دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ الاٴعلی

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

  پہلی آیت میں خدا کی صفت الاعلیٰ بیان ہوئی ہے۔ اسی مناسبت سے اس سورہ کا نام الاعلیٰ رکھا گیا ہے۔

 

زمانہ نزول

 

 یہ سورہ مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اس وقت کی نازل شدہ ہے جب کہ نزول وحی کا آغاز ہوۓ زیادہ دن نہیں گزرے تھے اور آپؐ قرآن کو اخذ کرنے میں یہ اندیشہ محسوس کر رہے تھے کہ کہیں کوئی آیت بھول نہ جائیں۔ اسی طرح دعوت و تذکیر کا کام بھی بالکل ابتدائی مرحلہ میں تھا۔

 

مرکزی مضمون

 

  فلاح آخرت ہے اور اس کا دارو مدار ہدایت خداوندی کو قبول کرنے پر ہے جو قرآن کی شکل میں پیغمبر پر نازل ہو رہی ہے۔

 

 اس سورہ میں خطاب براہ راست نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے اور بالواسطہ قرآن کے ہر پڑھنے والے سے البتہ آگے چل کر خطاب کا رخ دنیا پرستوں کی طرف ہو گیا ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ تا ۵ میں خدا کی پاکیزگی بیان کرنے کا حکم دیتے ہوۓ اس کی صفات بیان کی گئی ہیں تاکہ انسان صحیح معنیٰ میں خدا شناس بن جاۓ۔

 

آیت ۶ تا ۸ میں وحی الٰہی کے پیغمبر کے حافظہ میں محفوظ کیے جانے کا یقین دلایا گیا ہے ، جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے تسلی اور ہر طالب حق کے لیے اطمینان کا سامان ہے۔

 

آیت ۹  تا ۱۵ میں تذکیر کی ہدایت کرتے ہوۓ بتایا گیا ہے کہ اس سے کس قسم کے لوگ فائدہ اٹھائیں گے اور کس قسم کے لوگ دور رہیں گے اور پھر ان میں سے ہر ایک کے رویہ کا نتیجہ آخرت میں کیا نکلے گا۔

 

آیت ۱۶ تا ۱۹ خاتمہ کلام ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو ترجیح دینا وہ بنیادی غلطی ہے جس کی بنا پر انسان وحی کی رہنمائی سے محروم رہتا ہے اور برے انجام سے دو چار ہوتا ہے۔ قرآن ہی میں نہیں اگلے صحیفوں میں بھی یہی بات بتلائی گئی تھی۔

 

فضیلت

 

 یہ سورہ مختصر ہونے کے باوجود توحید ، رسالت اور آخرت تینوں مضامین پر مشتمل ہے اور تذکیر کا پہلو بھی مؤثر انداز میں آگیا ہے اس لیے جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں قرأت کے لیے زیادہ موزوں قرار پائی ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عیدین اور جمعہ میں سَبّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلیٰ اور ھَلْ اَتَاکَ حَدِیثُ الغاَشِیَۃِ۔ (یعنی سورہ اعلیٰ اور سورہ غاشیہ ) پڑھا کرتے تھے۔ (مسلم کتاب الجمعہ)

ترجمہ

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے رب اعلیٰ۱ * کے نام کی تسبیح کرو۲ *

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے پیدا کیا اور متناسب بنایا ۳ *

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے منصوبہ بنایا۴ * اور رہنمائی کی ۵ *

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس نے چارہ اگایا ۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس کو سیاہ کوڑا کر کٹ بنایا ۶ *

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (اے  نبی !) ہم تمہیں پڑھائیں گے پھر تم نہیں بھولو گے ۷ *

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر جو اللہ چاہے ۸ *۔ وہ کھلی بات کو بھی جانتا ہے اور چھپی بات کو بھی ۹ *

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم تمہارے لیے آسانی کی راہ ہموار کر دیں گے ۱۰ *

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا تم نصیحت کرو اگر نصیحت کرنا مفید ہو ۱۱ *

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نصیحت قبول کرے گا وہ جو ڈرتا ہو گا ۱۲ *

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس سے گریز کرے گا وہ جو بڑا بد بخت ہو گا

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بڑی آگ میں داخل ہو گا۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر نہ اس میں مرے گا اور نہ جۓ  گا ۱۳ *

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کامیاب ہوا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی ۱۴ *

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنے رب کا نام ۱۵ * لیا اور نماز پڑھی ۱۶ *

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو ۱۷ *

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ آخرت بدرجہا بہتر اور پائدار ہے ۱۸ *

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ (تعلیم) اگلے صحیفوں میں بھی دی گئی تھی

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں ۱۹*

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رب کی تشریح سورہ فاتحہ نوٹ ۴ میں گزر چکی۔

 

یہاں رب کی صفت اعلیٰ بیان ہوئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خدا جو تمام انسانوں اور ساری مخلوقات کا پروردگار و آقا ہے ایک برتر اور ابالا تر ہستی ہے اس کی شان اور اس کا رتبہ بہت بلند ہے۔ انسان فطرۃً اس کو جانتا ہے اور عقل اس کو پہچانتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لینا چاہیے کہ اس بلند و بالا ہستی کی  کُنہ معلوم کرنے اور اس کو اپنی عقل کی گرفت میں لینے کی کوشش بالکل بے سود ہے۔

 

جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خدا کیونکر ہوا

 

عقل سے جو گھر گیا لا انتہا کیوں کر ہوا

 

جو لوگ اس کی معرفت حاصل کرنے کے بجاۓ اس کی اصل حقیقت معلوم کرنے کے پیچھے پڑ گۓ وہ فلسفیانہ باتوں میں الجھ کر بالکل بھٹک گۓ۔ مثال کے طور پر جنہوں نے اسے ’’آتما‘‘ قرار دیا وہ ساری موجودات میں اس کے حلول کے قائل ہو گۓ۔

 

‘The sage sees all beings in the Atman and the Atman in all being. (The Essence of Principal Upnishads p. 5)

 

 

خدا کا یہ نہایت گھٹیا تصور ہے جو شرک کی بنیاد ہے۔ قرآن اس بنیاد ہی کو ڈھا دیتا ہے اور خدا کی ذات کے بارے میں قیاس آرائیاں کرنے اور فلسفیانہ بحثیں کھڑی کرنے سے یکسر روکتا ہے۔ وہ اس کی ایسی معرفت عطاء کرتا ہے جو عقل کو جِلا بخشنے والی، قلب کو مطمئن کرنے والی اور انسان کو صحیح معنیٰ میں خدا شناس بنانے والی ہے یہ معرفت خدا کی صفات پر غور کرنے سے حاصل ہوتی ہے س لیے قرآن خدا کی صفات کا تفصیل سے اور بہ کثرت ذکر کرتا ہے۔

 

رب کے اعلیٰ ہونے کی صفت اس مشرکانہ تصور کو باطل قرار دیتی ہے کہ خداؤں میں کوئی چھوٹا ہے تو کوئی بڑا اور کوئی دیو ہے تو کوئی مہا دیو۔ ساتھ ہی وہ اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ خدا صرف ایک ہے اور وہی اعلیٰ و بر تر ہے۔ اس کے سوا کوئی خد ہے ہی نہیں پھر کسی کے برتر ہونے کا کیا سوال؟ اور سرے سے کوئی دیو ہے ہی نہیں پھر کسی کے مہا دیو ہونے کا کیا مطلب ؟

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس حکم میں تین اہم ہدایتیں مضمر ہیں۔ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کو ان ناموں سے یاد کیا جاۓ جو اپنے معنیٰ و مفہوم کے لحاظ سے پاک اور اس کی شان اور اس کے رتبہ کے لحاظ سے بالکل موزوں اور مناسب ہوں۔ ضروری نہیں کہ وہ عربی زبان ہی کے الفاظ ہوں بلکہ وہ کسی بھی زبان کے الفاظ ہو سکتے ہیں بشرطیکہ اس میں شرک کا تصور مضمر نہ ہو۔ نیز نقص یا بے ادبی کا بھی کوئی پہلو نکلتا نہ ہو اسی بنا پر ہم اردو میں اللہ کو ’’خدا‘‘ اور ’’پروردگار ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ مرہٹی زبان پر مشرکانہ مذہب کا کافی اثر ہے اس لیے اس زبان میں اللہ کے لیے کوئی نام تجویز کرتے وقت بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر ’رام‘ ایک مذہبی شخصیت کا نام ہے جن کو وشنو کا اوتار سمجھا جاتا ہے۔ (ملاحظہ ہو

(Nikes Worth’s Marathi English Dictionary p. 693 )

 

اس لیے اس لفظ کو رحیم کے ہم معنیٰ سمجھ کر اللہ کے لیے ہر گز استعمال نہیں کیا جا سکتا اسی طرح شیو مشرکانہ مذہب میں تین خداؤں (تری مورتی) میں سے ایک خدا کا نام ہے ساتھ ہی اس کے معنی مرد کے عضو مخصوص کے بھی ہیں ملاحظہ ہو (Students Sanskrit English Dictionary by Apte. P. 556) شیو لنگ کی پوجا بھی کی جاتی ہے اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مشرکوں نے اپنے خداؤں کا نام رکھنے میں کس ذہنیت کا ثبوت دیا ہے (نعوذ باللہ من ذٰلک)

 

دوسری ہدایت یہ ہے کہ اس کی پاکیزگی بیان کرو یعنی اس کو ہر قسم کے نقص ، عیب اور شرک سے منزہ قرار دو اور تیسری ہدایت یہ ہے کہ اس کی تنزیہ کے تصور کے ساتھ اس کا نام جپتے رہو کہ اسی کا نام جپنے کے لائق ہے۔

 

حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی آیت کی بنا پر سجدہ میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ (پاک ہے میرا رب اعلیٰ ) پڑھنے کا حکم دیا تھا (ابو داؤد کتاب الصلٰوۃ) گویا سجدہ کی یہ تسبیح اس حکم کی تعمیل میں ہے جو اس آیت میں دیا گیا ہے۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر انسان اتفاقی حادثہ کے طور پر وجود میں آگیا ہوتا تو اس کے اندر تناسب ، موزونیت اور حسن و جمال نہیں پیدا ہو سکتا تھا۔ یہ صریح نشانی ہے ، اس بات کی کہ اسے خداۓ  برتر نے پیدا کیا ہے۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان کی پیدائش بغیر کسی منصوبہ کے نہیں ہوئی ہے بلکہ اس کی خالق نے اس کا ایک منصوبہ بایا ہے جس کے مطابق اسے دنیا میں ایک مقررہ مدت تک کام کرنا ہے۔ یہ منصوبہ مختصراً یہ ہے کہ دنیا کی یہ زندگی آزمائشی ہوگی  اور ہر شخص کو آزمائش کے جن مراحل سے گزرنا ہوگا اور اس کو جو قوتیں اور صلاحیتیں عطاء کی جائیں گی اور جو وسائل اور مواقع فراہم کر دیۓ جائیں گے وہ سب ایک طے شدہ فیصلہ  کی حیثیت رکھتے ہیں اور اسی کا نام قرآن کی اصطلاح میں ’’ تقدیر‘‘ ہے یعنی خدا کا پیشگی تیار کردہ منصوبہ۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے اس منصوبہ سے انسان کو بے خبر نہیں رکھا ہے بلکہ اجمالاً اس کا شعور اس کی فطرت ہی میں رکھ دیا ہے جن کی بناء پر اس کا ضمیر اسے برائی پر ٹوکتا ہے اور اچھائی پر مطمئن ہوتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کا اچھا انجام دیکھنا چاہتا ہے اور نہیں چاہتا کہ برا انجام اس کے سامنے آۓ۔ اس لحاظ سے دیکھیے تو انسان فطرۃً اپنے کو امتحان گاہ ہی میں محسوس کرتا ہے۔ اس احساس کو جو چیز تازہ کرتی ہے اور خدائی منصوبہ سے اسے اچھی طرح با خبر کرتی ہے وہ وحی الٰہی ہے جسکا ذکر آگے کی آیات میں آ رہا ہے۔ گویا انسان کے خالق نے اس کے لیے خفی اور جلی دونوں طرح کی رہنمائی کا سامان کر دیا ہے۔ اگر فطرت کی آواز ہدایت خفی ہے تو وحی الٰہی ہدایت جلی۔ اس کے بعد انسان اپنے کیے کا آپ ذمہ دار ہے اور اس کے لیے یہ کہنے کا موقع نہیں کہ میرے رب نے میری ہدایت و رہنمائی کا سامان نہیں کیا۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب چارہ اگتا ہے تو سر سبز ہوتا ہے  لیکن ایک وقت آتا ہے کہ سیاہ کوڑا کرکٹ بن کے رہ جاتا ہے۔ یہ ایک مثال ہے خد کے منصوبہ کی جو اس دنیا میں کرا فرما ہے اور جس سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ پوری دنیا کے لیے بھی خدا کا ایک منصوبہ ہے اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ اس پر خزاں کو لازماً آنا ہے تاکہ اس کے بعد آخرت کا ظہور ہو۔ لہٰذا انسان اس دنیا کو سر سبز دیکھ کر اس خام خیالی میں مبتلا نہ رہے کہ یہ ہمیشہ پُر بہار رہے گی اور اس پر کبھی خزاں آنے والی نہیں۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے اور فرمایا یہ جا رہا ہے کہ قرآن کی شکل میں جو وحی ہم نازل کر رہے ہیں اس کو آپ کے ذہن میں محفوظ کر دینے کی ذمہ داری ہم نے لی ہے لہٰذا اس بات کا کوئی اندیشہ نہیں ہے کہ اس کا کوئی حصہ تم بھول جاؤ۔ واضح رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم شروع شروع میں اس اندیشہ سے کہ کہیں کوئی آیت یا لفظ بھول نہ جائیں جب قرآن کا کوئی حصہ نازل ہوتا تو اس کو اخذ  کرنے میں جلدی فرماتے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ قرآن اور پیغمبر کی صداقت کی دلیل ہے کیونکہ پورا قرآن نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس طرح یاد ہو گیا کہ آپ اس کا یک لفظ بھی نہیں بھولے ، اور آپ نے پوری صحت کے ساتھ مکمل قرآن کو امت کی طرف منتقل کیا اور آج ہمارے سامنے اس کے لاکھوں اور کروڑوں نسخے اپنی اصل شکل میں اس طرح موجود ہیں کہ قیامت تک کے لیے اس کے محفوظ ہونے کا سامان ہو گیا ہے۔ گویا قرآن ایک مستقل اور دائمی معجزہ ہے جس کا مشاہدہ ہر دور کے لوگ کر سکتے ہیں۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر اللہ ہی بھلانا چاہے تو اور بات ہے۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اے نبی قرآن کو یاد رکھنے کے سلسلہ میں جو اندیشہ تم اپنے دل میں محسوس کرتے ہو اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے مگر تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اس لیے کہ قرآن کا سبق تمہیں وہ ہستی دے رہی ہے جس کا علم تمام باتوں کو محیط ہے اور اس نے اسے تمہارے حافظہ میں ٹھیک ٹھیک محفوظ کر دینے کا فیصلہ فرمایا ہے۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم مزید اطمینان کا سامان کیا گیا ہے کہ قرآن کا جوں کا توں لوگوں تک پہنچانا گو دشوار ترین کام ہے لیکن اللہ تعالیٰ ان تمام دشواریوں کے درمیان سے تمہارے لیے آسان راہ نکالے گا۔

 

قرآن کی یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اگرچہ امی تھی لیکن نہ صرف پورے قرآن کو حفظ کرنا آپ کے لیے آسان ہو گیا بلکہ اس کے ساتھ اس کو لوگوں تک پہنچانا، اس کا درس دینا، اس کے ذریعہ تذکیر کرنا، اس کی تشریح و توضیح کرنا ، اس کے غامض نکات اور اس کی پُر حکمت باتوں کو بیان کرنا ، اس سے استنباط کرنا اور اس کے احکام کو نافذ کرنا بھی آسان ہو گیا اور آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے تھوڑے ہی عرصہ میں ایسے ساتھی عشاء فرماۓ جو قرآن کی کتابت کا کام بحسن و خوبی انجام دیتے تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے قرآن کی حفاظت کا سامان ہو۔ اسی طرح آپؐ کو کتنے ہی ایسے ساتھی مل گۓ جنہوں نے قرآن کو اپنے سینوں میں محفوظ کر لیا۔ یہ حفاظ اور قرّاء کہلاۓ اور انہوں نے قرآن کو پھیلانے میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دعوت و تبلیغ اور تذکیر و نصیحت کا کام نہ لٹھ چلانے کا کام ہے اور نہ اندھے کے ریوڑی بانٹنے جیسا کام بلکہ یہ ایک حکیمانہ کام ہے جس کے لیے موقع و محل کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بے موقع وعظ کہنے سے کوئی فائدہ نہیں اور نہ اندھوں اور بہروں کو نصیحت کرنے کا کچھ فائدہ ہے اس لیے جہاں داعی یہ محسوس کرے کہ لوگ نصیحت کے سننے کے موڈ میں نہیں ہیں وہاں زبردستی انہیں سنانے کی کوشش نہ کرے۔

 

اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ عام بگاڑ کو دیکھ کر آدمی پیشگی یہ فیصلہ کر کے بیٹھ جاۓ کہ دعوت و تبلیغ یا تذکیر و نصیحت کچھ سود مند ہونے والی نہیں لہٰذا یہ کام سرے سے کیا ہی نہ جاۓ۔ یہ ایسی ہی بات جیسے کوئی ڈاکٹر لوگوں کی بد پرہیز یوں کو دیکھ کر اپنا مطب بند کر دے اور گھر میں بیٹھ جاۓ یا محکمہ حفظان صحت یہ دیکھ کر کہ صحت کے معاملہ میں عام طور سے لوگ بے پروا واقع ہوۓ ہیں اور مضر صحت اشیاء کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے سرے سے اپنے فرائض ہی تک کر دے۔ جن لوگوں کی نظر انبیاء علیہم السلام کے طریقہ دعوت پر ہو وہ اس طرح کا فیصلہ ہر گز نہیں کر سکتے اس لیے کہ انبیاء علیہم السلام کے طریقہ دعوت میں حکمت اور موقع محل کی رعایت کی نشاندہی تو ضرور کی جا سکتی ہے لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں پیش کیا جا سکتا کہ عام بگاڑ کے پیش نظر انہوں نے دعوت و اصلاح کا کام ہی موقوف کر دیا ہو بلکہ وہ ہمیشہ مخالفتوں کے طوفان سے گزرتے رہے ہیں اور اصلاح کا جو کام بھی انجام پا سکتا ہے موجوں کے تھپیڑے کھا کر ہی انجام دیا جا سکا ہے۔

 

یہاں سیاق کلام سے بھی واضح ہے کہ تذکیر عام تو ہونی چاہیے۔ اسی صورت میں اس کو قبول کرنے والے بھی نکل آئیں گے اور اس سے گریز کرنے والے بھی۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جس شخص کے دل میں خدا کا خوف ہوگا وہ پیغمبر کی بات ضرور توجہ سے سنے گا اور اس نصیحت کو قبول کرے گا جو پیغمبر پر خدا کی طرف سے قرآن کی شکل میں نازل ہوئی ہے۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جہنم میں نہ وہ جینے کا لطف اٹھا سکے گا اور نہ موت ہی آۓ گی کہ ساری کلفتوں کا خاتمہ کر دے بلکہ وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے گا جس کا انسان تصور ہی کرے تو اس کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور وہ اس سے اللہ کی پناہ مانگنے لگے۔

 

واضح رہے کہ یہاں ان لوگوں کی سزا کا حال بیان ہوا ہے جو پیغمبر کی نصیحت سے گریز کریں اور آخر وقت تک اس ’’ تذکیر‘‘ کو قبول نہ کریں جو پیغمبر پر نازل ہوئی ہے۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکیزگی اختیار کرنے سے مراد قلب و ذہن کی پاکیزگی بھی ہے اور اخلاق و اعمال کی پاکیزگی بھی، قلب و ذہن کی پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی شرک اور کفر و الحاد کی آلودگی سے اپنے کو پاک کر لے اور خدا و آخرت پر ایمان لے آۓ اور اخلاق و عمل کی پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی برائیوں کو چھوڑ دے اور نیک کام کرے۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے رب کا نام لینے سے مراد محض رسماً نام لینا نہیں ہے کیونکہ اس طرح کا نام تو مشرک بھی لیتے ہیں اور کافر بھی بلکہ نام لینے سے مراد خدا کو دل سے اور حقیقی طور سے یاد کرنا نیز زبان سے صحیح نام کے ساتھ اس کا ذکر کرنا ہے۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھی‘‘ سے اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ نماز کا اصل محرک اللہ کی یاد ہے۔ یہ یاد ہی بندہ کو اس کی عبادت کے لیے آمادہ کرتی ہے۔ یہیں سے حقیقی نماز اور رسمی نماز کا فرق واضح ہو جاتا ہے۔ حقیقی نماز اللہ کی یاد کا نتیجہ ہوتی ہے اور اس کے اندر روح کی طرح سموئی ہوئی ہوتی ہے۔ گویا اپنے رب کی یاد اسے عبادت کے لیے بے ین کرتی ہے اور وہ نماز ہی میں سکون پاتا ہے۔ بخلاف اس کے رسمی نماز ایک بوجھ اتارنے کا کام ہے اسی لیے اس میں دل نہیں لگتا۔

 

نماز کا ذکر یہاں جس انداز ہوا ہے اس سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں نماز کا کیا مقام ہے یہ سورہ مکہ کے ابتدائی دور کی تنزیل ہے اور اس میں آخرت کی کامیابی کے لیے جو اوصاف ضروری قرار دیے گۓ ہیں ان میں نماز بھی شامل ہے اور شرعی احکام میں اسے اولیت حاصل ہے۔

 

واضح رہے کہ نماز (صلوٰۃ) کو یوگا (Yoga) سے کوئی مناسبت نہیں ہے کیونکہ نماز خالصۃً اللہ کی عبادت ہے جبکہ یوگا مشرکانہ طرز کی ریاضت۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی فلاح آخرت کی یہ راہ جس پر چل کر آدمی اپنے ظاہر و باطن کو سنوارتا ہے محض اس لیے تم لوگ اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہو کہ اصل اہمیت تمہاری نگاہ میں دنیا کی ہے نہ کہ آخرت کی۔ تم کو فکر ہے تو دنیا کی اور آسائش چاہتے ہو تو دنیا ہی میں۔ دنیا کا کوئی مفاد قربان کرنے کے لیے تیار نہیں ہو اور سمجھتے ہو کہ یہاں کے ’’ نقد‘‘ فائدے حاصل کرنا ہی عقلمندی ہے۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا کے مقابلہ میں آخرت اس لیے قابل ترجیح ہے کہ وہاں کی زندگی ہر لحاظ سے بہتر اور وہاں کی نعمتیں دنیا کی نعمتوں سے کہیں بڑھ کر ہیں مزید برآں آخرت ہمیشہ باقی رہنے والی ہے جب کہ دنیا فانی ہے۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی توحید و آخرت کی یہ تعلیم جو قرآن پیش کر رہا ہے کوئی نئی بات نہیں ہے جو پہلی مرتبہ پیش ہوئی ہو بلکہ اللہ کی طرف سے ہمیشہ یہی ہدایت نازل ہوتی رہی ہے اور قدیم سے قدیم صحیفوں (آسمانی کتابوں ) میں بے کم و کاست یہی تعلیم موجود رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے پیرو اس تعلیم کو یا تو بھلا چکے یا اس میں انہوں نے بڑی حد تک تحریف کی اس لیے قرآن کے ذریعہ پھر اس تعلیم کی تجدید جا رہی ہے۔

 

آسمانی کتابوں میں سب سے قدیم صحیفہ ابراہیم علیہ السلام کا ہے لیکن وہ محفوظ نہیں رہا ہے موسیٰ علیہ السلام کے صحیفے تو ان سے مراد تورات ہے جو اپنی اصل شکل میں توس موجود نہیں ہے البتہ اس کے کچھ اجزاء عہد نامہ عتیق Old Testament  کی پانچ کتابوں میں جو پیدائش ، خروج، احبار، گنتی، اور استثناء کے نام سے پائی جاتی ہیں دیکھے جا سکتے ہیں خاص طور سے توحید کی تعلیم اب بھی ان میں واضح طور پر موجود ہے مثلاً

 

’’میرے حضور تو غیر معبودوں کو نہ ماننا تو اپنے لیے کوئی تراشی ہوئی مورت نہ بنانا ‘‘۔ (خروج ۲۰ : ۳،۴)۔

 

’’پھر خداوند تعالیٰ نے موسیٰ سے کہا بنی اسرائیل کی ساری جماعت سے کہہ کہ تم پاک رہو کیونکہ میں جو خداوند تمہارا خدا ہوں پاک ہوں ...................  تم بتوں کی طرف رجوع نہ ہونا اور نہ اپنے لیے ڈھالے ہوۓ دیوتا بنانا‘‘ (احبار ۱۹ : ۱ تا ۴ )

 

’’ تو خداوند اپنے خد کا خوف ماننا۔ اس کی بندگی کرنا ، اور اس سے لپٹے رہنا اور اسی کے نام کی قسم کھانا ، وہی تیری حمد کا سزاوار ہے اور وہی تیرا خدا ہے۔ (استثناء ۱۰ : ۲۰، ۲۱ )

 

اور موسیٰ علیہ السلام نے دنیا سے رخصت ہوتے وقت بنی اسرائیل کو جمع کر کے جو گیت سنایا اس کا ایک اقتباس یہ ہے ’’کان لگاؤ اے آسمانو ! اور میں بولوں گا۔ اور زمین میرے منہ کی باتیں سنے۔ میری تعلیم مینہ کی طرح برسے گی۔ میری تقریر شبنم کی مانند ٹپکے گی جیسے نرم گھاس پر پھوار پڑتی ہو اور سبزی پر جھڑیاں کیونکہ میں خداوند کے نام کا اشتہار دوں گا تم ہمارے خدا کی تعظیم کرو۔ ..............، وہ وہی چٹان ہے۔ اس کی صنعت کامل ہے کیونکہ اس کی سب راہیں انصاف کی ہیں وہ وفادار خدا اور بدی سے مبرا ہے۔ وہ منصف اور برحق ہے۔ ‘‘(استثناء ۳۲ : ۱ تا ۴)۔

 

 

٭٭٭٭٭