دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ المَاعون

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

 آخری آیت میں  ماعون (مال کا حق ) ادا نہ کرنے پر وعید آئی ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ’’ الماعون‘‘ ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

 مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ابتدائی دور میں  نازل ہوئی ہو گی۔

 

 

مرکزی مضمون

 

 اس کردار کو سامنے لانا ہے جو جزا و سزا سے انکار کے نتیجہ میں  پیدا ہوتا ہے تاکہ لوگ اس کے انجام بد ے خبردار ہوں۔

 

نظم کلام

 

 آیت ۱ میں  س شخص کے کردار پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے جو جزا و سزا کا انکار کرتا ہے۔

 

آیت ۲ اور ۳ میں  بتایا گیا ہے کہ ایسے لوگ ہی سوسائٹی کے کمزور اور بد حال لوگوں  کے ساتھ غیر ہمدردانہ اور سنگدلانہ برتاؤ کرتے ہیں۔

 

آیت ۴ تا ۶ میں  ان کی رسمی نماز کو بے حقیقت قرار دیا گیا ہے۔

 

اور آیت ۷ میں  ان کے بُخل کی خصلت پر گرفت کی گئی ہے۔

 

پس منظر

 

 پس منظر میں  قریش کے وہ سردار ہیں  جنہیں  اپنی مذہبیت اور خانہ کعبہ کے متولی ہونے پر بڑا فخر تھا مگر اخلاق و عمل کے اعتبار سے انتہائی پستی کا شکار تھے جس کی چند مثالیں  اس سورہ میں  پیش کی گئی ہیں۔

ترجمہ

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے۔

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے اس شخص کو دیکھا جو جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے ! ۱*  

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ وہی ۲*  ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے ۳*  

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں  دیتا ۴*  

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ایسی نماز پڑھنے والوں  کے لیے تباہی ہے ۵*

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اپنی نماز سے غافل ہیں  ۶*  

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ریا کاری کرتے ہیں  ۷*  

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مال کا حق ادا نہیں  کرتے ۸*  

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا جو جزاۓ عمل کا منکر ہے کہ اس کا کردار کتنا پست اور اس کے مذہبی مراسم کتنے بے حقیقت ہیں  ! جو شخص بھی سی لوگوں  کے حال پر غور کرے گا اس کے اندر یہ احساس ضرور ابھرے گا کہ صحت کردار اور سچی دینداری کے لیے آخرت پر ایمان لانا ضروری ہے۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی منکرین آخرت میں  جو اخلاقی و عملی خرابیاں  پیدا ہو جاتی ہیں  ان کا عکس اس کردار میں  دیکھا جا سکتا ہے۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یتیم کو دھکے دینے کے مفہوم میں اس کا مال کھانا، اس کا حق مارنا ، اس کو جھٹکنا، اس کی تحقیر و تذلیل کرنا اور اس کو دھکے دے کر اپنے دروازے سے ہٹا دینا، سب شامل ہے۔

 

قرآن نے نہ صرف یتیموں  کے حقوق ادا کرنے کی بھی ہدایت کی ہے  چنانچہ سورہ فجر میں  فرمایا :

 

کَلّا بَلْ لَّا تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْم : (الفجر۔ ۱۷) ’’ نہیں  بلکہ تم یتیموں  کی قدر نہیں  کرتے۔ ‘‘

 

یعنی یتیموں  کی ناقدری ان لوگوں  کا شیوہ ہے جو خدا کے حضور جوابدہی کا تصور نہیں  رکھتے۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورہ فجر نوٹ ۲۳ میں  گزر چکی۔

 

واضح رہے کہ مسکین کو کھانا کھلانا بجاۓ خود نیکی کا کام ہے قطع نظر اس سے کہ وہ مسلم ہے یا غیر مسلم اور یتیم کو دھکے دینا بہر صورت گناہ کا کام ہے خواہ اس یتیم کا تعلق کسی بھی مذہب و ملت سے ہو۔

 

جس وقت یہ سورہ نازل ہوئی ہے مکہ میں مسلمانوں  کی تعداد اتنی کم تھی کہ وہ انگلیوں  پر گنے جا سکتے تھے لیکن جب انہیں  مسکین کو کھانا کھلانے اور اس کی ترغیب دینے کا حکم دیا گیا تو یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اسلام اپنے پیروؤں  میں  انسانی ہمدردی کا ایسا جذبہ پیدا کرنا چاہتا ہے جس کا دائرہ اثر پوری انسانیت کے لیے وسیع ہو اور جس کی بنا پر ہر مستحقِ کی مدد کی جا سکے۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں  نماز سے مراد خدا کی پرستش کی وہ شکل ہے جو مشرکین  مکہ نے اختیار کی تھی۔ قرآن نے دوسری جگہ ان کی نماز کی ہیئت اور اس کی حقیقت اس طرح بیان کی ہے :

 

وَمَا کَانَ صَلَاتُھُمْ عِنْدَالبَیْتِ اِلَّا مُکَآءً وَّ تَصْدِیَۃً۔ (الانفال۔ ۳۵ ) ’’ بیت اللہ کے پاس ان کی نماز سیٹیاں  اورع تالیاں  بجانے کے سوا کچھ نہیں  ہے ‘‘۔

 

یہ ان کی رسمی نماز تھی اور وہ بھی ایسی کہ جس کا حلیہ بگاڑ دیا گیا تھا۔ جہاں  تک نماز کی اصلیت کا تعلق ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کو اپنی اصل شکل میں  قائم کیا تھا اور اپنی اولاد کو بیت اللہ کے پاس اس لیے بسایا تھا کہ وہ نماز قائم کریں  : رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلوٰۃَ (اے ہمارے رب ! تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ سورہ ابراہیم۔ ۳۷) اور حضرت اسمٰعیلؑ اپنے گھر والوں  کو اس کی تاکید کرتے رہے : وَکَانَ یَأمُرُ اَھْلَہٗ بِا الصَّلوٰۃ وَالزَّکوٰۃِ (اور وہ اپنے گھر والوں  کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا۔ سورہ مریم۔ ۵۵) لیکن بعد کے ادوار میں  دین میں  تحریف کرنے والوں  نے نماز کی شکل بگاڑ دی یہاں  تک کہ نزول قرآن کے زمانہ میں  نماز نام رہ گیا تھا سیٹیاں  اور تالیاں  بجانے کا۔۔۔ اس کی مثال آج بھی مندروں  میں  دیکھی جا سکتی ہے جہاں  بُت پرست بھجن گا کر اور جھانجر اور تالیاں  بجا کر ناچتے ہوۓ پوجا پاٹ کرتے ہیں  اور سمجھتے ہیں  کہ اس سے خدا بھی خوش ہوتا ہے اور بُت بھی۔

 

یہاں  مشرکین کی اسی نماز کو ان کی تباہی کا سبب قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ وہ نماز نہیں  ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا تھا۔ لوگوں  نے اگر غیر سنجیدہ حرکتوں  کا نام نماز یا عبادت رکھ لیا ہو تو اس کا حقیقی نماز اور عبادت سے کیا واسطہ ؟ یہ تو خدا کی عبادت نہیں  بلکہ اس کا مذاق ہے۔ بعض مفسرین نے اس سورہ کو مدنی قرار دیا ہے اور نماز سے منافقین کی نماز مراد لی ہے لیکن جس سیاق و سباق (Context) میں  نماز کا ذکر ہوا ہے اس کا تعلق منکرین آخرت سے ہے جن کی اخلاقی خرابیوں  کی نمایاں  مثالیں  پیش کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں  سابق سورہ میں  قریش کو خداۓ واحد کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے متصلاً بعد سورہ ماعون کو رکھنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے ہ اس کے پس منظر میں  قریش کے سردار ہیں  جو مشرک بھی تھے اور آخرت کے منکر بھی۔ لہٰذا اس آیت میں  جس نماز کا ذکر ہوا ہے وہ مشرکین مکہ اور خاص طور سے خانہ کعبہ کے متولیوں  کی نماز تھی۔ البتہ اس کے وسیع تر مفہوم میں  منافقین کی نماز بھی شامل ہے کیونکہ ان کی نماز بھی محض نام کی نماز تھی۔ حقیقی نماز سے وہ بھی غافل ہی تھے اور یہ بات صرف اس دور کے منافقین پر چسپاں  نہیں  ہوتی بلکہ ہر دور کے منافقین پر چسپاں  ہوتی ہے۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ لوگ اپنی حقیقی نماز سے غافل ہیں۔ حقیقی نماز یہ ہے کہ آدمی شرک سے بچتے ہوۓ خالصۃً اللہ کے لیے نماز ادا کرے ، اسی کی طرف متوجہ ہو اور اس کے حضور جوابدہی کا تصور رکھے نیز اس عبادت کی جو ہیئت کے ساتھ اسے ادا کرنے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو نماز اپنے پیچھے چھوڑی تھی اس کی یہ خصوصیات تھیں  اور اس میں  قیام ، رکوع ، اور سجدہ جیسے ارکان تھے مگر مشرکین اس کی ظاہری اور باطنی دونوں  خصوصیات کو کھو بیٹھے اور اس کو کھیل تماشا بنا کر رکھ دیا۔ جب کہ یہ پیغمبر صلوٰۃ ابراہیمی کی تجدید کرنا چاہتا ہے یہ لوگ اس پر کان دھرنے کے لیے آمادہ نہیں  ہیں  اور پنی اس نام نہاد نماز ہی کو لیے بیٹھے ہیں۔

 

واضح رہ کہ آیت میں  عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ (وہ اپنی نماز سے غافل ہیں  ) فرمایا گی ہے نہ کہ : فِیْ صَلَاتِھِمْ سَھُوْنَ (وہ اپنی نماز میں  بھولتے ہیں ) کیونکہ نماز میں  بھول (سہو) تو اہل ایمان سے بھی ہو سکتی ہے لیکن نماز سے غافل ہو جانا ان ہی لوگوں  کا شیوہ ہے جو فکر آخرت سے آزاد ہیں۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کی نماز دکھاوے کی ہوتی ہے۔ خلوص سے بالکل خالی محض ریا کاری کی نماز تاکہ لوگ ان کو مذہبی سمجھیں۔

 

اللہ کی عبادت حق بندگی سمجھ کر اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے کی جانی چاہیے لیکن ریا کاروں  کی عبادت محض نمائشی ہوتی ہے اور اس لیے ہوتی ہے تاکہ لوگوں  سے داد حاصل کی جاۓ۔ اس لیے ایسی عبادت کرنے والے آخرت میں  نہ صرف یہ کہ کسی اجر کے مستحق نہیں  ہوں  گے بلکہ اپنے اس گناہ کی وجہ سے سخت سزا کے مستحق ہوں  گے۔ ریا کاری کے سلسلہ میں  حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بیانا ت بھی بڑے مؤثر ہیں  ، جو بائیبل میں  منقول ہوۓ ہیں  چنانچہ متّی کی انجیل میں  ہے :

 

’’خبردار اپنے راستبازی کے کام آدمیوں  کے سامنے کھانے کے لیے نہ کرو۔۔۔۔۔۔۔ پس جب تو خیرات کرے تو اپنے آگے نرسنگا نہ بجوا جیسا کہ ریا کار عبادت خانوں  اور کوچوں  میں  کرتے ہیں  تاکہ لوگ ان کی بڑائی کریں۔ میں  تم سے سچ کہتا ہوں  کہ وہ اپنا اجر پا چکے۔ بلکہ جب تو خیرات کرے تو جو تیرا دہنا ہاتھ کرتا ہ اسے تیرا بایاں   ہاتھ نہ جانے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب تم دعا کرو تو ریا کاروں  کی مانند نہ بنو کیونکہ وہ عبادت خانوں  میں  اور بازاروں  کے موڑوں  پر کھڑے ہو کر دعا کرنا پسند کرتے ہیں  تاکہ لوگ ان کو دیکھیں  میں  تم سے سچ کہتا ہوں  کہ وہ اپنا اجر پا چکے ‘‘۔ (متی : باب ۶)۔

 

اور بنی اسرائیل کے علماء اور فقہاء کو جنہوں  نے دین کے سلسلہ میں  ظاہر داری اختیار کر رکھی تھی اور جن کے اندر بد ترین قسم کی ریا کاری پیدا ہو گئی تھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے سخت جھنجھوڑا :

 

’’اے ریا کار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس ! کہ تم بیواؤں  کے گھروں  کو دبا بیٹھے ہو اور دکھاوے کے لیے نماز کو طول دیتے ہو۔ تمہیں  زیادہ سزا ہو گی۔۔۔۔۔۔۔ اے ریا کار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس کہ پیالے اور رکابی کو اوپر سے صاف کرتے ہو مگر وہ اندر لوٹ اور نا پرہیز گاری سے بھرے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے ریا کار  فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں  کے مانند ہو جو اوپر سے تو خوبصورت دکھائی دیتی ہیں  مگر اندر مردوں  کی ہڈیوں  اور ہر طرح نجاست سے بھری ہیں۔ اسی طرح تم بھی ظاہر میں  تو لوگوں  کو راست بار دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں  ریا کاری اور بے دینی سے بھرے ہو۔

 

(متی باب ۲۳ )

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ لوگ بڑے بخیل واقع ہوۓ ہیں۔ غریبوں  اور مسکینوں  کی امداد و اعانت میں  جو مال صرف ہونا چاہیے اسے روکے رکھتے ہیں۔ انہیں  در حقیقت نہ خدا سے محبت  اور نہ اس کے بندوں  سے ہمدردی بلکہ اپنے مال سے محبت ہے اور اپنی دنیا بنانے ہی کی فکر ہے۔ وہ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر اپنے  کو خدا پرست ظاہر کر رہے ہیں  لیکن ان غرباء و مساکین کے ساتھ ان کا غیر ہمدردانہ دعوے میں  سچے نہیں  ہیں  کیونکہ سچی خدا پرستی انسان کو با اخلاق ، کریم اور فیاض بناتی ہے۔

 

متن میں  لفظ ماعون استعمال ہوا ہے جس کے لغوی معنیٰ فائدہ کی چیز کے ہیں۔ اس کا اطلاق روز مرہ کے استعمال میں  پانے والی چیزوں  پر بھی ہوتا ہے اور مال پر بھی۔ مفسرین نے عام طور سے معمولی اور عام پڑوسی کو مستعار دیتا ہے اور جن کا نہ دینا باعث خِسّت سمجھا جاتا ہے اس میں  شک نہیں  کہ اس قسم کی چیزیں  دینے سے انکار کرنا اخلاقاً ذلت کی بات ہے۔ لیکن یہاں  جو وعید سنائی گئی ہے وہ ظاہر ہے کسی بہت بڑے حق کے ادا نہ کرنے یا کسی بڑے گناہ کے ارتکاب ہی پر ہے نیز سورہ کا مضمون بھی غرباء و مساکین کے حق سے متعلق ہے اس لیے ماعون سے مال کا حق مراد لینا ہی قرین صواب معلوم ہوتا ہے۔ اس کی تائید زُھری کے اس قول سے ہوتی ہے کہ ماعون قریش کی زبن میں  مال کو کہتے ہیں  (تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص ۵۵۶) اور بعض حضرات نے اس سے مراد زکوٰۃ لی ہے لیکن حضرت ابن عمر کا قول اس کی بہترین تفسیر ہے۔ ان سے جب ماعون کے بارے میں  پوچھا گیا تو انہوں  نے کہا المال الذی لا یؤدی حقہ۔ ’’وہ مال جس کا حق ادا نہ کیا جاۓ ‘‘۔ پوچھنے والے نے کہا کہ ابن مسعود تو کہتے ہیں  کہ اس سے مراد برتنے کی وہ چیزیں  ہیں  جو لوگ ایک دوسرے کو دیتے رہتے ہیں  تو  اس کے جواب میں  انہوں  نے کہا ماعون کا مطلب وہی ہے جو میں  بیان کر رہا ہوں  (فتح الباری ج ۸ ص ۵۹۴ بحوالہ طبری) اسی لیے ہم نے ، یَمْنَعُوْنَ الْمَاعُون۔ کا ترجمہ ’’ مال کا حق ادا نہیں  کرتے ‘‘ کیا ہے۔ یہ بات قرآن میں  دوسرے طریقہ سے بھی  بیان ہوئی ہے مثلاً : مَنّاع لِلْخَیْر (سورہ قلم) ’’مال کو روکنے والا‘‘ یعنی بخیل۔ واضح رہے کہ خیر کا لفظ عربی میں  مال کے معنی میں  بھی آتا ہے اور منع کا لفظ روکنے نیز بخل کرنے کے معنی میں  بھی۔

٭٭٭٭٭