دعوۃ القرآن

سورة عَبَسَ

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

سورہ کا آغاز لفظ عبس (تیوری چڑھائی ) سے ہوا ہے جو ایک مخصوص واقعہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔  اسی مناسبت سے اس سورہ کا نام عبس رکھا گیا ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

 یہ سورہ مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس زمانہ میں نازل ہوئی ہو گی جب کہ اہل مکّہ کے سامنے دعوت پیش ہو چکی تھی اور سرداران قریش نے اسے رد کر دیا تھا۔

 

مرکزی مضمون

 

اِنذار یعنی جزا کے دن سے انسان کو خبردار کرنا ہے تاکہ وہ عقیدہ و عمل میں صحیح رویّہ اختیار کرے۔  سابق سورہ کے ساتھ اس کی مناسبت بالکل ظاہر ہے۔ اس کے اخیر میں یہ فرمایا گیا تھا کہ تم ان ہی لوگوں کو  قیامت سے خبردار کر سکتے ہو جو اس سے ڈرنے کے لئے آمادہ ہوں۔   اس سورہ میں واضح کیا گیا ہے کہ جو لوگ قیامت کے انکار پر مصر ہوں اور انہیں اپنے انجام کی کوئی پروا نہ ہو ان کے پیچھے جوش تبلیغ میں وقت ضائع نہ کیا جائے۔

 

نظم کلام

 

 آیت  ۱   تا  ۱۰ میں ایک مخصوص واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کو متوجہ کیا گیا ہے کہ جو لوگ کبر و غرور اور ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں ان کے پیچھے پڑنے کے بجائے ان لوگوں کی طرف  توجہ دیں جو طَالب حق ہیں اور اپنی اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔

 

آیت  ۱۱  تا  ۱۶  میں قرآن کی عظمت و رفعت بیان کی گئی ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ جس چیز کو قبول کرنے  کی دعوت نبی صلی اﷲ علیہ و سلم دے رہے ہیں وہ کتنے بلند مرتبہ کی چیز ہے۔ لہذا جو اس کی ناقدری کریں گے وہ اپنے ہی کو بہت بڑے  خیر سے  محروم رکھیں گے۔  اس با عظمت کلام کو پیش کر نے کے لئے پر وقار طریقہ ہی اختیار کیا جانا چاہئے۔

 

آیت  ۱۷  تا  ۳۲  میں قیامت کا انکار کرنے والوں کو تنبیہ اور انسان کے دوبارہ اُٹھانے جانے پر اﷲ کی ربوبیت سے استدلال کیا گیا ہے۔

 

آیت  ۳۳  تا  ۴۲  میں قیامت کی  ہولناکی کی تصویر  پیش کرتے ہوئے نیک کردار اور بد کردار لوگوں کا الگ الگ انجام بیان کیا گیا ہے۔

ترجمہ

اﷲ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔  تیوری چڑھائی ۱* اور  منہ پھیر لیا۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔  اس بات پر کہ اس کے پاس نابینا  آیا ۲*۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔  (اے پیغمبر!) تمھیں کیا معلوم شاید وہ پاکیزگی حاصل کرتا۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔  یا نصیحت پر دھیان دیتا اور نصیحت اس کے حق میں مفید ہوتی۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔ جو شخص بے پرواہی برتتا ہے۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔  اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔  حالانکہ اس کے اصلاح قبول نہ کرنے کی تم پر کوئی ذمہ داری نہیں۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔  اور جو تمہارے پاس دوڑتا ہوا آتا ہے۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ اﷲ سے ڈرتا بھی ہے۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔  اس سے تم بے پرواہی برتتے ہو ۳*۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔  ہرگز نہیں ۴*  یہ تو ایک یاد دہانی ہے ۵*۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔  تو جو چاہے اسے قبول کرے۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔  یہ ایسے صحیفوں اوراق* میں ہے جو نہایت قابل احترام ہیں ۶*۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔  بلند مرتبہ اور پاکیزہ ہیں ۷*۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔ ایسے کاتبوں کے ہاتھوں میں ہیں ۸*۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔  جو معزز اور وفا شعار ہیں ۹*۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔  غارت ۱۰* ہو انسان کیسا نا شکرا ہے۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔  اسے  اﷲ نے کس چیز سے پیدا کیا ؟ ۱۱*۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔  ایک بوند سے پیدا کیا اور اس کی منصوبہ بندی کی ۱۲*۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔  پھر اس کے لئے راہ آسان کر دی ۱۳*۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔  پھر اس کو موت دی ۱۴* اور قبر میں دفن کرایا ۱۵*۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔  پھر جب وہ چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا ۱۶*۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔  ہرگز نہیں۔ اس نے اس حکم کی تعمیل ۱۷* نہیں کی جو اﷲ نے اسے دیا تھا ۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔  انسان ذرا اپنی غذا کو دیکھے۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔  کہ ہم نے خوب پانی برسایا ۱۹*۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔  پھر زمین کو اچھی طرح پھاڑا ۲۰*۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔  پھر اس میں اگائے غلے۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔  اور انگور اور ترکاریاں۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔  اور زیتون اور کھجور۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔  اور گھنے باغ۔

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔  اور میوے اور چارہ۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔  تمہاری اور تمہارے مویشیوں کی منفعت کے لئے ۲۱*۔

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔  پھر جب وہ کانوں کو بہرا کر دینے والی آواز  گرجے گی ۲۲*۔

 

۳۴۔۔۔۔۔۔۔  اس دن آدمی بھاگے گا اپنے بھائی سے۔

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔  اپنی ماں اور اپنے باپ سے۔

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔  اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے۔

 

۳۷۔  اس روز ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہو گی ۲۳*۔

 

۳۸۔  کتنے ہی چہرے اس روز روشن  ہوں گے  ۲۴*۔

 

۳۹۔  خنداں و شاداں ۲۵*۔

 

۴۰۔  اور کتنے ہی چہرے اس روز  غبار آلود  ہوں گے۔

 

۴۱۔  ان پر سیاہی چھائی ہو گی ۲۶*۔

 

۴۲۔  یہ ہوں گے وہی کافر اور فاجر لوگ۔   

تفسیر

(۱۔۔۔۔۔۔۔۔  تیوری چڑھانے کا فعل جیسا کہ آگے کے مضمون سے واضح ہے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم سے صادر ہوا تھا۔ لیکن یہاں مخاطب کے بجائے غائب کا صیغہ استعمال کیا گیا متنبہ کرنے کا یہ حکیمانہ انداز ہے۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد عبد اﷲ ابن اُم مکتومؓ ہیں جو نابینا تھے۔ یہ حضرت خدیجہؓ کے پھوپھی زاد بھائی اور نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کے برادر نسبتی تھے۔

 

نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے انہیں حقیر جان کر تیوری نہیں چڑھائی تھی کیونکہ آپ غریبوں ، ناداروں ، اور معذوروں کی سب سے زیادہ قدر فرمانے والے تھے۔ بلکہ ان کا آنا اس بنا پر آپ کو ناگوار ہوا تھا کہ آپ کی مجلس میں اس وقت قریش کے بڑے بڑے سردار موجود تھے جن کے سامنے  آپ بڑے انہماک کے ساتھ اسلام کی دعوت پیش کر رہے تھے اس موقع پر عبد اﷲ ابن اُم مکتومؓ کی طرف توجہ کرنے سے سرداران قریش کی طرف التفات میں کمی ہوتی اس لئے آپ نے سرداران قریش سے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا اور عبد اﷲ ابن اُم مکتومؓ  کی طرف توجہ نہیں فرمائی۔  نبی صلی اﷲ علیہ و سلم سے یہ چوک کسی غلط جذبہ کے تحت نہیں ہوئی تھی بلکہ جوش دعوت میں ہوئی تھی لیکن چونکہ یہ ایک ناپسندیدہ بات تھی اس لئے اﷲ تعالیٰ نے اس پر گرفت فرمائی۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔  ان آیات میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ مختصراً یہ ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کی مجلس میں ابو جہل امیہ بن خلف، عتبہ وغیرہ سرداران قریش موجود تھے جنہیں آپ قبول اسلام کی دعوت دے رہے تھے کہ اس اثنا میں ابن اُم مکتومؓ جو نابینا تھے تشریف لائے۔ وہ اپنی اصلاح کی غرض سے اور نصیحت سننے کی طلب میں تشریف لائے تھے ان کی طرف توجہ کرنے کے بجائے آپ سرداران قریش ہی کی طرف متوجہ رہے جو نصیحت پر کان دھرنے کے لئے آمادہ نہیں تھے۔ یہ بات شان نبوت اور وقار دعوت کے خلاف تھی۔  اس لئے اس پر تنبیہ نازل ہوئی۔  اس تنبیہ کا رخ بظاہر نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کی طرف ہے۔ لیکن اصل میں اس کی زد منکرین دعوت پر پڑ رہی ہے اور مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ جن لوگوں پر دعوت حق واضح ہو چکی اور وہ دیدہ و دانستہ انکار پر مصر ہیں ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور اپنی توجہ ان بندگان خدا کی طرف مبذول کرو جو ہدایت کے طالب اور قرآن کے قدرداں ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی زندگیوں میں پاکیزگی آ جائے۔  دوسری طرف منکرین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ تمھاری اصلاح کے سلسلہ میں پیغمبر کے اس اضطراب اور انتھک کوشش کے باوجود اگر تم اس پر کان دھرنے کے لئے آمادہ نہیں ہو تو جس کتاب کی طرف تمھیں دعوت دی جا رہی ہے اس کی وقعت اس سے کم ہونے والی نہیں بلکہ تم خود ہی بے وقعت ہو گے۔  یہ کتاب تو نہایت بلند  اور عالی مرتبت ہے اس کی ناقدری کرنے والوں کے حصہ میں سوائے محرومی کے کچھ نہیں آ سکتا۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ایسے ناقدروں کے پیچھے پڑنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد قرآن ہے۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یہاں قرآن کی عظمت بیان کی گئی ہے اور واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ جو لوگ اس کلام کی ناقدری کرتے ہیں وہ اپنی ہی قدر گھٹاتے ہیں۔  ورنہ اس کی جو قدر و منزلت آسمانوں میں ہے اس کا اگر انہیں اندازہ ہوتا تو وہ ہرگز ناقدری نہ کرتے۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔  قرآن شیطان کی دخل اندازیوں سے بالکل پاک ہے اس میں باطل کی آمیزش ممکن ہی نہیں کیونکہ شیاطین کی رسائی اس کتاب تک ہو ہی نہیں سکتی انہیں اس سے بہت دور رکھا گیا ہے لہذا قرآن از اول تا آخر خالص کلام الہٰی پر مشتمل اور ہر قسم کی آمیزشوں سے پاک ہے۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد فرشتے ہیں جو قرآن کو لکھ رہے تھے۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ ان فرشتوں کی صفات ہیں جو قرآن کو آسمان پر لکھ رہے تھے اور اسے بحفاظت نبی صلی اﷲ علیہ و سلم تک پہنچا رہے تھے۔  اس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ یہ قرآن جن فرشتوں کے ذریعہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و سلم تک پہنچایا جا رہا ہے وہ ایسے ذی شان بلند پایہ اور امانتدار ہیں کہ ان سے کسی قسم کی خیانت کا صدور ممکن ہی نہیں اور نہ وہ شیطان کو کسی قسم کی مداخلت کا موقع دے سکتے ہیں اس لئے اس میں شک کی ذرہ برابر گنجائش نہیں کہ وہ اس خدائی امانت کو جوں کا توں نبی صلی اﷲ علیہ و سلم تک پہنچا رہے ہیں۔       

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یہاں سے کلام کا رخ کفار کی طرف پھرتا ہے۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی انسان اپنی حقیقت پر غور کرے کہ اس کی زندگی کا آغاز پانی کے ایک حقیر قطرے سے ہوا پھر اس میں یہ گھمنڈ کہاں سے پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ خدا کے سامنے اپنے کو کچھ سمجھنے لگے اور  اس کے اس احسان کو کہ اسے ایک بہترین مخلوق کی حیثیت دی فراموش کر دے۔

 

یہاں قیامت کے دن انسان کے اُٹھائے جانے پر بھی استدلال ہے ،  یعنی جس ہستی کی کرشمہ سازیوں کا یہ حال ہو کہ وہ پانی کی ایک حقیر بوند سے انسان جیسی عظیم مخلوق کو اٹھا کھڑا کر سکتی ہے اس کے لئے آخر یہ کیوں ناممکن سمجھا جائے کہ وہ قیامت کے دن اسے دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گی ؟

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ہر انسان کی تخلیق ایک منصوبہ کے ساتھ ہوئی  ہے۔ مثلاً اس کی شکل و صورت، جسامت، ذہنی صلاحیت کام کرنے کی استعداد ، قوت و طاقت ، مقام پیدائش اور موت کا وقت وغیرہ ، اس خدائی منصوبہ کے مطابق ہی انسان زندگی گزارتا ہے اور اس سے آزاد ہونا اس کے لئے ناممکن ہے۔  یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کی تخلیق کی ایک غایت ہے۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد زندگی کی راہ ہے جس کے نشیب و فراز کو انسان بآسانی طے کرتا ہے۔  اس کے وجود کو برقرار رکھنے اور اس کی نشو نما کے لئے جن جن وسائل کی ضرورت تھی سب مہیا کر دئے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر بچہ جبلّی طور پر ماں کی چھاتیوں کو چوستا ہے اور اس کے لئے غذا کی فراہمی آسان ہو جاتی ہے۔ اسی طرح عمل تنفس ایک مشکل کام ہے لیکن انسان مرتے دم تک اس طرح تسلسل کے ساتھ سانس لیتا اور خارج کرتا رہتا ہے کہ اسے ذرا بھی تکان لاحق نہیں ہوتی۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی موت ہر شخص کے لئے مقدر ہے اس سے کسی کو مفر نہیں۔  اور جب انسان کی بے بسی کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی موت کو ایک لمحہ کے لئے بھی ٹال نہیں سکتا تو پھر وہ کس بل بوتے پر اپنے خالق سے کفر کرتا ہے۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔  معلوم ہوا کہ مردوں کو قبر میں دفن کرنا طریقہ فطرت ہے  بخلاف جلانے کے کہ یہ طریقہ نہ الہامی ہے اور نہ مطابق شرع۔

 

اسلام چونکہ مہد سے لے کر لحد تک کا دین ہے اس لئے اس نے جہاں جینے کا صحیح طریقہ بتلایا ہے وہاں مرنے کا بھی صحیح طریقہ بتلایا ہے۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی انسان کو دوبارہ اُٹھا کھڑا کرنا اﷲ کی مشیّت پر موقوف ہے یہ کام اس کے لئے نہ مشکل ہے اور نہ اس کی مشیّت میں کوئی چیز مانع ہو سکتی ہے۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔  حکم سے مراد وہ تمام احکام ہیں جو انسان کی فطرت میں اﷲ تعالٰی نے ودیعت فرمائے ہیں مثلاً ایک  خدا کی پرستش کرنا ، سچ بولنا ، انصاف کرنا ، ظلم نہ کرنا وغیرہ اور وہ احکام بھی جو اس نے اپنے پیغمبروں اور کتابوں کے ذریعہ نازل فرمائے۔ 

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی زندگی بعد موت پر دلائل بہ کثرت ہیں۔ انسان جس غذا سے روزانہ فائدہ اُٹھاتا ہے اور اسے معمولی خیال کرتا ہے۔ذرا اسی پر غور کر کے دیکھے کہ وہ پیدا کیسے ہوتی ہے ؟  اگر اﷲ اسے پیدا نہ کرتا تو انسان کو غذا کہاں سے میسر آتی ؟  اس کی پرورش کا یہ سامان اور ربوبیت کا یہ اہتمام اس بات کا متقاضی ہے کہ انسان سے ان نعمتوں کے بارے میں باز پرس ہو کہ اس نے اپنے رب کی ان نعمتوں کو پاکر  اس کی شکر گزاری کا طریقہ اختیار کیا یا ناشکری کی۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔  بارش کا کوئی الگ دیوتا نہیں ہے بلکہ اﷲ ہی ہے جو آسمان سے پانی برساتا ہے جس سے انسان کو پینے کے لئے بھی پانی میسر آتا ہے اور زمین کی روئیدگی کا بھی سامان ہوتا ہے۔  اگر وہ بارش کا انتظام نہ کرتا تو کیا انسان کے لئے زندہ رہنا ممکن ہوتا ؟ 

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ اﷲ ہی کا کرشمہ قدرت ہے کہ وہ مینہہ برساتا اور زمین کو پھاڑ کر اس کے اندر سے کونپلیں نکالتا اور نباتات اگاتا ہے۔  یہ سب دیکھتے ہوئے یہ کہنے کی جسارت کس طرح کرتے ہو کہ وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ قیامت کے دن زمین پھاڑ کر مردوں کو جلا اُٹھائے۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی کیا یہ نعمتیں جن سے تم رات دن فائدہ اٹھاتے ہو اپنے ساتھ ذمہ داری کا کوئی تصور نہیں لاتیں ؟  جس خدا نے تم پر یہ احسانات کئے ہیں کیا وہ تم سے باز پرس نہیں کرے گا کہ تم اس کے شکر گزار بندے بن کر رہے ، یا کفرانِ نعمت کیا ؟

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد قیامت کی ہولناک آواز ہے۔  جب آخری صور پھونکا جائیگا تو اس کی ہولناک آواز تمام مرے ہوئے انسانوں کو اٹھا کھڑا کرے گی۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔  اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ دنیا میں انسان اپنے  قریبی عزیزوں کی خاطر قبول حق سے  گریز کرتا ہے لیکن قیامت کے دن کی مصیبت ایسی ہو گی کہ نہ یہ ان کے کام آ سکے گا ، اور نہ وہ اس کے کام آ سکیں گے۔ ہر شخص کو اپنی نجات کی فکر لگی ہو گی اور کسی کا ہوش نہ ہو گا۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ مخلص مومنین کے چہرے ہوں گے جو ایمان کی روشنی سے دمک رہے ہوں گے۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔  خوشی اس بات کی کہ وہ دنیا کے امتحان میں کامیاب ہوئے اور ان کی محنت ٹھکانے لگی۔  چہروں کی شگفتگی ان کی نیک روی کا نتیجہ ہو گی اور جنت کا پروانہ پا کر وہ شاداں و فرحاں ہوں گے۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ کافروں کے چہرے ہوں گے جن پر کفر کی سیاہی چھائی ہوئی ہو گی اور ان کی بد عملی ان کے چہروں کو خاک آلود کر رہی ہو گی۔  

  

 

٭٭٭٭٭