔ جس شخص کی یہ صفت ہو اس کو اردو میں نیک کہتے ہیں ۔ آیت کا سیاق و سباق( ۔Context)دلیل ہے کہ ابرار سے مراد اللہ کے وہ بندے ہیں جو اس کے شکر گزار اور اطاعت شعار بن کر رہے اور جنہوں نے آخرت کو مقصد بنا کر نیک عملی کی زندگی بسر کی۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ کافور جنت میں ایک چشمہ ہوگا جس کو دنیا کے کافور پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ اس کا تصور اس طرح قائم ہوتا ہے کہ وہ صفائی اور ٹھنڈک میں کافور کی طرح ہو گا نیز اس کی خوشبو اور اس کا ذائقہ ایسا ہو گا کہ پینے والے اس سے سرور حاصل کریں گے ۔ اس کی تھوڑی سی مقدار ہی شراب کو لذت بخش بنانے کے لیے کافی ہو گی اس لیے شراب کے جام میں اس کی آمیزش ہو گی۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ عباد سے مراد اللہ کے مخلص بندے ہیں ۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ ضروری نہیں ہو گا کہ وہ اس چشمہ پر آئیں اور پھر اس سے بہرہ مند ہوں بلکہ یہ بات ان کے اختیار میں ہو گی کہ وہ جہاں چاہیں اس چشمہ کو جاری کر دیں ۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ نذر یہ ہے کہ آدمی اپنے اوپر اللہ کے تقرب کا کوئی کام واجب کر لے مثلاً کسی نعمت کے حاصل ہو جانے پر یہ عہد کر کہ میں اتنے روزے رکھوں گا یا منت مانے کہ اگر مرض سے شفا یاب ہوا تو اتنا مال صدقہ کروں گا۔ایسی نذر کا پورا کرنا واجب ہے کیونکہ جو عہد اللہ کے ساتھ کیا گیا وہ بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اس کو پورا کر کے ہی آدمی اپنے صداقت شعار اور نیک ہونے کا ثبوت دے سکتا ہے ۔
اسلام نے نذر ماننے کی ترغیب نہیں دی۔ مغنی میں ہے :
وَلِاَنَّ النَّذْرَلَوْکَانَ مُسْتَحَبّاً لَفَعَلَہٗ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ وَاَفَاضِلُ اَصْحَابِہِ۔’’اور اس لیے کہ نذر اگر مستحب ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور جلیل القدر صحابہ اس پر عمل کرتے ۔‘‘ (المغنی ج ۹ص۱)
وَالْاِسْلَامُ وَاِنْ کَانَ قَدْشَرَعَۃَ اِلاَّ اِنَّہٗ لاَ یسْتَحِبُّہٗفَعْن ْابْنِ عُمَرَ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ النَّذْرِ وَقَالً! اِنَّہٗ لاَ یأتِیْ بِخَیرٍ وَّاِنَّمَا یسْتَخْرَجُ بِہٖ مِنَ الْبَخِیلِ رَاوَاہُ الْبُخَارِیْ وَمُسْلِمْ۔ ’’ اسلام نے اگرچہ نذر کو مشروع ( جائز) قرار دیا ہے لیکن یہ مستحب نہیں ہے۔ ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نذر ماننے سے منع فرمایا ہے اور فرمایا وہ کسی خیر کا موجب نہیں البتہ اس کے ذریعہ کچھ مال بخیل سے نکلوایا جاتا ہے ۔‘‘( فقہ السنہ للسید سابق ج ۳ ص ۳۵)
اور یہ بھی واقعہ ہے کہ شرعی احکام کی تکمیل کے بعد نذر کے لیے کم ہی گنجائش رہ گئی ہے کیونکہ ان احکام کی پابندی لازم اور مقدم ہے نیز نفل نماز اور صدقات بھی بلا تحدید ادا کئے جاسکتے ہیں پھر نذر کی صورت میں اپنے اوپر کچھ چیزیں واجب کرنا اپنے کو مشکلات ہی میں ڈالنا ہے اس لیے اسلام نے نذر ماننے کی ترغیب نہیں دی البتہ اگر کوئی شخص نذر مان لے تو اس کو پورا کرنے کا تاکیدی حکم دیا ہے ۔
واضح رہے کہ نذر عبادت ہے اس لیے اللہ ہی کے لیے نذر مانی جاسکتی ہے ۔ کسی اور کے نام کے نذر( منت) ماننا خواہ وہ دیوی دیوتا ہو یا پیر اور ولی شرک ہے ۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی محبت میں وہ ناداروں کی مدد کرتے ہیں ۔ حاجتمندوں کو کھانا کھلانا اس کی اولین ضرورت کو پورا کرنا ہے اس لیے اس کا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا گیا ہے ورنہ ان کو کپڑے پہنانا، ان کے علاج معالجہ اور بے گھر ہونے کی صورت میں ان کی رہائش کا انتظام کرنا سب نیکی کے کام ہیں اور ضروری بھی۔
اس زمانہ میں قیدیوں کے لیے باقاعدہ قید خانے نہیں ہوتے تھے جہاں کھانے کا بھی انتظام ہو اس لیے ان کو کھانا کھلانے کی خاص طور سے ترغیب دی گئی قطع نظر اس سے کہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم اور جنگی قیدی ہوں یا کسی جرم میں گرفتار کر لئے گئے ہوں ۔ اخلاق و انسانیت کا تقاضا ہے کہ ان کی بھوک کی تکلیف کو دور کیا جائے اور ان کے لیے کھانا مہیا کیا جائے ۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ ان محتاجوں کی مدد اس لیے نہیں کرتے کہ ان سے کسی قسم کا بدلہ ملے اور نہ اس لیے کرتے ہیں کہ ان کی تعریف ہو اور ان کا شکریہ ادا کیا جائے بلکہ ان تمام باتوں سے بے نیاز ہو کروہ صرف اللہ کی رضا جوئی کے لیے ان کی امداد و اعانت کرتے ہیں ۔ اور صدقہ حقیقۃً وہی ہے جو خالصتہً اللہ کی خوشنودی کے لیے دیا جائے ۔ نہ تو اس کا بدلہ چاہا جائے اور نہ نام و نمود مقصود ہو، جہاں ریا کا شائبہ آ گیا وہاں اجر جاتا رہا۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو نیکی بھی ہم کرتے ہیں آخرت کو مقصود بنا کر کرتے ہیں ۔ قیامت کے دن کی مصیبت کے تصور سے ہم لرزاں رہتے ہیں اور اس دن کی مصیبت سے نجات حاصل کرنے کو ہم اپنی بہت بڑی کامیابی سمجھتے ہیں ۔
قیامت کا دن ترش رو ہو گا یعنی وہ دن ایسا ہو گا کہ ہر مجرم کو ترش رو بنا دے گا۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ ان لوگوں کو جن کے اوصاف اوپر بیان ہوئے قیامت کے دن کی آفت سے محفوظ رکھے گا اور انہیں کوئی پریشانی نہیں ہو گی بلکہ ان کے چہرے ترو تازہ ہوں گے اور ان کے دل شاداں و فرحاں کہ وہ دنیا کے امتحان سے کامیاب نکل آئے ۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ واضح ہوا کہ جنت مفت میں ملنے والی چیز نہیں ہے بلکہ صبر کے بدلہ میں ملے گی۔ شرعی احکام کی پابندی اور نیکی اور تقویٰ کی زندگی یقیناً صبر آزما ہوتی ہے لیکن اس امتحانی مرحلہ سے کامیابی کے ساتھ گزرنے والوں کے لیے ابدی جنت کے دروازے کھلتے ہیں ۔
جنت کی ہر چیز اعلیٰ درجہ کی ہو گی ۔ لباس بھی نہایت نفیس اور خالص ریشم کے ہوں گے ۔ جنت کی نعمتوں میں جو آگے بیان ہوئی ہیں لباس کا ذکر سب سے پہلے ہوا۔ گویا سب سے پہلا اعزاز جو اہل جنت کو عطا کیا جائے گا وہ لباسِفاخرہ ہو گا۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ ان آیتوں میں جنت کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے کہ کیسی شاندار ہو گی وہ جنت اور کس شان سے رہیں گے اس میں جنتی! جنت کی یہ جھلک قرآن ہی نے دکھائی ہے اور یہ اس کتاب کا طرۂ امتیاز ہے کہ وہ دنیا ہی میں جنت کی سیر کراتی ہے ۔
اہل جنت تختوں پر تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے اور یہ تعبیر ہے ان کے شاہانہ انداز سے جنت میں رہنے کی۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنت کی فضا بالکل خوشگوار ہو گی۔ سردی اور گرمی کی کوئی تکلیف وہاں محسوس نہ ہو گی۔ ہر چیز کمال درجہ اعتدال پر ہو گی۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جنت کے درختوں کے سائے ان پر جھکے ہوئے ہوں گے ۔ اس سے جنت کے پر فضا اور راحت بخش ہونے کا تصور قائم ہوتا ہے ۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ جنت کے درختوں کے خوشے اس طرح لٹک رہے ہوں گے کہ ان کو بہ آسانی توڑا جاسکے ۔ ان کے پھل حاصل کرنے کے لیے کوئی زحمت کرنا نہیں ہو گی۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ سورۂ زخرف آیت ۷۱ میں بیان ہوا ہے کہ جنت میں سونے کے برتن ہوں گے اور یہاں چاندی کے برتنوں کا ذکر ہوا ہے ۔ معلوم ہوا کہ جنت میں چاندی کے بھی برتن ہوں گے اور سونے کے بھی۔
واضح رہے کہ دنیا میں چاندی اور سونے کے برتنوں کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے ۔ یہ سامانِ عیش جنت ہی کے لیے موزوں ہے ۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ پیالے شیشے کے ہوں گے اور شیشہ وہ جو چاندی کا ہو گا۔ بالفاظ دیگر ایسی چاندی کے پیالے ہوں گے جو شیشہ کی طرح شفاف(Transparent) ہو گی۔ یہ جنت کی چاندی کی خصوصیت ہو گی دنیا میں ایسی چاندی کا وجود نہیں ہے ۔ اور جس چیز کا وجود نیا میں نہیں ہے اس کا تصور دے کر قرآن نے اپنے پیرووں کو کیسی روحانی پرواز بخشی ہے !
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا مفہوم کچھ اس طرح سمجھ میں آتا ہے کہ جنت کے گلاس ایڈجسٹ کرنے کے قابل(Adjustable) ہوں گے۔ وہ ان کا جو پیمانہ چاہیں گے مقر ر کریں گے تاکہ وہ اپنی مطلوبہ مقدار میں مشروب حاصل کرسکیں ۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ زنجبیل(سونٹھ) ایک خوشبو دار اور حرارت پیدا کرنے والی چیز ہے ۔ اس سے جنت کے چشمہ کا ایک ہلکا سا تصور قائم ہوتا ہے ورنہ دنیا کی سونٹھ پر جنت کی زنجبیل کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ زنجبیل کی آمیزش سے جنت کی شراب کیف آور بنے گی۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ سلسبیل کے لغوی معنی ہیں آسانی سے حلق میں اترنے والا اور رواں ، دواں ۔ زنجبیل کے چشمہ کا یہ نام اس کی خصوصیت کو ظاہر کرتا ہے کہ اس میں کسی طرح کی تلخی نہیں ہو گی بلکہ اس کا پانی بڑی آسانی سے حلق سے اترے گا۔
جنت کی دوسری نعمتوں کی طرح اس کے اس چشمہ کی خصوصیت کا بھی صحیح اندازہ ہم دنیا میں نہیں قائم کرسکتے جن لوگوں کو جنت کی سعادت حاصل ہو گی وہی اس کی خصوصیات سے آشنا ہو سکیں گے ۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورۂ طور نوٹ ۲۲ میں گزر چکی۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ لڑکے اپنے مال اور اپنی نظامت کا ایسا منظر پیش کریں گے کہ گویا وہ بکھرے ہوئے موتی ہیں ۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا کی طرح جنت میں نپی تلی نعمتیں نہیں ملیں گی بلکہ ہر شخص وہاں نعمتوں سے مالا مال ہو گا اور شاہانہ انداز کی شان و شوکت اسے حاصل ہو گی اور جنت کا چپہ چپہ اسے عزت و سرفرازی بخشنے والا ہو گا۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورۂ کہف نوٹ ۴۸ میں گزر چکی۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ سورۂ کہف آیت ۳۱ میں بیان ہوا ہے کہ ان کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور یہاں چاندی کے کنگن پہنائے جانے کا ذکر ہوا ہے ۔ معلوم ہوا کہ اہل جنت کو دونوں ہی قسم کے کنگن پہنائے جائیں گے چاندی کے بھی اور سونے کے بھی۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ گویا اللہ کا فضلِ خاص ہو گا کہ وہ ان شرابوں کے علاوہ جس کا ذکر اوپر ہوا ایک خاص قسم کا مشروب جو نہایت ہی پاکیزہ ہو گا انہیں پلائے گا۔ اس کی لذت اور اس کا کیف کیا ہو گا اس کا کون اندازہ کرسکتا ہے ۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ صلہ اور انعام ہے ان اعمال کا جو دنیا میں تم نے انجام دئے اور تمہاری سعی تمہارے رب کی نظر میں قابلِ قدر ٹھہری اور مقبولِ بارگاہ ہوئی۔ یہ مبارکباد کا بہت بڑا اعزاز و اکرام ہو گا جس سے اہلِ جنت کو نوازا جائے گا۔
۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اب خطاب کا رخ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو رہا ہے اور آپ کو ہدایات دی جا رہی ہیں اور آپ کے توسط سے آپ کے پیرووں کو۔
۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بنی اسرائیل نوٹ ۱۴۰۔
۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ ان کافروں کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے اس کا صبر کے ساتھ انتظار کرو۔
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔ آثِم( گنہگار) یعنی ناجائز کاموں کا ارتکاب کرنے والا اور کَفُورا( ناشکرا) یعنی اللہ کی نعمتوں کی قدر نہ کرنے والا۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص گناہ کی زندگی گزار رہا ہو وہ تم سے گناہ کے کام کرنے کے لیے ہی کہے گا اور جو اللہ کی نعمتوں کی ناقدری کرنے والا ہو وہ انکارِ نعمت اور کفر ہی کی باتیں کرے گا تو ایسے کسی بھی شخص کی باتوں میں تم مت آؤ اور اس کا دباؤ قبول نہ کرو۔
اس آیت میں خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے لیکن اصل مخاطب آپ کے پیرو ہیں ۔
۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ صبح و شام اللہ کا نام یاد کرنے کا حکم عمومیت کے ساتھ دیا گیا ہے یعنی اللہ کی حمد و تسبیح کے کلمات صبح و شام دل کو حاضر رکھ کر زبان سے ادا کرتے رہو۔ اس حکم کی تعمیل کی بہترین صورت صبح و شام کی نمازیں قرار پائیں ۔
۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ سجدہ نماز کا اہم رکن ہے اس لیے نماز کو سجدہ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ رات میں بھی نماز پڑھو۔
۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ آغاز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کے طویل حصہ میں اللہ کی تسبیح کا حکم دیا گیا تھا۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد سورۂ مزمل میں رات کا بڑا حصہ نماز میں گزارنے کا حکم دیا گیا۔ تفصیل کے لیے دیکھئے سورۂ مزمل نوٹ ۲ اورنوٹ ۴۔
۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کافروں کو دنیا کا مفاد اتنا عزیز ہے کہ ان کو قیامت کے دن کی کوئی پرواہ نہیں حالانکہ وہ دن بڑا سخت ہو گا۔ ہر مجرم اپنے گناہوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہو گا اور اپنی نجات کے لیے سخت پریشان ہو گا۔
۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب ہم ہی نے ان کو پیدا کیا ہے اور ان کے جوڑ بند مضبوط کئے ہیں تو ہم اگر چاہیں تو ان کی صورتیں مسخ بھی کرسکتے ہیں پھر وہ اپنے رب کو بھول کر اپنی موجودہ خلقت پر نازاں کیوں ہیں اور اس سے ڈرتے کیوں نہیں ؟
اس موقع پر سورۂ یسٰین آیت ۶۷ اور نوٹ ۷۲ بھی پیشِ نظر رہے ۔
۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن سر تا سر نصیحت ہے اور اس نصیحت کو قبول کر کے آدمی اپنے رب تک پہنچنے کی راہ اختیار کرسکتا ہے ۔
۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ تکویر نوٹ ۳۰۔
۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اپنے کس بندے کو رحمت میں داخل کیا جائے اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ اپنے علم اور اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق کرتا ہے ۔
۴۵۔۔۔۔۔۔۔۔ ظالمین سے مراد توحید اور آخرت کا انکار کرنے والے لوگ ہیں جن کی زندگیاں اس انکار کے نتیجہ میں بالکل غلط ہو کر رہ گئیں اور وہ گمراہ ہوئے ۔ ایسے لوگوں کو دردناک سزا دینا اللہ کی حکمت اور اس کے عدل کا تقاضا ہے اس لیے اس نے ان کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے ۔