آغاز میں یہ حروف آئے ہیں۔ اس مناسبت سے سورہ کا نام طٰہٰ ہے۔
مکی ہے اور حضرت عمر کے ایمان لانے سے پہلے (غالباً نبوت کے چھٹے سال) نازل ہو چکی تھی۔ کیونکہ حضرت عمر کے ایمان لانے کا جو واقعہ ابن اسحاق نے بیان کیا ہے اس میں اس بات کا ذکر ہے کہ ان کی بہن نے ان کو جو صحیفہ دیا تھا اس میں سورۂ طٰہٰ لکھی ہوئی تھی اور جب حضرت عمر نے اس کی ابتدائی آیتیں پڑھیں تو بول اٹھے کتنا بہترین اور کیسا شرف والا کلام ہے یہ! (سیرت ابن ہشام ج ا ص ۳۶۷)
وحی و رسالت کی غرض و غایت بیان کرنا اور اس کا انکار کرنے والوں کو متنبہ کرنا ہے۔
آیت ۱ تا ۸ میں نزول قرآن کا مقصد اور اس ہستی کی معرفت جس کے فرمان کی حیثیت سے یہ نازل ہو رہا ہے۔ آیت۹ تا ۹۸ میں حضرت موسیٰ کو رسالت سے سرفراز کئے جانے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ نیز ان کی دعوت کو پیش کرتے ہوئے ان کی مخالفت کرنے والوں کے برے انجام کو پیش کیا گیا ہے۔
آیت ۹۹ تا ۱۱۲ میں حضرت موسیٰ کی سرگزشت سے جو سبق ملتا ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قیامت کے احوال بیان کئے گئے ہیں تاکہ رسالت کا انکار کرنے والے متنبہ ہوں۔
آیت ۱۱۳ اور ۱۱۴ میں بیان کا رخ پھر نزولِ قرآن کے مقصد کی طرف مڑ گیا ہے۔
آیت ۱۱۵ تا ۱۲۳ میں آدم کی سرگزشت بیان ہوئی ہے اور اس کا یہ پہلو نمایاں کیا گیا ہے کہ نوع انسان کا جب اس سرزمین پر آغاز ہوا تو اس پر یہ حقیقت اچھی طرح واضح کر دی گئی تھی کہ اللہ تعالیٰ انسان کی ہدایت کے لیے وحی و رسالت کا سلسلہ جاری کرے گا تو جو لوگ ہدایت الٰہی کی اتباع کریں گے وہی شیطان کی گمراہی اور اس کے انجام سے محفوظ رہیں گے۔
آیت ۱۲۴ تا ۱۲۹ میں اللہ کی آیتوں سے بے نیاز ہونے کا انجام بیان کیا گیا ہے۔
آیت ۱۳۰ تا ۱۳۲ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اور آپ کے واسطہ سے اہل ایمان کو صبر و استقامت کی ہدایت کی گئی ہے اور تسلی دی گئی ہے کہ انجام خیر ان ہی کے لیے ہے۔
۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے تم پر قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ تم مصیبت میں پڑو۔
۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو ایک یاد دہانی ہے ان کے لیے جو ڈریں۔ ۲*
۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کا اتارا ہوا ہے جس نے زمین اور بلند آسمان پیدا کئے۔ ۳*
۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ رحمن عرش پر بلند ہے۔ ۴*
۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے، جو کچھ زمین میں ہے، جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اور جو کچھ مٹی کے نیچے ہے۔ ۵*
۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم پکار کر بات کہو تو (اس کی شان تو یہ ہے کہ) وہ چپکے سے کہی ہوئی بات اور نہایت مخفی بات تک کو جانتا ہے۔ ۶*
۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کہ سوا کوئی خدا نہیں۔ اس کے لیے ہیں سب حسن و خوبی کے نام۔ ۷*
۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کیا تمہیں موسیٰ کے واقعہ کی خبر پہنچی؟۸۔ *
۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب اس نے آگ دیکھی تو اپنے گھر والوں سے کہا ذرا ٹھہرو مجھے آگ دکھائی دی ہے (میں جاتا ہوں) تاکہ تمہارے لیے انگارا لے آؤں یا ممکن ہے آگ کے پاس کوئی رہنمائی مل جائے۔ ۹*
۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب وہ اس کے پاس پہنچا تو ندا آئی اے موسیٰ !
۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں ہوں تمہارا رب ۱۰* اپنی جوتیاں اتار دو تم طُویٰ کی مقدس وادی میں ہو۔ ۱۱*
۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں نے تمہیں چن لیا ہے ۱۲* تو جو وحی کی جا رہی ہے اسے توجہ سے سنو۔ ۱۳*
۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں ہی اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی خدا نہیں ۱۴ * تو میری ہی عبادت کرو ۱۵* اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔ ۱۶*
۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلا شبہ قیامت کی گھڑی آنے والی ہے۔ ۱۷* میں اسے پوشیدہ رکھنے کو ہوں ۱۸* تاکہ ہر شخص اپنی کوشش کے مطابق بدلہ پائے۔ ۱۹*
۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اس پر ایمان نہیں رکھتے اور اپنی خواہشات کے پیچھے پڑ گئے ہیں وہ تمہیں کہیں اس سے روک نہ دیں کہ تم ہلاکت میں پڑو۔ ۲۰*
۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اے موسیٰ! یہ تمہارے دہنے ہاتھ میں کیا ہے؟
۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عرض کیا یہ میری لاٹھی ہے۔ اس پر میں ٹیک لگاتا ہوں ، اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں اور اس میں میرے لیے دوسرے فائدے بھی ہیں۔ ۲۱*
۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا ڈال دو اس کو اے موسیٰ!
۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے اس کو ڈال دیا تو یکایک وہ ایک سانپ بن گیا جو دوڑ رہا تھا۔
۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا پکڑ لو اس کو اور ڈرو مت۔ ہم اسے پھر اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گے۔ ۲۲*
۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اپنا ہاتھ اپنے بازو میں دباؤ۔ روشن ہو کر نکلے گا بغیر کسی عیب کے۔ ۲۳* یہ دوسری نشانی ہے۔
۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ ہم تمہیں اپنی بڑی نشانیاں دکھائیں۔ ۲۴*
۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم فرعون کے پاس جاؤ وہ بڑا سرکش ہو گیا ہے۔ ۲۵*
۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عرض کیا: اے رب! میرا سینہ کھول دے۔ ۲۶*
۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میرا کام میرے لیے آسان کر دے۔ ۲۷*
۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ ۲۸*
۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔
۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میرے خاندان سے میرے لیے ایک وزیر مقرر کر دے۔ ۲۹*
۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہارون کو جو میرا بھائی ہے۔ ۳۰*
۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے ذریعہ میری کمر مضبوط کر۔
۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کو میرے کام میں شریک کر دے
۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ ہم بہ کثرت تیری پاکی بیان کریں۔
۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تیرا خوب ذکر کریں۔ ۳۱*
۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بلا شبہ تو ہمارا نگرانِ حال ہے۔
۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا تمہاری درخواست منظور کر لی گئی اے موسیٰ ! ۳۲*
۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم تم پر ایک بار اور احسان کر چکے ہیں۔ ۳۳*
۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب کہ ہم نے تمہاری ماں کی طرف وحی کی ۳۴* وہ جو وحی کی جا رہی ہے۔ ۳۵*
۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ اس کو صندوق میں رکھ دو پھر اس (صندوق) کو دریا میں چھوڑ دو۔ دریا کو چاہیے کہ اس کو کنارہ پر ڈال دے اور اسے وہ شخص اٹھالے جو میرا بھی دشمن ہے اور اس (بچہ) کا بھی۔ ۳۶* اور میں نے تم پر اپنی طرف سے محبت ڈال دی تھی ۳۷* اور یہ اس لیے کیا تھا کہ تمہاری پرورش میری نگرانی میں ہو۔ ۳۸*
۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب تمہاری بہن (پیچھے پیچھے) جا رہی تھی۔ ۳۹* کہنے لگی میں تمہیں (ایسی عورت) بتاؤں جو اس کی پرورش کرے۔ ۴۰* اس طرح ہم نے تمہیں تمہاری ماں کی طرف لوٹا دیا تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غم نہ کرے۔ ۴۱* اور تم نے ایک شخص کو قتل کر دیا تو ہم نے تم کو غم سے نجات دی اور تمہیں طرح طرح سے آزمایا اور تم کئی سال مدین والوں میں رہے۔ ۴۴* پھر تم ٹھیک وقت پر آ گئے اے موسی ! ۴۵*
۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے تمہیں اپنے (خاص کام) کے لیے منتخب کیا ہے۔ ۴۶*
۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم اور تمہارا بھائی میری نشانیوں کے ساتھ جاؤ اور میرے ذکر میں کوتاہی نہ کرو۔ ۴۷*
۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاؤ فرعون کے پاس و ہ سرکش ہو گیا ہے۔
۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے نرمی سے بات کرو ۴۸* ممکن ہے وہ یاد دہانی حاصل کرے یا ڈر جائے۔ ۴۹*
۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے عرض کیا ۵۰* اے ہمارے رب! ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے یا سرکشی کرے۔ ۵۱*
۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا ڈرو مت میں تمہارے ساتھ ہوں۔ سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔
۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے پاس جاؤ اور کہو کہ ہم دونوں تیرے رب کے رسول ہیں۔ بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے ۵۲* اور ان کو تکلیف نہ دے۔ ۵۳* ہم تیرے رب کی طرف سے نشانی لیکر آئے ہیں اور سلامتی ہے اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ ۵۴*
۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم پر وحی کی گئی ہے کہ عذاب ہے اس کے لیے جو جھٹلائے اور منہ موڑے۔ ۵۵*
۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا تم دونوں کا رب کون ہے اے موسیٰ؟ ۵۶*
۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ نے کہا ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو وجود بخشا پھر اس پر راہ کھول دی۔ ۵۷*
۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے سوال کیا پھر گزری ہوئی قوموں کا کیا حال ہے؟
۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ نے جواب دیا اس کا علم میرے رب کے پاس ایک نوشتہ میں ہے۔ میرا رب ایسا نہیں ہے کہ اس سے غلطی یا بھول ہو جائے۔ ۵۸*
۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ۵۹* جس نے تمہارے لیے زمین کو فرش بنایا، اس میں تمہارے لیے راہیں نکالیں اور آسمان سے (اوپر سے) پانی برسایا پھر اس نے مختلف قسم کی نباتات پیدا کر دیں۔
۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھاؤ اور چراؤ اپنے چوپایوں کو۔ اس میں نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے۔
۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا، اسی میں تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ تم کو نکالیں گے۔ ۶۰*
۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اس کو اپنی ساری نشانیاں دکھائیں ۶۱* مگر اس نے جھٹلایا اور انکار کیا۔
۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا اے موسیٰ کیا تم اس لیے ہمارے پاس آئے ہو کہ اپنے جادو کے زور سے ہمیں ہمارے ملک سے نکال باہر کرو؟ ۶۲*
۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ہم بھی تمہارے مقابلہ میں ایسا ہی جادو لائیں گے۔ تم ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کر لو۔ ۶۳* نہ ہم اس کی خلاف ورزی کریں اور نہ تم۔ ایک ہموار میدان میں۔ ۶۴*
۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ نے کہا تمہارے لیے جشن کا دن مقرر ہے۔ اور لوگوں کو دن چڑھے جمع کیا جائے۔ ۶۵*
۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر فرعون پلٹا، اپنے تمام داؤ اکٹھا کئے اور مقابلہ میں آ گیا۔ ۶۶*
۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ نے کہا تمہاری شامت! اللہ پر جھوٹ نہ باندھو کہ عذاب سے تمہیں تباہ کر دے۔ اور جس نے جھوٹ گھڑا وہ نامراد ہوا۔ ۶۷*
۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سن کر ان کے درمیان رد و کد ہونے لگی اور وہ چپکے چپکے سرگوشیاں کرنے لگے۔ ۶۸*
۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہنے لگے ۶۹* یہ دونوں جادو گر ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہارے ملک سے نکال باہر کریں اور تمہارے بہترین مذہب کو ختم کر کے رکھ دیں۔ ۷۰*
۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لہٰذا اپنے سارے داؤ اکٹھا کر لو اور ایک صف بنا کر آؤ۔ ۷۱* آج اسی کی جیت ہو گی جو غالب آ گیا۔
۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے کہا موسیٰ یا تم ڈالو یا ہم پہلے ڈالتے ہیں۔
۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا نہیں تم ہی ڈالو۔ ۷۲* اچانک ان کی رسیاں اور لاٹھیاں ان کے جادو کی وجہ سے اس کو دوڑتی ہوئی محسوس ہونے لگیں۔ ۷۳*
۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور موسیٰ نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا۔ ۷۴*
۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے کہا ڈرو مت۔ تم ہی غالب رہو گے۔
۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارے دہنے ہاتھ میں جو (لاٹھی) ہے اسے ڈال دو۔ انہوں نے جو کچھ بنایا ہے وہ اسے نگل جائے گا۔ ۷۵* جو کچھ انہوں نے بنایا ہے، جادوگر کا فریب ہے۔ ۷۶* اور جادو گر کامیاب نہیں ہو سکتا خواہ کسی راہ سے آئے۔ ۷۷*
۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بالآخر جادو گر بے اختیار سجدے میں گر پڑے۔ ۷۸* وہ پکار اٹھے ہم ایمان لائے موسیٰ اور ہارون کے رب پر۔ ۷۹*
۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (فرعون نے) کہا تم اس پر ایمان لائے قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دیتا؟ ۸۰* ضرور یہ تمہارا گرو ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے۔ ۸۱* تو میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کٹواؤں گا اور تمہیں کھجور کے تنوں پر سولی دو ں گا پھر تمہیں پتہ چلے گا کہ ہم میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہے۔ ۸۲*
۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے جواب دیا ہم ان روشن نشانیوں پر جو ہمارے سامنے آئی ہیں اور اس ذات پر جس نے ہمیں پیدا کیا ہے تجھے ہرگز ترجیح نہیں دیں گے۔ تو جو چاہے کر گزر۔ تو جو کچھ کر سکتا ہے وہ بس اس دنیوی زندگی کی حد تک ہی کر سکتا ہے۔ ۸۳*
۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم تو اپنے رب پر ایمان لائے تاکہ وہ ہماری خطاؤں کو بخش دے نیز جادو کے اس عمل کو بھی جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا۔ ۸۴* اللہ ہی بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ ۸۵*
(۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً جو شخص اپنے رب کے حضور مجرم کی حیثیت سے حاضر ہو گا ۸۶* اس کے لیے جہنم ہے جس میں نہ مرے گا اور نہ جئے گا۔ ۸۷*
۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو شخص مؤمن کی حیثیت سے حاضر ہو گا اور نیک عمل بھی کئے ہوں گے تو ایسے لوگوں کے لیے بلند درجے ہوں گے۔ ۸۸*
۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمیشگی کے باغ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ جزا ہے اس کی جس نے پاکیزگی اختیار کی۔ ۸۹*
۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے موسیٰ پر وحی کی کہ میرے بندوں کو راتوں رات لیکر چل پڑ۔ ۹۰* اور ان کے لیے سمندر میں خشک راہ نکال ۹۱* نہ تمہیں پیچھا کرنے والوں کا کوئی خوف ہو گا اور نہ (غرق ہونے کا) ڈر۔ ۹۲*
۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ ان کا پیچھا کیا تو سمندر نے ان کو ڈھانک لیا جس طرح ڈھانک لیا۔ ۹۳*
۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا۔ صحیح راہ نہ دکھائی۔ ۹۴*
۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے بنی اسرائیل! ہم نے تم کو تمہارے دشمن سے نجات دی اور طور کی دہنی جانب تم سے وعدہ کیا ۹۵* اور تم پر من و سلوا اتارا۔ ۹۶*
۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کھاؤ ہماری بخشی ہوئی پاک چیزیں اور اس معاملہ میں سرکشی نہ کرو ورنہ میرا غضب تم پر نازل ہو گا اور جس پر میرا غضب نازل ہوا وہ ہلاکت میں گرا۔
۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں بڑا بخشنے والا ہوں اس کے لیے جو توبہ کرے، ایمان لائے، نیک عمل کرے اور راہِ ہدایت پر چلتا رہے۔ ۹۷*
۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اے موسیٰ! اپنی قوم کو چھوڑ کر جلد حاضر ہونے پر تمہیں کس چیز نے ابھارا؟ ۹۸*
۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عرض کیا وہ میرے نقش قدم پر ہی ہیں اور میں نے تیرے حضور آنے میں جلدی کی تاکہ تو راضی ہو۔ ۹۹*
۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا ہم نے تمہارے پیچھے تمہاری قوم کو آزمائش میں ڈال دیا اور سامری نے اسے گمراہ کر دیا۔ ۱۰۰*
۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ سخت غصہ میں افسوس کرتا ہوا اپنی قوم کی طرف لوٹا۔ ۱۰۱* اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو کیا تمہارے رب نے تم سے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا۔ ۱۰۲* کیا تم پر بڑی مدت گزر گئی ۱۰۳* یا تم یہی چاہتے تھے کہ تمہارے رب کا غضب تم پر نازل ہو اس لیے تم نے مجھ سے عہد شکنی کی۔ ۱۰۴*
۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے جواب دیا ہم نے اپنے اختیار سے آپ سے کئے ہوئے عہد کے خلاف نہیں کیا بلکہ قوم کے زیورات کے بوجھ سے ہم گرانبار ہو گئے تھے اس لیے ہم نے ان کو پھینک دیا۔ ۱۰۵* اس طرح سامری نے (ان کو آگ میں) ڈالا۔
۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان کے لیے ایک بچھڑا نکال لایا۔ ایک ڈھڑ جس سے گائے کی سی آواز نکلتی تھی۔ ۱۰۶* لوگ دیکھ کر کہنے لگے یہ ہے ہمارا خدا اور موسیٰ کا بھی خدا مگر وہ بھول گیا۔ ۱۰۷*
۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا یہ لوگ دیکھ نہیں رہے تھے کہ نہ وہاں کی بات کا جواب دے سکتا ہے اور نہ نفع و نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ۱۰۸*
۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہارون نے ان سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ لوگو تم اس کے ذریعہ فتنہ میں ڈال دیئے گئے ہو۔ تمہارا رب تو رحمن ہے۔ تم میری پیروی کرو اور میری بات مانو۔ ۱۰۹*
۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے جواب دیا ہم اس کی پرستش پر جمے رہیں گے جب تک کہ موسیٰ واپس نہیں آ جائیں۔ ۱۱۰*
۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ نے پوچھا ہارون! تم نے جو دیکھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں تو تمہیں کس چیز نے روکا۔
۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ تم میری ہدایت پر عمل نہ کرو۔ کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی؟ ۱۱۱*
۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا اے میری ماں کے بیٹے ! میری ڈاڑھی نہ پکڑئے اور نہ میرا سر۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ آپ کہیں گے تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میرے حکم کا انتظار نہ کیا۔ ۱۱۲*
۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ نے پوچھا سامری! تیرا کیا معاملہ ہے؟ ۱۱۳* اس نے جواب دیا مجھے وہ بات سجھائی دی جو دوسروں کو سجھائی نہیں دی۔ پس میں نے رسول کے نقشِ قدم سے ایک مٹھی لے لی پھر اس کو چھوڑ دیا۔ میری نفس نے مجھے ایسا ہی سمجھایا۔ ۱۱۴*
۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ نے کہا جا۔ اب زندگی بھر تجھے یہ کہتے رہنا ہے کہ مجھے نہ چھونا۔ ۱۱۵ اور تیرے لیے ایک اور وقت مقرر ہے جو تجھ سے ہرگز نہ ٹلے گا ۱۱۶* اور دیکھ اپنے اس خدا کو جس کی پرستش پر تو جما رہا ہم اسے جلا ڈالیں گے پھر اس کو ریزہ ریزہ کر کے دریا میں بہا دیں گے۔ ۱۱۷*
۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارا خدا صرف اللہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں۔ اس کا علم ہر چیز پر حاوی ہے۔ ۱۱۸*
۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ہم تمہیں گزرے ہوئے واقعات سناتے ہیں کہ ہم نے تمہیں خاص اپنے پاس سے ذکر (قرآن) عطا کیا ہے۔ ۱۱۹*
۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اس سے رخ پھیریں گے وہ قیامت کے دن بھاری بوجھ اٹھائیں گے۔ ۱۲۰*
۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اسی حالت میں ہمیشہ رہیں گے۔ ۱۲۱* اور یہ بہت برا بوجھ ہو گا جس کو قیامت کے دن وہ اپنے اوپر لادے ہوں گے۔
۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دن کہ صور پھونکا جائے گا ۱۲۲* اور ہم مجرموں کو اس دن اس حال میں جمع کریں گے کہ ان کی آنکھیں نیلی پڑی ہوں گی۔ ۱۲۳*
۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ آپس میں ایک دوسرے سے چپکے چپکے کہتے ہوں گے کہ تم تو صرف دس دن رہے ہو گے۔
۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم خوب جانتے ہیں وہ جو کچھ کہیں گے۔ اس وقت ان میں جو سب سے بہتر اندازہ لگانے والا ہو گا کہے گا کہ تم بس ایک دن رہے ہو۔ ۱۲۴*
۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ لوگ تم سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں کہو میرا رب ان کو گرد بنا کر اڑا دے گا۔ ۱۲۵*
۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور زمین کو اس حال میں چھوڑے گا کہ وہ صاف اور ہموار میدان ہو گا۔
۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس میں نہ تم کجی دیکھو گے اور نہ بلندی۔ ۱۲۶*
۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن لوگ ایک پکارنے والے کے پیچھے چلیں گے۔ اس سے ذرا انحراف نہ کر سکیں گے۔ ۱۲۷* اور ساری آوازیں رحمن کے آگے پست ہو جائیں گی۔ ایک آہٹ کے سوا تم کچھ نہ سنو گے۔ ۱۲۸*
۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس روز شفاعت کام نہ دے گی مگر اس کی جس کو رحمن اجازت دے اور اس کی بات پسند فرمائے۔ ۱۲۹*
۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور ان کا علم اس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ ۱۳۰*
۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمام چہرے اس حی و قیوم کے آگے جھکے ہوں گے اور نامراد ہو گا وہ جو ظلم کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہو گا۔
۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جس نے نیک کام کئے ہوں گے اور وہ مومن بھی ہو گا تو اس کے لیے نہ کسی ظلم کا اندیشہ ہو گا اور نہ حق تلفی کا۔
۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسی طرح ہم نے اس کو عربی قرآن کی شکل میں اتارا ۱۳۲* اور اس میں ہم نے مختلف طریقوں سے تنبیہیں پیش کیں ۱۳۳* تا کہ لوگ اللہ سے ڈریں یا یہ ان کے لیے یاد دہانی کا باعث ہو۔ ۱۳۴*
۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پس برتر ہے اللہ بادشاہ حقیقی۔ ۱۳۵* اور قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کرو قبل اس کے کہ اس کی وحی تم پر پوری کر دی جائے۔ ۱۳۶* اور دعا کرو کہ اے میرے رب! میرا علم اور زیادہ کر۔ ۱۳۷*
۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے ۱۳۸* اس سے پہلے آدم کو تاکیدی حکم دیا تھا ۱۳۹* مگر وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں عزم نہ پایا۔ ۱۴۰*
۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہیں کیا۔ اس نے انکار کیا۔ ۱۴۱*
۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس پر ہم نے کہا اے آدم یہ تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے تو ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکلوا دے اور تم مصیبت میں پڑ جاؤ۔
۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تمہارے لیے یہ (سہولت) ہے کہ نہ بھوکے رہو اور نہ برہنہ۔
۱۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہ پیاس لگے اور نہ دھوپ ۱۴۲*
۱۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر شیطان نے اس کو ورغلایا۔ ۱۴۲* کہا اے آدم! میں تمہیں بتاؤں ہمیشگی کا درخت اور ایسی بادشاہت جس پر کبھی زوال نہ آئے؟ ۱۴۴*
۱۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چنانچہ دونوں نے (آدم اور حوا نے) اس درخت کا پھل کھا لیا۔ نتیجہ یہ کہ دونوں کے ستر ان پر کھل گئے اور وہ جنت کے پتوں سے اپنے کو ڈھانکنے لگے۔ ۱۴۵* آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی ۱۴۶* اور وہ بے راہ ہو گیا۔ ۱۴۷*
۱۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس کے رب نے اسے قبولیت سے نوازا، اس کی توبہ قبول کی اور اسے ہدایت بخشی۔ ۱۴۸*
۱۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ارشاد ہوا تم سب یہاں سے اتر جاؤ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو۔ ۱۴۹* پھر اگر میری طرف سے تمہارے پاس کوئی ہدایت ۱۵۰* آئے تو جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہو گا اور نہ مصیبت میں پڑے گا۔ ۱۵۱*
۱۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو میرے ذکر سے رخ پھیرے گا اس کے لیے تنگ زندگی ہو گی ۱۵۲* اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔ ۱۵۳*
۱۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہے گا اے میرے رب! تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا میں تو بینا (آنکھوں والا) تھا؟
۱۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ارشاد ہو گا اسی طرح ہماری آیتیں تیرے پاس پہنچی تھیں تو تو نے ان کو بھلا دیا تھا۔ اسی طرح آج تو بھی بھلایا جا رہا ہے۔ ۱۵۴*
۱۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح ہم بدلہ دیں گے اس کو جو حد سے گزر گیا تھا ۱۵۵* اور اپنے رب کی آیات پر ایمان نہیں لایا تھا اور آخرت کا عذاب بہت زیادہ سخت اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔
۱۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا ان لوگوں کے لیے یہ بات باعث ہدایت نہ ہوئی کہ ان سے پہلے ہم کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں جن کی (اجڑی ہوئی) بستیوں میں یہ چلتے پھرتے ہیں ۱۵۶* اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ۱۵۷* ہیں جو دانشمند ہیں۔
۱۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تمہارے رب کی طرف سے ایک بات ۱۵۸* پہلے ہی طے نہ پا چکی ہوتی اور ایک مدت ۱۵۹* مقرر نہ کی گئی ہوتی تو عذاب ان کو گرفت میں لے لیتا۔
۱۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پس ان کی باتوں پر صبر کرو ۱۶۰* اور اپنے رب کی حمد کے ساتء تسبیح کرو ۱۶۱* سورج نکلنے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے۔ اور رات کی کچھ گھڑیوں میں بھی تسبیح کرو اور دن کے حصوں میں بھی ۱۶۲* تاکہ تم خوش ہو جاؤ۔ ۱۶۳*
۱۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور نگاہ اٹھا کر بھی نہ دیکھو دنیوی زندگی کی اس زیبائش کو جو ہم نے ان کے مختلف گروہوں کو دے رکھی ہیں تاکہ ہم انہیں آزمائش میں ڈالیں۔ اور تمہارے رب کا رزق ہی بہتر اور بہت باقی رہنے والا ہے۔ ۱۶۴*
۱۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور اس پر قائم رہو۔ ۱۶۵* ہم تم سے رزق نہیں مانگتے۔ ۱۶۶* رزق ہم تمہیں دیتے ہیں اور انجام کار تقویٰ کے لیے ہے۔ ۱۶۷*
۱۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ کہتے ہیں یہ اپنے رب کی طرف سے کوئی نشانی ہمارے پاس کیوں نہیں لاتا۔ کیا ان کے پاس اگلے صحیفوں میں جو کچھ (بیان ہوا) ہے اس کی شہادت نہیں پہنچی؟ ۱۶۸*
۱۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر ہم اس سے پہلے ہی انہیں عذاب سے ہلاک کر دیتے تو وہ کہتے اسے ہمارے رب تو نے ہمارے پاس کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم ذلیل و رسوا ۱۶۹* ہونے سے پہلے تیرے احکام پر چلتے۔
۱۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو ہر ایک انتظار میں ہے ۱۷۰* تو تم بھی انتظار کرو۔ عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ کون سیدھی راہ پر ہے نیز کس نے ہدایت پائی ہے ۱۷۱*
۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "طا" کا اشارہ "طوی" کی طرف ہے جس کا ذکر آیت ۱۲ میں ہوا ہے۔ یہ کوہ سینا کی اس وادی کا نام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نبوت سے سرفراز فرمایا۔
"ھا" کا اشارہ ہارون کی طرف ہے جن کا ذکر اس سورہ میں متعدد مقامات پر ہوا ہے۔
حروفِ مقطعات کی مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۱ اور سورۂ یونس ۱۔
۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جن حالات میں اس سورہ کا نزول ہوا ہے وہ اہل ایمان کے لیے نہایت سخت تھے۔ منکرین قرآن نے ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا تھا جس سے مجبور ہو کر ایک گروہ ہجرت کر کے حبشہ چلا گیا تھا۔ ان حالات میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کو ان آیات کے ذریعہ اطمینان دلایا گیا کہ وہ کبیدہ خاطر نہ ہوں۔ قرآن کا نزول اس لیے نہیں ہوا ہے کہ تم مصیبت میں پڑو بلکہ اس لیے ہوا ہے کہ جو سبق انسان کی لوحِ فطرت پر لکھا ہوا ہے اور غفلت میں پڑے رہنے کی وجہ سے اس نے فراموش کر دیا ہے اس کی یاد دہانی ہو۔ ظاہر ہے یہ یاد دہانی انسان کے لیے خیر اور سعادت ہی کا باعث ہے کیونکہ انسان کے لیے سعادت فطرت سے ہم آہنگ ہو کر چلنے میں ہے نہ کہ فطرت سے بغاوت کرنے میں اب اگر بگڑی ہوئی ذہنیت کے لوگ قرآن پر ایمان لانے والوں کی راہ میں کانٹے بچھاتے ہیں تو اس پر صبر کرنا چاہیے کیونکہ قرآن نے سعادت کی جو راہ تم پر کھولی ہے اسے یہ لوگ کسی صورت میں تم پر بند نہیں کر سکتے اور وہ انسان کو جو بھولا ہوا سبق یاد دلا رہا ہے اس سے ہر وہ شخص فائدہ اٹھائے گا جس میں کچھ بھی خدا خوفی ہے۔
۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان آیات میں قرآن کے نازل کرنے والے کی صحیح معرفت بخشی گئی ہے تاکہ لوگوں پر اچھی طرح واضح ہو جائے کہ یہ نہایت عظمت والا کلام ہے جو ایک عظیم ہستی کی طرف سے فرمان کی حیثیت سے نازل ہوا ہے۔
۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۸۳۔
یہاں اللہ کی یہ صفت کہ وہ رحمن ہے اس بات کو ظاہر کر رہی ہے کہ وہ کائنات پر کمال رحمت کے ساتھ فرمانروائی کر رہا ہے۔
۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس پوری کائنات کا مالک اللہ ہی ہے کوئی چیز ایسی نہیں جس کا مالک اس کے سوا کوئی اور ہو۔ وہ مالک ہے اور سب مملوک۔ پھر اس کے سوا کسی کے خدا ہونے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے؟
۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کے علم کی شان یہ ہے کہ تم کوئی بات علانیہ کہو یا چپکے سے اس پر ہر بات روشن ہے یہاں تک کہ نہایت مخفی باتیں بھی جو دل ہی دل میں رہتی ہیں۔
۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف نوٹ ۲۷۸۔
۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کا واقعہ بعد کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے خود بیان فرمایا ہے۔ یہاں یہ سوال کہ کیا موسیٰ کے واقعہ کی خبر تمہارے پاس پہنچی شوق سماعت پیدا کرنے کے لیے ہے۔
۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت موسیٰ مدین میں کئی سال گزارنے کے بعد اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مصر لوٹ رہے تھے۔
واضح رہے کہ بنی اسرائیل حضرت یوسف کے زمانہ سے مصر ہی میں آباد تھے اور حضرت موسیٰ بھی وہیں پیدا ہوئے تھے مگر جوان ہونے کے بعد ایک خاص موقع پر مدین چلے گئے تھے جہاں انہوں نے ایک عرصہ تک قیام کیا۔
مدین سے واپس ہوتے ہوئے وہ صحرائے سینا میں کوہ طور کے پاس سے گزر رہے تھے۔ رات سرد تھی اور راستہ کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ یکایک انہیں ایک آگ دکھائی دی انہوں نے گھر والوں سے کہا کہ تم یہاں ٹھہرے رہو میں جا کر آگ کا شعلہ لے آتا ہوں تاکہ تم اپنے کو تاپ سکو اور ممکن ہے وہاں راستہ کا کچھ پتہ چل جائے۔
۱۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب حضرت موسیٰ آگ کے پاس پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں آواز دی" میں ہوں تمہارا رب" وحی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ سے براہ راست خطاب فرمائے اور موسیٰ علیہ السلام کا یہ امتیاز ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے ہم کلامی کا شرف عطاء فرمایا اور ان کی رسالت کا آغاز ہی فرشتہ کے واسطہ کے بغیر اللہ تعالیٰ کے براہ راست خطاب سے ہوا۔
واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات سے پاک ہے کہ وہ کسی مادی چیز میں جو مخلوق ہے حلول کر جائے۔ اس لیے جو آگ موسیٰ علیہ السلام کو دکھائی دی تھی وہ نہ خدا تھی اور نہ خدا نے اس میں حلول کر لیا تھا بلکہ وہ ایک خاص قسم کی روشنی تھی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ انہوں نے اللہ کی نداء اور اس کا کلام ضرور سنا لیکن انہوں نے اللہ کو دیکھا نہیں اور قرآن اس بات کی صراحت کرتا ہے کہ بعد میں جب کوہ طور پر موسیٰ کو شریعت عطاء کرنے کے لیے بلایا گیا تھا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ اپنا جلوہ اسے دکھائے۔ ان کی اس درخواست پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا لَن تَرَانِیْ " تم مجھے ہرگز دیکھ نہ سکو گے۔ " (سورۂ اعراف: ۱۴۳)
۱۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طُویٰ کوہ طور کی ایک وادی کا نام ہے جو مقدس بن گئی تھی لیکن اب یہ اس نام سے معروف نہیں رہی۔ معلوم ہوتا ہے یہ پوری وادی اس آگ کی روشنی سے جو خاص قسم کی تھی بقعۂ نور بن گئی تھی اور اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام کو شرف ہم کلامی بخش رہا تھا اس لیے خاص اہتمام کے ساتھ آدابِ حضوری بجا لانے کا حکم ہوا چنانچہ ارشاد ہوا اپنی جوتیاں اتار دو اور اس کی علت بھی واضح فرما دی کہ اس وقت تم طُویٰ کی مقدس وادی میں ہو۔ اس کا مقدس ہونا ظاہری اور باطنی پہلوؤں سے تھا۔ چونکہ اس سرزمین میں اللہ تعالیٰ کی یہ شان ظاہر ہو رہی تھی کہ وہ حضرت موسیٰ سے ہم کلام ہو اس لیے اسے شیطان اور اس کے شر سے پوری طرح محفوظ کر دیا گیا تھا اور اس کے ماحول کو بابرکت بنیا دیا گیا تھا اس غیر معمولی تقدس کا تقاضا یہ تھا کہ ادب و تعظیم کا معیار بلند رہے اور تواضع کا بھی پوری طرح اظہار ہو۔ جوتیاں اتارنا اس نفسیاتی کیفیت کا مظہر تھا اس لیے اس کا خاص طور سے حکم دیا گیا۔ رہا یہ اشکال کہ پھر جوتے پہن کر__اگر وہ صاف ہوں یا مٹی سے رگڑ دئے گئے ہوں __نماز پڑھنا حدیث میں کس طرح جائز قرار دیا گیا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سہولت ہے جو اسلام نے عام ضرورت کے پیش نظر دی ہے جبکہ موسیٰ علیہ السلام کو جو حکم دیا گیا تھا وہ ادب و تعظیم کے خصوصی اہتمام کا تھا کیونکہ رب العالمین ان سے خود خطاب فرما رہا تھا جسے وہ سن رہے تھے جبکہ نماز میں یہ صورت نہیں ہوتی بلکہ بندہ کی طرف سے مناجات ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا کہ " تم طوی کی مقدس وادی میں ہو۔ " فائدہ یہ بھی ہوا کہ حضرت موسیٰ جو راستہ تلاش کر رہے تھے انہیں معلوم ہو گیا کہ وہ طُویٰ کے مقام پر ہیں۔ ظاہر ہے اس سے آگے کے راستے کا پتہ چلانا ان کے لیے آسان ہوا ہو گا۔
۱۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی منصبِ رسالت کے لیے۔
۱۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ سفر میں تھے کہ یکایک انہیں اللہ نے پکارا اور منصب رسالت سے سرفراز فرمایا اس سے واضح ہوا کہ نبوت اور رسالت ایک عطیہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے منتخب بندوں کو نوازتا رہا اس منصب کو کوئی شخص بھی سعی و جہد سے حاصل نہیں کر سکتا۔
موسیٰ علیہ السلام کو منصب رسالت عطا کئے جانے اور ان پر وحی کے نزول کے واقعہ کو بیان کرنے سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی و رسالت سے سرفراز کئے جانے کا واقعہ انوکھا نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ اپنے منتخب بندوں کو اس منصب پر مامور فرماتا رہا ہے جس کی واضح مثال موسیٰ کا واقعہ ہے۔
۱۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو خطاب کر کے جو پہلی تعلیم دی وہ توحید کی تھی۔ یہ وہ اساس ہے جس پر اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہے اور یہ وہ نور ہے جس سے ہدایت کی تمام کرنیں پھوٹ پڑی ہیں۔
۱۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عبادت کی حقیقت انتہائی محبت کے ساتھ انتہائی تعظیم کرنا اور اپنی فروتنی کا اظہار کرنا ہے۔ اس کی مستحق خدا ہی کی ذات ہو سکتی ہے اور جب اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں تو عبادت کا مستحق بھی اس کے سوا کوئی نہیں اور ایک بندہ کا اس کے بندہ ہونے کی حیثیت سے فرض ہے کہ اس کی عبادت کرے اور یہ شریعت الٰہی کا انسان سے اولین مطالبہ ہے۔
۱۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نماز عبادت کی بہترین شکل ہے لہٰذا اس کا پورا پورا اہتمام کرو اور نماز کا یہ اہتمام اللہ کی یاد کے لیے ہے۔ واضح ہوا کہ نماز کا اصل مقصد اللہ کو یاد کرنا اور اس سے وابستہ ہونا ہے۔ بندہ جب اپنے رب کو یاد کرتا ہے تو بندگی کا تعلق اس سے استوار ہو جاتا ہے اور انسان کی ساری کامیابی اور اس کے حقیقی ارتقاء کا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ اپنے رب سے صحیح تعلق قائم کرے اور اس کو مضبوط بنانے کے لیے کوشاں رہے۔
" ذکر" کے معنی دل سے یاد کرنے کے بھی ہیں اور زبان سے کلمات ادا کرنے کے بھی۔ " نماز کو میرے ذکر کے لیے قائم کرو" کا مطلب محض زبان سے مخصوص کلمات ادا کرنا نہیں بلکہ دل سے یاد کرتے ہوئے ان کلمات کو ادا کرنا ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ بندہ نماز میں اپنے رب کی طرف متوجہ رہے اور حضور قلب کے ساتھ اس کی حمد و ثنا کرے۔
۱۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کو نبوت سے سرفراز کرتے ہوئے جو بنیادی تعلیم دی گئی تھی اس میں قیامت کا وقوع اور جزائے عمل کا قانون بھی بیان ہوا تھا لیکن موجودہ تورات میں جہاں موسیٰ کے نبوت سے سرفراز کئے جانے کا قصہ بیان ہوا ہے وہاں اس تعلیم کا کوئی ذکر نہیں ہے (ملاحظہ ہو خروج باب ۳ اور ۴) اور اتنا ہی نہیں بلکہ پوری تورات میں آخرت کی جز ا و سزا کا ذکر مشکل ہی سے کہیں ملے گا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اہل کتاب جزائے عمل کے قانون کو کس طرح فراموش کر چکے تھے اور قرآن نے اس کو کس طرح نمایاں کیا۔
۱۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ " میں اسے پوشیدہ رکھنے کو ہوں " کا مطلب یہ ہے کہ اگر چہ قیامت کی گھڑی کو مخفی رکھا گیا ہے اس لیے کوئی شخص اس کو اس کے آنے سے پہلے نہ اپنے چشم سر سے دیکھ سکتا ہے اور نہ اس کے وقوع کی تاریخ معلوم کر سکتا ہے لیکن اسے ایسا مخفی بھی نہیں رکھا گیا ہے کہ اس کے آثار ظاہر نہ ہوں اور اس کے دلائل واضح نہ ہوں پس قیامت کا معاملہ پوشیدہ ضرور ہے مگر اس کے باوجود اس کے آثار ظاہر ہوتے رہیں گے۔
۱۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت اس لیے برپا کی جائے گی تاکہ ہر شخص اپنے عمل کے مطابق بدلہ پائے اور پوشیدہ بھی اسی لیے رکھا گیا ہے تاکہ انسان کو امتحان سے گزارا جائے اور اس امتحانی زندگی میں اس کی کوشش جیسی کچھ رہی ہو گی اس کے مطابق اسے قیامت کے دن جزا یا سزا ملے۔
۲۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان ماحول سے بہت جلد متاثر ہوتا ہے اور دنیا کا ماحول انکار آخرت اور خواہش پرستی کا ماحول ہے۔ ہر زمانہ میں دنیوی ترقی کا راز اسی میں سمجھا گیا ہے کہ انسان خدا کے حضور جوابدہی کی فکر سے آزاد ہو کر زندگی بسر کرے۔ پھر اس سلسلہ میں ماحول کا دباؤ بڑا شدید ہوتا ہے۔ اگر آدمی ان غلط اور باطل افکار کی طرف سے چوکنا نہ رہے تو ماحول کا سیلاب اسے بہا لے جاتا ہے۔ اس لیے حضرت موسیٰ کو اور ان کے واسطہ سے ان کی پیروؤں کو یہ ہدایت ہوئی کہ وہ ان لوگوں کی طرف سے چوکنا رہیں جو آخرت کو نہیں مانتے اور خواہشات کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔
۲۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سوال تحقیق کے لیے نہیں تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا علم ہے۔ اسے معلوم تھا کہ موسیٰ کے ہاتھ میں کیا تھا۔ اس کے باوجود اس نے یہ سوال اس لیے کیا تاکہ موسیٰ اپنی لاٹھی کو اس کے سانپ بن جانے سے پہلے اچھی طرح شناخت کر لیں اور سانپ بن جانے کے بعد انہیں یقین ہو جائے کہ یہ ان ہی کی لاٹھی ہے جو سانپ بن گئی ہے۔
یہ خیال کرنا درست نہیں کہ موسیٰ نے خدا کے سوال کا طویل جواب دیا جو مناسب نہ تھا۔ سوال جس انداز میں ہوا اس سے حضرت موسیٰ سمجھ گئے کہ لاٹھی کے بارے میں وضاحت مطلوب ہے کہ وہ کس غرض سے رکھی گئی ہے۔ یہ وضاحت حضرت موسیٰ میں یقین راسخ پیدا کرنے کی غرض سے تھی کہ جس لاٹھی سے کبھی کوئی غیر معمولی بات وقوع میں نہیں آئی وہی لاٹھی آج تمہارے سامنے سانپ بنکر دوڑ رہی ہے یہ ایک صریح معجزہ ہے۔
۲۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس معجزہ کا ذکر تورات میں بھی ہوا ہے : " اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے؟ اس نے کہا لاٹھی۔ پھر اس نے کہا کہ اسے زمین پر ڈال دے۔ اس نے اسے زمین پر ڈالا اور وہ سانپ بن گئی اور موسیٰ اس کے سامنے سے بھاگا تب خداوند نے موسیٰ سے کہا ہاتھ بڑھا کر اس کی دم پکڑ لے۔ اس نے ہاتھ بڑھایا اور اسے پکڑ لیا۔ وہ اس کے ہاتھ میں لاٹھی بن گیا۔ " (خروج ۴: ۲تا ۴)
۲۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دوسرا معجزہ تھا جو موسیٰ کو عطا کیا گیا۔ اپنا ہاتھ اپنے بازو میں دبا کر وہ نکالتے تو بالکل سفید بن جاتا تھا یہ سفیدی برص وغیرہ کی وجہ سے نہیں تھی اور نہ اس میں کوئی عیب پایا جاتا تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو ہاتھ دوبارہ اپنی اصلی حالت پر لوٹ نہ آتا۔ یہ اس کے معجزہ ہونے کا صریح ثبوت تھا۔
بائبل میں اس معجزہ کا ذکر تو ہوا ہے مگر اس کو کوڑھ سے مماثلت دی گئی ہے (ملاحظہ ہو خروج ۴:۶) اسی لیے قرآن نے واضح کر دیا کہ ہاتھ بغیر عیب کے سفید ہو جاتا تھا اس سے بائبل کے مذکورہ بیان کی تردید ہوتی ہے اور قرآن کے بیان کی حقانیت واضح ہوتی ہے کیونکہ معجزہ لوگوں پر حجت قائم کرنے کے لیے ہوتا ہے اس لیے اس میں غیب کا پہلو نہیں ہو سکتا۔
۲۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ دو نشانیاں ہی نہیں آگے جا کر تم دوسری بڑی بڑی نشانیاں بھی دیکھو گے چنانچہ بعد میں اس لاٹھی کے ذریعہ کتنی ہی نشانیوں کا ظہور ہوا اور یہی لاٹھی تھی جس کو مارنے سے بنی اسرائیل کے لیے سمندر میں راستہ بن گیا۔
۲۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ نازعات نوٹ ۱۳۔
۲۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ علیہ السلام نے محسوس کیا کہ رسالت کی ذمہ داری ایک عظیم ذمہ داری ہے اور خاص طور سے فرعون جیسے جابر بادشاہ کو دعوت حق دینا بہت بڑے حوصلے کی بات ہے اس لیے انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ وہ انہیں اس کام کے لیے حوصلہ عطا کرے۔ شرح صدر (سینہ کا کھل جانا) کنایہ ہے حوصلہ کی فراخی جرأت و ہمت اور طمانیت قلب کے لیے۔
۲۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو کام تو نے میرے سپرد کیا ہے اس کی انجام دہی میرے لیے آسان کر دے۔
۲۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زبان کی گرہ سے مراد بولنے میں روانی کی کمی ہے نہ کہ لکنت۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ حضرت موسیٰ کی زبان میں لکنت تھی اور یہ جو قصہ تفسیروں میں بیان ہوا ہے کہ حضرت موسیٰ نے بچپن میں جبکہ وہ فرعون کے زیر پرورش تھے منہ میں انگارا ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے ان کی زبان میں لکنت پیدا ہو گئی تھی تو یہ اسرائیلیات میں سے ہے اور قابل رد ہے۔ دراصل دعوت کو موثر انداز میں پیش کرنے کے لیے خطابات کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰ اپنے اندر طاقتِ لِسانی کی کمی محسوس کر رہے تھے اس لیے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ زبان کی اس رکاوٹ کو کہ وہ روانی کے ساتھ بات نہیں کر سکتے دور کر دے۔
۲۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وزیر یعنی ایسا معاون جو ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ہاتھ بٹا سکے اور نیابت کر سکے۔
۳۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت ہارون حضرت موسیٰ کے بڑے بھائی تھے وہ چونکہ نیک بھی تھے اور خطابت و فصاحت میں ممتاز ہونے کی بنا پر دعوتی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے زیادہ اہل تھے اس لیے حضرت موسیٰ نے ان کو نبی بنانے کی درخواست کی۔
۳۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کو جب نبوت عطاء ہوئی تو ان پر گہرے حقائق و معانی کا بھی انکشاف ہوا۔ وہ سمجھ گئے کہ کار نبوت میں جو چیز اہمیت رکھتی ہے اور جس کو ایک اعلیٰ مقصد کی حیثیت سے تمام کاموں میں پیش نظر رکھنا چاہیے وہ ہے اللہ کی پاکی بیان کرنا اور اس کا خوب ذکر اور چرچا کرنا مسئلہ سیرت سازی کا ہو یا دعوت و بلیغ یا رہنمائی اور قیامت کا تمام امور و مسائل میں اس عبادت کو اس کے شایان شان طریقہ پر ادا کرنا ضروری ہے۔
۳۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کو جب اللہ تعالیٰ نے منصب رسالت سے سرفراز فرمایا تو وہ اس کی ذمہ داریوں کے احساس سے گرانبار ہو رہے تھے۔ ان کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی یہ دعا بارگاہ الٰہی میں شرف قبولیت حاصل کر گئی اور جو کچھ انہوں نے مانگا سب دیا گیا۔
۳۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قبولیت دعا کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی ان نوازشوں کا ذکر فرمایا جو اس نے موسیٰ پر نبوت سے پہلے فرمائی تھیں تاکہ واضح ہو جائے کہ موسیٰ پر ان کی پیدائش کے وقت ہی سے اللہ کی خاص نظر عنایت رہی ہے اور وہ قدم قدم پر ان کی دستگیری کرتا رہا ہے پھر نبوت کے بعد وہ ان کی مدد کیسے نہیں کرے گا؟ اور ان کی ڈھارس بندھ جائے کہ جب ان کی پرورش کے لیے اللہ کی طرف سے کرشمۂ قدرت کا ظہور ہوا تھا تو جس کٹھن مہم پر ان کو بھیجا جا رہا ہے اس کے لیے اس کے کرشموں کا ظہور کیوں نہیں ہو گا؟
۳۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وحی القاء (دل میں کوئی بات ڈالنا) کے معنی میں نہیں ہو سکتی کیونکہ سورۂ قصص میں بیان ہوا ہے کہ حضرت موسیٰ کی والدہ کو یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ اس بچہ کو ہم تمہارے پاس لوٹا دیں گے اور اسے ہم رسول بنانے والے ہیں۔ ظاہر ہے صراحت کے ساتھ یہ بات اسی صور ت میں انہیں معلوم ہو گئی ہو گی جبکہ الفاظ کے پیرایہ میں انہوں نے سنی ہو گی اس لیے ان کے پاس وحی غیبی آواز کی صورت میں آئی ہو گی۔ واللہ اعلم باسرار کلامہ۔
یہاں یہ حقیقت ملحوظ رہے کہ وحی کا کسی غیر نبی کی طرف بھیجا جانا ایک شاذ اور استثنائی صورت ہے۔ حضرت موسیٰ کی والدہ اور حضرت مریم کے ساتھ وحی کا معاملہ وقتی اور محدود تھا اور یہ ایک استثنائی صورت تھی نیز اس وحی کا تعلق در حقیقت حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ جیسے نبیوں کی ولادت سے تھا اور بعد میں ان نبیوں کے ذریعہ اس وحی کی تصدیق بھی ہوئی۔ اس لیے وحی کے ان واقعات میں جھوٹے مدعیانِ نبوت کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے۔
۳۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اے موسیٰ تمہاری ماں کی طرف جو باتیں وحی کی گئی تھیں وہ تمہیں وحی کے ذریعہ بتائی جا رہی ہیں۔ آگے اس کا ذکر ہے۔
۳۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ قصہ سورۂ قصص میں تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ یہاں ہم اس واقعہ کا پس منظر مختصراً بیان کرتے ہیں۔ بنی اسرائیل حضرت یوسف کے زمانہ میں فلسطین سے مصر منتقل ہو گئے تھے۔ چند صدیوں میں ان کی آبادی وہاں خوب بڑھی اور جب فرعون برسر اقتدار آیا تو اس نے ان کی آبادی کے بڑھ جانے کا خطرہ محسوس کیا۔ چونکہ بنی اسرائیل اسلام کے پیرو تھے اور مصری مشرکانہ مذہب کے اس لیے فرعون اور حکمراں طبقہ بنی اسرائیل کے بارے میں بڑے تعصب میں مبتلا تھا اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا تھا یہاں تک کہ فرعون نے ان کی تعداد کو گھٹانے کے لیے ان کے بچوں یعنی لڑکوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔
موسیٰ جب پیدا ہوئے تو ان کی والدہ نے انہیں چھپایا لیکن یہ معاملہ کب تک ڈھکا چھپا رہتا۔ فرعونیوں کو خبر ہوئی تو وہ اس بچہ کو بھی قتل کر دیتے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص سے ان کی حفاظت اور ان کی پرورش کا غیر معمولی سامان کیا۔ موسی کی والدہ کو بصورت وحی یہ ہدایت ہوئی کہ ایک صندوق میں بچہ کو رکھ کر دریا میں چھوڑ دے اور دریا کو یہ حکم ہوا کہ وہ صندوق کو کنارے پر ڈال دے چنانچہ موسیٰ کی والدہ نے اس ہدایت پر عمل کیا اور وہ صندوق ایسی جگہ کنارے پر لگا جہاں فرعون اپنی بیوی کے ساتھ موجود تھا اس نے اپنے آدمی کے ذریعہ صندوق کو حاصل کر لیا اس طرح موسیٰ اس شخص کے پاس پہنچ گئے جو خدا کا بھی دشمن تھا اور ان کا بھی۔ یہ اللہ کا کرشمۂ قدرت تھا اس کے بعد دوسرے جن کرشموں کا ظہور ہوا ان کا ذکر آگے آ رہا ہے۔
۳۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بچہ کو نہایت پیاری اور موہنی صورت والا بنایا گیا تھا تاکہ دیکھ کر کسی کو بھی رحم آئے۔ اللہ کی یہ تدبیر ایسی تھی کہ فرعون اپنی سنگدلی کے باوجود اس کو قتل کرنے کے لیے آمادہ نہ ہو سکا اور جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے بائبل میں بھی بچہ کے خوبصورت ہونے کا ذکر ہے :
" وہ عورت حاملہ ہوئی اور اس کے بیٹا ہوا اور اس نے یہ دیکھ کر کہ بچہ خوبصورت ہے تین مہینے تک اسے چھپا کر رکھا۔ " (خروج: ۲۰۲۰)
۳۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان نازک حالات میں اللہ نے موسیٰ کی پرورش کا خصوصی انتظام کیا۔
۳۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب موسیٰ کو صندوق میں رکھ کر دریا کے سپرد کر دیا گیا تو ان کی بہن خاموشی کے ساتھ اس صندوق کے پیچھے پیچھے جا رہی تھی تاکہ دیکھے اس صندوق کے ساتھ کیا معاملہ پیش آتا ہے۔
۴۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صندوق کو فرعون کے گھر والوں میں سے کسی نے اٹھا لیا اور فرعون اور اس کی بیوی کے پاس لے گیا۔ فرعون کا محل غالباً دریائے نیل کے کنارے تھا اس لیے کنارے کے پاس گھر کا کوئی نہ کوئی فرد موجود رہا ہو گا۔ بائبل کا بیان ہے کہ فرعون کی بیٹی وہاں موجود تھی اور اس نے صندوق لے لیا تھا۔ (خروج ۲:۵)
بچہ جب فرعون کے گھر پہنچ گیا تو فرعون کی بیوی اسے دیکھ کر خوش ہو گئی اور فرعون کو اس بات کے لیے آمادہ کیا کہ اس کی پرورش کی جائے مگر بچہ کسی عورت کا دودھ پینے کے لیے تیار نہ ہوا اس لیے اس کو بڑی تشویش ہوئی۔ موسیٰ کی بہن جو دور سے دیکھ رہی تھی قریب آئی اور جب اسے معلوم ہوا کہ بچہ کے لیے دودھ پلانے والیوں کو طلب کیا جا رہا ہے تو اس نے انہیں بتلایا کہ فلاں گھر میں اس کی پرورش کا انتظام ہو سکتا ہے یہ گھر ان کی اپنی والدہ کا تھا مگر راز کو فاش کئے بغیر اس نے یہ مشورہ دیا۔
۴۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موسیٰ کی بہن کے مشورہ کو فرعون کے گھر والوں نے قبول کر لیا اور اس کو اس انّا کے حوالے کر دیا جس کا مشورہ موسیٰ کی بہن نے دیا تھا یعنی موسیٰ کی والدہ نے اس طرح بچہ پرورش کے لیے دوبارہ موسیٰ کی والدہ کی گود میں پہنچ گیا اور اللہ کا یہ وعدہ کہ ہم اسے تمہارے پاس لوٹائیں گے ایک کرشمہ کی صورت میں پورا ہوا۔
۴۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ قصہ بھی سورۂ قصص میں بیان ہوا ہے۔ موسیٰ جب بڑے ہوئے تو ایک دن یہ واقعہ پیش آیا کہ دو آدمیوں کو لڑتے ہوئے دیکھ کر وہ مظلوم کی مدد کے لیے گئے۔ مظلوم اسرائیلی تھا اور زیادتی کرنے والا قبطی انہوں نے قبطی کو جوں ہی گھونسا مارا اس کی موت واقع ہو گئی۔ موسیٰ کا ارادہ اس کو جان سے مارنے کا نہیں تھا لیکن یہ غلطی ان سے سرزد ہو گئی جس کا انہیں ملال رہا۔ اس کی اطلاع جب فرعون کو ہوئی تو اس نے موسیٰ کو قتل کرنے کی غرض سے ان کی گرفتاری کے احکام جاری کر دیئے۔ موسیٰ کو جب یہ اطلاع ہوئی تو وہ مصر چھوڑ کر مدین چلے گئے اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی نجات کا سامان کر دیا۔
۴۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کی پوری زندگی آزمائشوں کی زندگی رہی ہے۔ اور ان آزمائشوں میں جب وہ پورے اترے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نہایت بلند مقام عطا فرمایا۔ معلوم ہوا کہ انسان کی آزمائشوں میں خوب تربیت ہوتی ہے اور وہ ان سے گزر کر اہم خدمات انجام دینے کے لائق بنتا ہے۔
۴۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ مصر سے نکل کر قریبی ملک مدین پہنچ گئے تھے جہاں انہوں نے کئی سال گزارے۔ تفصیل سورۂ قصص میں آ رہی ہے۔
۴۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نبوت عطا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو وقت مقرر کیا تھا ٹھیک اس وقت پر پہنچ گئے۔
۴۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد کار نبوت ہے۔
۴۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دل سے مجھے خوب یاد رکھو، زبان سے بہ کثرت میرا ذکر کرو اور لوگوں میں میرا خوب چرچا کرو۔ اس فریضہ کی ادائیگی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھو۔
۴۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرعون بڑا سرکش اور مغرور تھا مگر اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنے کی ہدایت دی گئی تاکہ دعوت اس کے سامنے اپیلنگ انداز میں آ جائے اور وہ غور و فکر کرنے کے لیے آمادہ ہو جائے۔ معلوم ہوا کہ داعی کو اپنے لب و لہجہ میں مخاطب کی نفسیات کا لحاظ کرنا چاہیے۔
۴۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ فرعون دعوت قبول نہیں کرے گا اس کے باوجود موسیٰ کو یہ ہدایت ہوئی کہ وہ اس کے بارے میں قبول دعوت کے امکان کو نظر انداز نہ کریں۔ یعنی داعی کی حیثیت سے تو انہیں اپنی ذمہ داریاں اسی طرح انجام دینی چاہئیں کہ جس کے سامنے وہ دعوت پیش کر رہے ہیں وہ کیا عجب کہ قبول کر لے۔ اگر اس بات کو ملحوظ نہ رکھا جائے تو نہ داعی اپنی ذمہ داریاں کما حق ادا کر سکتا ہے اور نہ ان لوگوں پر حجت قائم ہو سکتی ہے جن کے سامنے دعوت پیش کی جا رہی ہے۔
یہ حقیقت بھی واضح رہے کہ اللہ کی عظمت کے تصور سے اس کا ڈر اور خوف (خشیت کا) پیدا ہو جانا اولین اور بنیادی بات ہے اور جب یہ چیز پیدا ہو جاتی ہے تو دل یاد دہانی (تذکیہ) حاصل کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے اور پھر ہر وہ بات جو حق ہے اس کے دل میں اترنے لگتی ہے چنانچہ سورۂ اعلیٰ میں ارشاد ہوا ہے " سَیَذّکَّرُمَنْ یَخْشیٰ " یاددہانی حاصل کرے گا وہ جو (اپنے رب سے) ڈرتا ہے۔ "
لہٰذا فرعون کے بارے میں یہ جو فرمایا کہ " ممکن ہے وہ یاد دہانی حاصل کرے یا ڈر جائے۔ " تو یہ اس معنی میں حضرت موسیٰ کو ہدایت تھی کہ یہ توقع رکھتے ہوئے اس سے نرمی سے بات کرو کہ وہ یاد دہانی حاصل کرے گا لیکن اگر یہ مقصد ابھی پوری طرح حاصل نہیں ہوتا اور اس میں کچھ خدا خوفی ہی پیدا ہو جاتی ہے تو گویا بنیادی طور پر زاویہ نگاہ بدل جاتا ہے اس کے بعد دل و دماغ کے بدل جانے کی بھی توقع کی جا سکتی ہے۔
۵۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ادھرموسیٰ کو فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا گیا ادھر ہارون کی طرف وحی کر کے انہیں بھی یہی حکم دیا گیا۔ اس موقع پر دونوں نے فرعون کے بارے میں اندیشہ کا اظہار کیا اس لیے یہاں دونوں کی بات کو سمیٹ کر پیش کیا گیا ہے۔
۵۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بظاہر حالات تو اس بات کا اندیشہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ توحید کی بات سنتے ہی ظلم و زیادتی پر اثر آئے گا یا اپنی سرکشی کا مظاہرہ کرے گا۔
۵۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیت اس باب میں صریح ہے کہ حضرت موسیٰ کو جب فرعون کے پاس بھیجا گیا تو انہیں دعوت کے ساتھ یہ مطالبہ بھی پیش کرنے کی ہدایت دی گئی کہ بنی اسرائیل کو ان کے ساتھ جانے دیا جائے۔ یہ مطالبہ چونکہ اہم دینی مصالح کے پیش نظر تھا اس لیے آغاز ہی میں اس کو پیش کرنے کی ہدایت ہوئی۔ اس مسئلہ پر ہم تفصیلی گفتگو سورۂ اعراف نوٹ ۱۶۱ میں کر آئے ہیں۔ اس کو اس موقع پر پیشِ نظر رکھا جائے۔
۵۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ اگر کوئی طاغوتی حکومت مسلمانوں پر ظلم ڈھاتی ہو تو اس سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ ان پر ظلم و زیادتی نہ کرے دین کا تقاضا ہے اور اسے دعوتی مصالح کے خلاف سمجھنا صحیح نہیں۔ داعی کو مظلوم کی حمایت بہر حال کرنا ہو گی خواہ اس کے بارے میں کوئی اچھی رائے قائم کرے یا بری۔
۵۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہدایت الٰہی کی پیروی کی دعوت بھی تھی اور اس بات سے آگا ہی تھی کہ اسی کا انجام بخیر ہے جو ہدایت کو قبول کرے اور اس کی روشنی میں چلے۔
۵۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بات تو اس طرح بھی کہی جا سکتی تھی کہ اے فرعون اگر تو نے جھٹلایا تو تجھے عذاب بھگتنا ہو گا مگر حضرت موسیٰ کو ہدایت ہوئی کہ اس سے کہیں " ہم پر وحی کی گئی ہے کہ عذاب ہے اس کے لیے جو جھٹلائے اور منہ موڑے۔ " یہ نہایت حکیمانہ اسلوب تھا جس میں عمومیت کے ساتھ ہر جھٹلانے والے کا انجام بیان کر دیا گیا تھا تاکہ فرعون اسے اپنی ذات پر حملہ خیال نہ کرے بلکہ ایک اصولی بات کے پیش نظر غور و فکر کے لیے آمادہ ہو جائے۔ ساتھ ہی اس پر یہ بھی واضح ہو جائے کہ عذاب کی یہ تنبیہ وحی الٰہی کی ہدایت کے تحت ہے۔
۵۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب فرعون کے پاس حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون پہنچے اور اس کے سامنے دعوت پیش کی تو اس نے موسیٰ سے سوا ل کیا۔
۵۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرعون اس بات کا مدعی تھا کہ وہ خود ہی رب اعلیٰ ہے مگر حضرت موسیٰ نے صاف طور سے اس سے کہا کہ وہ تو اپنا رب خالق کائنات کو مانتے ہیں۔ ان کے اس ثواب میں یہ دلیل مضمر تھی کہ جو خالق ہے وہی درحقیقت رب ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس نے ہر چیز کو وجود بخشنے کے بعد اس پر اس کے مناسب حال راہ عمل بھی کھول دی ہے۔ جانور گھاس کھاتا ہے پتھر نہیں کھاتا یہ کس کی رہنمائی ہے؟ شہد کی مکھی دور دور سے پھولوں کا رس چوس کر لاتی اور چھتے میں جمع کرتی ہے یہ کام وہ کس کی ہدایت پر انجام دیتی ہے ظاہر ہے یہ جبلی ہدایت ہے جو ان کے خالق نے ان کے اندر ودیعت کی ہے۔ اسی طرح نباتات اور جمادات بھی اپنے اپنے فرائض ایک خاص طریقہ پر انجام دیتے رہتے ہیں۔ درخت زمین سے غذا حاصل کر کے پھل دینے لگتا ہے اور دریا ڈھلوان کی طرف بہتا ہے۔ یہ سب کچھ کس کے اشارہ سے ہوتا ہے؟ جب واقعہ یہ ہے کہ ہر چیز اپنے خالق سے اشارہ پا کر راہ عمل طے کر رہی ہے تو انسان کا ہادی و رہنما بھی در حقیقت وہی ہے اور اسی کی ہدایت انسانی زندگی کے لیے فی الواقع ہدایت ہے۔
۵۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرعون کا یہ سوال کہ پھر گزری ہوئی قوموں کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ وہ کیا سب گمراہ تھیں ؟ محض الجھا دینے کے لیے تھا مگر حضرت موسیٰ نے ایک اصولی بات بیان کر کے فرعون کے ذہن کو اصل نقطۂ دعوت یعنی توحید پر مرکوز کرنے کا سامان کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ گذشتہ قوموں کا جو حال بھی رہا ہو میرے رب کو اس کا علم ہے اور اس نے ہر ایک کے اعمال لکھ رکھے ہیں۔ اس سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوتی کہ ایک کا عمل دوسرے کے کھاتہ میں جمع ہو جائے اور نہ وہ بھولتا ہے کہ کسی کے واقعی اعمال اسے یاد نہ رہیں۔
۵۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کے بیان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اضافہ ہے تاکہ قارئین قرآن کے سامنے توحید کا پہلو اور زیادہ روشن ہو۔
۶۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے وہ مر کر مٹی ہی میں مل جاتا ہے اور قیامت کے دن اسے اسی زمین سے اٹھا کھڑا کیا جائے گا۔ انسان خواہ سمندر میں مرے یا ہوا میں یا خلا میں اس کا حشر بہر حال اسی زمین پر ہو گا۔
۶۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ تمام نشانیاں جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کی رسالت کو ثابت کرنے اور حق کو واضح کرنے کے لیے ضروری تھیں۔
۶۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک جھوٹا الزام تھا جو فرعون نے حضرت موسیٰ پر لگایا ورنہ حضرت موسیٰ نے فرعون والوں کو مبصر سے نکال باہر کرنے کا کوئی سیاسی پروگرام نہیں بنایا تھا بلکہ وہ خود بنی اسرائیل کو لیکر ملک مصر سے چلے جانا چاہتے تھے اور اس مہم میں رکاوٹ نہ ڈالنے کا انہوں نے فرعون سے مطالبہ کیا تھا اس لیے فرعون کا حضرت موسیٰ پر یہ الزام کہ تم ہمیں اپنے ملک سے نکالنا چاہتے ہو ایسا ہی تھا جیسا کہ ان پر جادو کا الزام۔
۶۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ نے اپنی لاٹھی کے سانپ بن جانے کا معجزہ فرعون کو دکھایا لیکن اس نے اسے جادو قرار دیا اور چیلنج کیا کہ ہم بھی ایسا جادو بنا کر لا سکتے ہیں تم مقابلہ کے لیے تیار ہو جاؤ اور دن مقرر کر لو۔
۶۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مقابلہ کھلے میدان میں ہوتا کہ سب دیکھ سکیں۔
۶۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ " یوم الزینۃ " جشن کے دن کا انتخاب حضرت موسیٰ نے اس لیے کیا تاکہ لوگ آسانی سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں جمع ہو سکیں اور معجزۂ الٰہی کا مشاہدہ کر سکیں۔ یہ دن قومی تہوار کا رہا ہو گا۔
دن چڑھنے کا وقت حضرت موسیٰ نے اس لیے مقرر کیا تاکہ لوگ خوب روشنی میں ان کے معجزہ کو دیکھ لیں اور ان کی لاٹھی کے سانپ بن جانے میں ان کو کوئی شبہ نہ رہے۔
۶۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس مجلس کے برخواست ہو جانے کے بعد فرعون سازش کی تیاری میں لگ گیا اور منصوبہ بنایا کہ ملک کے گوشہ گوشہ سے ماہر جادو گروں کو بلایا جائے تاکہ وہ سب اکٹھے ہو کر اپنا کرتب دکھائیں اور اس معجزہ سے لوگوں پر یہ بات واضح ہو جائے کہ موسیٰ کی لاٹھی کا سانپ بن جانا خدا کا معجزہ نہیں بلکہ یہ موسیٰ کی محض جادو گری ہے چنانچہ وہ اپنے ان ہتھکنڈوں کے ساتھ ماہر جادوگروں کو لئے ہوئے جشن کے دن کے مقابلہ کے لیے میدان میں آ گیا۔
۶۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کا یہ خطاب فرعونیوں اور جادوگروں سے تھا جس میں انہوں نے خبردار کیا کہ اللہ کے معجزہ کو جادو اور اس کے رسول کو جادوگر قرار دینا اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے اور جو شخص بھی اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے وہ اللہ کے عذاب کو دعوت دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کے حصہ میں نامرادی کے سوا کچھ نہیں آ سکتا۔
۶۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کی اس بروقت تنبیہ کو سن کر جادو گر شش و پنچ میں پڑ گئے اور چپکے چپکے آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے کہ مقابلہ کیا بھی جائے یا نہیں۔
۶۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہنے والے فرعون کے درباری رہے ہوں گے۔
۷۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی طرح ان درباریوں نے اشتعال اور تعصب پیدا کرنے کی کوشش کی تاکہ جادوگر جوش و خروش کے ساتھ مقابلہ کے لیے سامنے آئیں۔
۷۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہارے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے بلکہ موسیٰ اور ہارون کے مقابلہ میں تم سب جادوگروں کا ایک متحدہ محاذ ہونا چاہیے۔
۷۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ نے اس بات کو ترجیح دی کہ پہلے جادوگر اپنا کرتب دکھائیں پھر وہ اپنا معجزہ پیش کریں۔ باطل کی تاریکی کے بعد حق کی روشنی ظاہر ہو۔
۷۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ جادو کسی چیز کی ماہیت کو نہیں بدلتا بلکہ محض فریبِ نظر اور فریبِ خیال ہے جادو گروں کی رسیاں اور لاٹھیاں واقعی سانپ نہیں بن گئی تھیں بلکہ ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ وہ سانپ کی طرح دوڑ رہی ہیں سورۂ اعراف میں ہے :
فَلَمَّا اَلْقَوْا سَحَرُوْا اَعْیُنَ النَّاس۔ (اعراف۔ ۱۱۶) " پھر جب انہوں نے (اپنی رسیاں اور لاٹھیاں) ڈال دیں تو لوگوں کی نگاہیں جادو سے مار دیں۔ "
اور جہاں تک حضرت موسیٰ کا تعلق ہے قرآن کہتا ہے یُخَیَّلُ اِلیْہِ ان کو ایسا خیال ہوا کہ جادوگروں کی رسیاں اور لاٹھیاں دوڑ رہی ہیں۔ اور وہ بھی اس صورت میں کہ وہ پہلے ہی سے جانتے تھے کہ جو کچھ جادو گر پیش کرنے والے ہیں وہ محض جادو ہے نہ کہ حقیقۃً اشیاء کی قلب ماہیت۔ پھر یہ چیز بھی تھوڑی دیر کے لیے تھی اس کے بعد ان کا طلسم ٹوٹ گیا اور جادو کی یہ نظر بندی تھوڑی دیر ہی کے لیے ہوتی ہے اس کے بعد وہ غائب ہو جاتا ہے اس لیے یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ حضرت موسیٰ پر نبی ہونے کے باوجود جادو کا اثر ہوا تھا۔ " جادو کا اثر ہونا" اور بات ہے اور " جادو کو دیکھ لینا" اور بات۔ حضرت موسیٰ نے جادو کو دیکھ لیا تھا ان پر جادو کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ ان کے ذہنی قویٰ صحیح سلامت تھے۔ انہوں نے لاٹھیوں اور رسیوں کو سانپ کی شکل میں جو دیکھا تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی سراب کو دیکھ کر پانی خیال کرے۔ ظاہر ہے یہ فریب نظر وقتی ہوتا ہے اور اس کو کوئی شخص بھی ذہنی قویٰ کے متاثر ہو جانے پر محمول نہیں کرتا۔
۷۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خوف اس بات کا کہ یہ جادو لوگوں کو ایسا متاثر نہ کر دے کہ وہ جادو اور معجزہ میں تمیز نہ کر سکیں۔
۷۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کے طلسم کو نگل جائے گا چنانچہ موسیٰ کا سانپ جہاں گیا جادو کے اثر کو زائل کرتا چلا گیا۔
۷۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ جادو گروں کا کرتب اور فریب نظر ہے ورنہ ان کی لاٹھیاں اور رسیاں واقعی سانپ نہیں بن گئی ہیں۔
۷۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جادو گر جو کرتب بھی دکھائے اور فریب دہی کا جو طریقہ بھی وہ اختیار کرے نہ معجزۂ خداوندی کے مقابلہ میں اس کی جیت ہو سکتی ہے اور نہ حقیقی کامیابی اس کو حاصل ہو سکتی ہے۔ جادو اور معجزہ کے فرق کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۱۶۹۔
۷۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس مقابلہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ جادوگروں کا سارا طلسم غائب ہو گیا اور حضرت موسیٰ کی لاٹھی سانپ بن کر معجزہ دکھاتی رہی۔ اس طرح واضح ہوا کہ حضرت موسیٰ جو کچھ پیش کر رہے ہیں وہ جادو نہیں ہے بلکہ خدائی معجزہ ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ اس طرح حقیقت جب بے نقاب ہو کر جادوگروں کے سامنے آ گئی تو وہ بے اختیار سجدے میں گر پڑے۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۱۷۱
۷۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ اعراف نوٹ ۱۷۲ اور ۱۷۳ میں گزر چکی۔
۸۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ فرعون کا دعوائے ربوبیت محض سیاسی حاکمیت کا نہ تھا بلکہ مطلق حاکمیت کا تھا چنانچہ وہ خالص دینی امور میں بھی مداخلت کرتا تھا۔ اس کی حکومت میں نہ دین حق کا پرچار کرنے کی آزادی تھی اور نہ کسی دینی قیادت کے لیے ابھرنے کا کوئی موقع اور نہ ہی اس کی قوم کا کوئی فرد اپنے ضمیر کی آواز پر اللہ کے دین کو قبول کر سکتا تھا۔
۸۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرعون نے جب شکست کھائی تو اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کے لیے حضرت موسیٰ پر یہ الزام لگا دیا کہ وہ ان جادو گروں کے استاذ ہیں اور سب نے مل کر یہ سازش کی تھی۔
۸۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس دردناک سزا کے ملنے پر تمہیں پتہ چلے گا کہ خدا کا عذاب بڑا ہے یا میرا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فرعون کیسا متکبر، ظالم اور سرکش بادشاہ تھا۔
۸۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تھی ایمان کی طاقت جس سے سرشار ہو کر جادوگر فرعون کے آگے سپر آرا ہوئے کہ تو تیر آزما ہم جگر آزماتے ہیں۔ ایمان جب دل میں اثر کر جاتا ہے تو دل و دماغ بدل جاتے ہیں اور بہت بڑا حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ جادوگر کیا تھے اور آناً فاناً کیا ہو گئے۔ !
۸۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ جادوگر حضرت موسیٰ کے مقابلہ میں آنے کے لیے دل سے آمادہ نہیں ہوئے تھے مگر فرعون کا دباؤ ایسا رہا کہ وہ مقابلہ کے لیے آ گئے۔
۸۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی فرعون تو آج ہے اور کل مرا لیکن اللہ کی ذات تو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے لہٰذا وہی اس لائق ہے کہ اس پر توکل کیا جائے اور وہی اس کا اہل ہے کہ اس سے امیدیں وابستہ کی جائیں۔
۸۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا بیان ہے جو جادوگروں کے بیان پر اضافہ ہے۔
۸۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نہ تو اسے موت آئے گی کہ مصیبت کا خاتمہ کر دے اور نہ جئے گا کہ زندگی کا لطف اٹھائے۔ دونوں کے درمیان ایک جان لیوا مصیبت میں پھنسا رہے گا۔
۸۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایمان کے ساتھ عمل صالح کی قید اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ جنت کا یہ وعدہ ان ہی لوگوں سے ہے جو ایما ن لا کر اپنے کو عمل صالح سے آراستہ کریں گے۔ افسوس کہ مسلمانوں نے قرآن کے اس صریح بیان کو جس کو قرآن نے بار بار دہرایا ہے نظر انداز کر کے ان حدیثوں کا سہارا لیا ہے جن میں اجمالی طور پر ایمان لانے والوں کو جنت کی خوشخبری دی گئی ہے مثلاً حدیث میں ارشاد ہوا ہے۔ من قال لا الہ اللّٰہ دخل الجنۃ " جس نے کہا اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہ جنت میں داخل ہوا۔ " ظاہر ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی زبان سے لا الٰہ الا اللہ کہے اور اس کے بعد جو چاہے کرے جنت میں اس کے لیے جگہ ریزرو (Reserve) ہوہی گئی۔ اگر حدیث کو قرآن کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جاتی تو یہ غلط مطلب کبھی نہ لیا جاتا مگر حدیث کو قرآن سے الگ کر کے اس کے لفظی معنی کا سہار ا لیا گیا تاکہ دنیا کے فائدے بھی خوب بٹوریں اور جنت بھی ہاتھ سے نہ جائے۔
۸۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاکیزگی سے مراد شرک، کفر اور گناہوں سے پاکیزگی ہے۔ متن میں لفظ تَزَکّی استعمال ہوا ہے جس کے معنی پاکیزہ ہونے ہی کے نہیں بلکہ اپنے کو سنوارنے کے بھی ہیں اس لیے اس کے مفہوم میں اپنی صحیح تربیت کرنا اور نیکیوں سے اپنے کو سنوارنا بھی شامل ہے۔
۹۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کی طویل دعوتی جدوجہد اور طرح طرح کے معجزے دکھانے کا ذکر قرآن میں دوسرے مقامات میں ہوا ہے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف آیت ۱۳۰ تا ۱۳۴۔
یہاں آخری مرحلہ کا ذکر ہو رہا ہے۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ یونس نوٹ ۱۳۷ اور ۱۳۸۔
۹۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اپنا عصا سمندر پر مارو تو وہ پھٹ جائے گا اور تمہارے گزرنے کے لیے بالکل خشک راہ نکل آئے گی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا معجزہ تھا جو عصائے موسیٰ کے ذریعہ ظہور میں آیا۔ اگر بالفرض اتفاقی طور پر سمندر کا پانی ایک طرف ہوا ہوتا یا دو حصوں میں بٹ گیا ہوتا تو جو راستہ نکل آتا وہ خشک نہیں ہو سکتا تھا۔ خشک راستہ کا سمندر کے بیچ سے یکایک نکل آنا معجزانہ طور پر ہی ممکن ہے اس لیے سیدھی بات یہی ہے کہ اسے اللہ کا معجزہ تسلیم کیا جائے اور آیت کی الٹی سیدھی تاویل نہ کی جائے۔
سورۂ شعراء آیت ۶۳ میں یہ واقعہ مزید صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔
۹۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی فرعون تمہارا پیچھا تو کرے گا لیکن تم کو پکڑ نہ سکے گا۔ اس لیے تم بلا خوف چلے جاؤ۔ تمہارے سمندر میں غرق ہونے کا بھی کوئی خطرہ نہیں ہے کیونکہ سمندر سے تمہارے لیے معجزانہ طور پر راہ نکالی جائے گی۔
۹۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرعون بنی اسرائیل کا پیچھا کرتا ہوا جب سمندر کے پاس پہنچا تو راستہ کھلا پا کر وہ بھی اپنے لشکر کے ساتھ اس پر چل پڑا۔ جب بیچ سمندر کے پہنچ گیا تو دونوں طرف سے پانی آ کر مل گیا۔ اب وہ پوری طرح سمندر کی زبردست موجوں کی لپیٹ میں تھا۔
اللہ کی یہ بہت بڑی نشانی تھی جو ظاہر ہوئی۔ بنی اسرائیل کو تو سمندر نے صحیح سلامت گزار دیا لیکن فرعونیوں کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
۹۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی فرعون کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا کہ وہ لوگوں کو صحیح راہ بتا رہا ہے۔ اگر وہ صحیح راہ بتاتا تو اس کا اپنی قوم سمیت یہ حشر نہ ہوتا۔ اس واقعہ میں ان لوگوں کے لیے عبرت ہے جو اللہ کی ہدایت کو جس کو وہ اپنے رسول کے ذریعہ بھیجتا ہے قبول نہیں کرتے۔ بادشاہ اور لیڈر خود گمراہ ہوتے ہیں اور عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ انجام یہ کہ خود بھی ڈوبتے ہیں اور عوام کو لیکر ڈوبتے ہیں۔
۹۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی طور سینا کے مبارک دامن میں تمہیں شریعت کی نعمت عطا کرنے کا وعدہ کیا۔
اَیْمَن (دہنی) کی تشریح سورۂ مریم نوٹ ۷۲ میں گزر چکی۔
۹۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ من و سلویٰ کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بقرہ نوٹ ۷۶۔
۹۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مغفرت کا وعدہ ان لوگوں سے کیا ہے جو شرک و کفر اور معصیت سے باز آئیں، ان باتوں پر ایمان لائیں جس کی دعوت اللہ کا رسول دیتا ہے، نیک عمل کریں اور راہِ ہدایت یعنی اللہ کے دین و شریعت پر مرتے دم تک قائم رہیں۔
۹۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ کی طور پر حاضری کے لیے جو وقت مقرر کیا گیا تھا اس سے پہلے ہی وہ حاضر ہو گئے اللہ تعالیٰ نے اس کی وجہ ان سے پوچھی۔ اللہ تعالیٰ کو حقیقتِ حال کا اچھی طرح علم تھا لیکن سوال اس لیے کیا تاکہ موسیٰ پر یہ واضح ہو کہ ایک طرف ان کا ذوق و شوق ہے جو شریعت کے حصول کے لیے ان کو وقت سے پہلے ہی طور پر لے آیا ہے اور دوسری طرف ان کی قوم ہے۔ جو احکام خداوندی سے بے پروا ہو کر شرک کی راہ پر چل پڑی ہے۔ تفصیل آگے آ رہی ہے۔
یہ سوال غالباً میعاد کے اختتام پر کیا گیا تھا جبکہ حضرت موسیٰ کو الواح عطاء ہوئیں جیسا کہ بعد کی آیات سے واضح ہے جن میں بیان ہوا ہے کہ حضرت موسیٰ اپنی قوم کے بچھڑے کی پرستش میں مبتلا ہونے کی خبر پا کر غصہ کی حالت میں قوم کی طرف لوٹے تھے۔
۹۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بنی اسرائیل میری پیروی کر رہے ہیں اور میں تیرے حضور وقت سے پہلے حاضر ہوا تاکہ تیری خوشنودی حاصل ہو۔
حضرت موسیٰ کو اطمینان تھا کہ ان کی قوم ان کے نقشِ قدم پر چلے گی اس لیے انہوں نے اللہ کے حضور حاضری کے لیے وقت سے پہلے طور پر جانے میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا لیکن بعد کے حالات نے بتا دیا کہ ان کی قوم پر ان کی غیر حاضری گراں گزری۔ طور پر ان کی حاضری کے لیے اللہ تعالیٰ نے ابتدا میں ایک ماہ کی میعاد مقرر کی تھی بعد میں دس دن کا اضافہ کر کے اسے چالیس دن کر دیا گیا۔ ادھر حضرت موسیٰ مقررہ وقت سے کچھ دن پہلے ہی طور پر پہنچ گئے تھے اس لیے جب ایک ماہ گزر گیا اور حضرت موسیٰ لوٹے نہیں تو مفسدوں کو قوم میں غلط فہمیاں پیدا کرنے اور فتنہ کھڑا کرنے کا موقع مل گیا۔
۱۰۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سامری ایک فتنہ پرداز منافق تھا جو بنی اسرائیل میں گھس آیا تھا اور جس نے حضرت موسیٰ کی غیر حاضری سے فائدہ اٹھا کر بنی اسرائیل کو بہکایا اور بچھڑے کی پوجا پر آمادہ کیا۔ رہی اس نام کی تحقیق تو اس سلسلہ میں وثوق کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے اور اس کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے سامری کوئی خاص قبیلہ یا کوئی گاؤ پرست قوم رہی ہو اور یہ شخص اس کا ایک فرد ہو اور اس بنا پر قرآن نے اسے "السامری" (The Samiri) کہا ہو قرآن نے اس کے نام کی صراحت اس لیے کی تاکہ واضح ہو جائے کہ اصل مجرم جس نے بچھڑے کو معبود بنا کر پیش کیا تھا وہ سامری تھا اور بائبل میں حضرت ہارون کو جو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے وہ سراسر غلط اور جھوٹ ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ قرآن نے جس سامری کا ذکر کیا ہے اس کا سلطنت سامریہ سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ سلطنت سامریہ یہود کی سلطنت تھی جو بہت بعد میں حضرت سلیمان کے بعد وجود میں آئی۔
۱۰۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غصہ اس بات پر کہ قوم شرک میں مبتلا ہو گئی اور افسوس اس بات کا کہ دین توحید کی جو قیمتی متاع اس نے حاصل کی تھی اور جس کی حفاظت و اقامت کے لیے وہ قربانیاں دیتے ہوئے مصر سے طور کے دامن میں پہنچے اس کو انہوں نے کھو دیا۔
۱۰۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اچھے وعدے سے مراد شریعت عطا کرنے کا وعدہ ہے جس کے لیے حضرت موسیٰ طور پر گئے تھے۔
۱۰۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی میری غیر حاضری کسی طویل مدت کے لیے نہیں ہوئی تھی۔ اگر ایک ماہ کی مقررہ مدت پر کچھ مزید اضافہ ہو گیا تھا تو بہر حال یہ مدت ایسی نہیں تھی کہ تم اسے طویل غیر حاضری محسوس کرتے اور کسی فتنہ کا شکار ہو جاتے۔
۱۰۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی میری اتباع کا جو عہد تم نے کیا تھا اس سے پھر گئے۔
۱۰۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بنی اسرائیل کے ان سرداروں کا بیان ہے جن کو انہوں نے اپنے زیورات امانتہً سپرد کئے تھے۔ یہ زیورات بنی اسرائیل ہی کے تھے جن کو وہ اپنے ساتھ مصر سے لائے تھے مگر صحرا کی زندگی میں ان کی عورتوں کے لیے استعمال کا نہ کوئی موقع تھا اور نہ ان کی حفاظت آسان تھی اس لیے انہوں نے اپنے زیورات چند معتمد اشخاص کے حوالہ کئے تھے تاکہ وہ اس کو حفاظت سے رکھیں مگر یہ ذمہ داری ایسی تھی کہ وہ اس کے بوجھ تلے دبے جا رہے تھے کیونکہ ان کے لیے بھی صحرا میں اس کی حفاظت کرنا آسان نہ تھا۔ ادھر سامری نے قوم کو گوسالہ پرستی میں مبتلا کرنے کے لیے ایک چال چلی۔ اس نے کچھ اس انداز میں لوگوں کو ورغلایا کہ موسیٰ نے تم کو لا کر صحرا میں چھوڑ دیا اور خود غائب ہو گئے۔ اب اگر تم کو اپنے سچے رب کی تلاش ہے تو اپنے زیورات چندے میں دے دو میں تمہیں عجیب و غریب کرامت دکھاتا ہوں۔ لوگ اس کے ورغلانے میں آ گئے اور اپنے ان سرداروں سے جن کو انہوں نے اپنے زیورات کا امین بنایا تھا یہ مطالبہ کیا کہ وہ ان کے زیورات سامری کو چندہ میں دیدیں۔ سردار چونکہ ان زیورات کی حفاظت کی ذمہ داری کے بوجھ تلے دبے جا رہے تھے اس لیے انہوں نے اس بوجھ کو اتار پھینک دیا سامری نے ان تمام زیورات کو جمع کر کے آگ میں ڈالا اور بچھڑا ڈھال کر نکال لیا۔
واضح رہے کہ بائبل کا یہ بیان صحیح نہیں کہ نبی اسرائیل جب مصر سے چلے ہیں تو انہوں نے مصریوں سے زیور عاریتہ (عارضی استعمال کے لیے مانگ) لیے تھی اور ان کو لیکر مصر سے روانہ ہو گئے اس طرح انہوں نے مصریوں کو لوٹ لیا تھا۔ (ملاحظہ ہو خروج ۱۲:۳۵، ۳۶)
بائبل کے اس بیان پر اعتماد کرتے ہوئے مفسرین نے لکھا ہے کہ یہی زیور تھے جن کو بنی اسرائیل نے پھینک دیا تھا اور سامری نے ان کو لیکر بچھڑا بنا لیا تھا مگر قرآن سے اس کی تائید نہیں ہوتی کیونکہ سورۂ اعراف میں زیورات کی نسبت موسیٰ کی قوم کی طرف کی گئی ہے :
وَاتَخَذَ قَوْمُ مُوسیٰ مِنْ بَعْدِہٖ مِنْ حُلِیٓہِمْ عِجْلاً۔ (اعراف۔ ۱۴۸) " اور موسیٰ کے (طور پر) چلے جانے کے بعد اس کی قوم نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا ڈھال لیا۔ " اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ موسیٰ کی قوم کے اپنے زیور تھے اور مصریوں کو لوٹنے کی بات تو اخلاقی پہلو سے بھی صحیح نہیں معلوم ہوتی پھر حضرت موسیٰ نے کس طرح اس کی اجازت دی ہو گی اور مصری اتنے بھولے نہیں تھے کہ اپنے زیور نکال نکال کر بنی اسرائیل کو جن کو انہوں نے اپنے ظلم کا نشانہ بنایا تھا پیش کر دیتے۔
۱۰۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سامری نے زیورات کو جو سونے کے رہے ہوں گے پگھلا کر بچھڑے کی شکل میں ڈھال لیا اور اپنی فنی مہارت کا ایسا ثبوت دیا کہ ہوا کے داخل ہونے سے گائے کی سی آواز نکلنے لگی۔ قرآن کہتا ہے کہ وہ ایک جسد یعنی دھڑ ہی دھڑ تھا۔ زندگی اس میں نہیں تھی بلکہ محض بھاں بھاں کی آواز اس میں سے نکلتی تھی۔
۱۰۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگ اس سنہرے بچھڑے پر ایسے ریجھ گئے کہ اس کو معبود بنا بیٹھے اور یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ موسیٰ کا خدا یہی ہے مگر وہ بھول کر کسی اور خدا کی تلاش میں طور پر گئے ہیں۔
۱۰۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عقل کے ان اندھوں کو یہ بات بھی دکھائی نہیں دی کہ یہ بچھڑا ایک ہی طرح کی آواز نکالتا ہے اس سے آگے وہ ان کی کسی بات کا بھی جواب نہیں دیتا اور نہ اس میں یہ قدرت ہے کہ کسی کو نفع یا نقصان پہنچائے۔ پھر اس میں خدائی کی صفت کہاں سے آ گئی؟ حقیقت یہ ہے کہ گوسالہ پرستوں کا خدا محض بھاں بھاں کرتا ہے مگر توحید پر ایمان رکھنے والوں کا خدا سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے، دعائیں قبول کرتا اور حاجتیں پوری کرتا ہے اور ا ن کی صحیح رہنمائی بھی کرتا ہے۔
۱۰۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت ہارون نبی تھے وہ اس فتنہ کو دیکھ کر کس طرح خاموش رہ سکتے تھے۔ انہوں نے قوم کو متنبہ کیا کہ دیکھو اس بچھڑے کا وجود سراسر فتنہ ہے اور تم اس آزمائش میں ڈال دئے گئے ہو کہ اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہتے ہو یا کفر و شرک کی روش اختیار کرتے ہو۔ تمہارے لیے بچھڑے کی پوجا کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے جبکہ تمہارا رب کائنات کی وہ عظیم ہستی ہے جس کو تم رحمن (مہربان خدا) کے نام سے جانتے ہو میں اس کا رسول ہوں لہٰذا میری پیروی کرو اور جو حکم میں دے رہا ہوں اس کو مانو۔
۱۱۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تھی بنی اسرائیل کی جسارت کہ ایک نبی کی بروقت تنبیہ کو بھی خاطر میں نہیں لایا اور انہیں ایسا جواب دیا جس کے ایک ایک لفظ سے سرکشی کا اظہار ہوتا ہے۔
۱۱۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ نے حضرت ہارون سے بھی سخت باز پرس کی کہ جب لوگ گمراہ ہو رہے تھے تو کیا وجہ تھی کہ تم نے فتنہ کو مٹانے کے لیے میری ہدایت پر عمل نہیں کیا یعنی ایسے لوگوں کے خلاف اقدام نہیں کیا۔ حضرت موسیٰ جب طور پر جا رہے تھے تو انہوں نے حضرت ہارون کو یہ ہدایت کی تھی کہ وَاَصْلِحْ (اعراف:۱۴۲) "اصلاح کے کام کرنا" جس میں برائی کو دور کرنا بھی شامل تھا۔
۱۱۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت ہارون نے بڑے تحمل سے کام لیا اور حضرت موسیٰ پر حقیقت حال واضح کر دی۔ انہوں نے دیکھا کہ بنی اسرائیل کا ایک اچھی خاصی تعداد پر سامری کا جادو چل گیا ہے اور بچھڑے کی محبت کا نشہ ان پر کچھ ایسا چڑھ گیا ہے کہ اس کی پرستش سے ان کو روکنا قوت کے استعمال کے بغیر ممکن نہیں اور قوت کے استعمال کے لیے بنی اسرائیل کے جو لوگ آگے بڑھیں گے ان پر بچھڑے کے یہ پرستار تلوار اٹھائیں گے اس طرح بنی اسرائیل کی جمعیت پھوٹ کا شکار ہو جائے گی اور وہ ایک نبی (حضرت ہارون) کو قتل کرنے میں بھی دریغ نہیں کریں گے۔ اور اگر ایسا ہوا تو بنی اسرائیل ایک زبردست حادثہ سے دو چار ہو جائیں گے اور جب حضرت موسیٰ کی واپسی چند دنوں ہی میں متوقع ہے تو مناسب یہی ہے کہ ان کے آنے کا انتظار کیا جائے۔ یہ حضرت ہارون کی دور اندیشی تھی جس کی بنا پر انہوں نے معاملہ کو چند روز کے لیے ملتوی کر دیا۔ اس میں مداہنت یا پست حوصلگی کی کوئی بات نہ تھی اور نہ ایک نبی کے بارے میں اس قسم کی بدگمانی کی جاسکتی ہے۔ اس کے باوجود حضرت موسیٰ کا سختی کے ساتھ باز پرست کرنا بر محل ہی تھا کیونکہ ان کا جو ش غضب غیرتِ ایمانی کی بنا پر تھا ایسے موقع پر ظاہری آداب کو ملحوظ رکھنے میں جو کوتاہی ہوتی ہے وہ قابل درگزر ہوتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی نہ اس بات پر گرفت فرمائی کہ انہوں نے ہارون کی ڈاڑھی کیوں پکڑی اور نہ اس بات پر فرمائی کہ تختیاں جن پر تورات لکھی ہوئی تھی کیوں نیچے ڈال دیں۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کے جوشِ غضب نے پوری قوم کو مرعوب کر دیا۔ شر پسندوں نے جب دیکھا کہ وہ ایک نبی کے ساتھ بھی سخت گیری کر رہے ہیں تو ان کی ہمت نہیں ہوئی کہ سامری کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں۔ اس طرح حضرت موسیٰ کے جلال نے قوم کو اپنے قابو میں کر لیا اور بچھڑے کے پرستاروں پر یہ برق بن کر گرا چنانچہ اس روز جیسا کہ بائبل کا بیان ہے تین ہزار آدمی قتل کر دیئے گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے بچھڑے کی پوجا کی تھی اور یہ ان کے مرتد ہونے (دین توحید سے پھر جانے) کی سزا تھی۔ اس موقع پر سورۂ بقرہ نوٹ ۷۳ اور سورۂ اعراف نوٹ ۲۲۰ تا ۲۲۶ بھی پیش نظر رہیں۔
۱۱۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قوم کو اپنے قابو میں کرنے کے بعد حضرت موسیٰ نے فتنہ کے اصل سرغنہ سامری کو طلب کیا اور اس سے پوچھا کہ تو نے یہ کیا کیا؟
۱۱۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سامری نے جو حرکت کی تھی اس کو جائز (Justify) قرار دینے کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی اور چونکہ وہ منافق تھا اس لیے کھل کر اپنے گناہ کا اعتراف بھی نہ کر سکا البتہ دبے لفظوں میں اس نے اپنی شکست خوردہ ذہنیت کا اظہار کیا۔ اس نے تین باتیں کہیں ایک یہ کہ مجھے وہ بات سجھائی جو دوسروں کو سجھائی نہیں دی یعنی زیورات کو جمع کر کے سنہرا بچھڑا ڈھالنے کی تجویز میرے ذہن میں آئی کسی اور کے ذہن میں نہیں آئی۔ ایسا کیوں ہوا اس کی کوئی توجہ میں نہیں کر سکتا۔ دوسری بات اس نے یہ کہی کہ یہ تجویز چونکہ میرے ذہن میں گھوم رہی تھی اس لیے میں نے رسول کی پیروی میں بہت تھوڑا حصہ لیا اور جس قدر حصہ لیا اسے بھی بعد میں ترک کر دیا اور تیسری بات اس نے یہ کہی کہ اس طرح میرے نفس نے میری نظر میں اس کام کو خوشنما بنا دیا غرضیکہ سامری نے سیدھے طریقے سے نہ اپنے جرم کا اعتراف کیا اور نہ توبہ کی بلکہ یہ دیکھ کر وہ حضرت موسیٰ کی گرفت میں بری طرح آ چکا ہے گول مول الفاظ میں اس بات کا اعتراف کیا کہ یہ میری ذہنی اپج تھی اور کیا کروں میرے نفس نے مجھے ایسا ہی سمجھایا۔
واضح رہے کہ مفسرین کے ایک گروہ نے اس آیت کے کچھ اور ہی معنٰی بیان کئے ہیں ان کے نزدیک فَقَبَضْتُ قَبْضَۃً مِنْ اَثرالرَّسُولِ فَنَبَذْتُھَا کے معنی ہیں : " میں نے رسول کے نقش قدم سے ایک مٹھی خاک اٹھا لی اور بچھڑے کے اندر ڈال دی۔ " اور اس کا مفہوم وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ سامری نے جبرئیل کے گھوڑے کو دیکھا تھا اور اس کے پاؤں کے نیچے سے مٹھی بھر خاک اٹھائی تھی۔ اس خاک میں زندگی پیدا کرنے کی خصوصیت تھی اس لیے جب اس نے بچھڑے کو ڈھالتے ہوئے یہ خاک اندر ڈالی تو اس بچھڑے میں زندگی پیدا ہو گئی۔ مگر آیت کی یہ تفسیر نہ قرآن سے مطابقت رکھتی ہے اور نہ حدیث ہی سے یہ ثابت ہے پھر مفسرین کو کس طرح معلوم ہوا کہ سامری نے جبریل کو دیکھ لیا تھا اور یہ کہ وہ گھوڑے پر سوار تھے اور اس کے ٹاپ کی مٹی حیات بخش تھی اور یہ اس مٹی ہی کی کرامت تھی کہ اس نے بچھڑے میں جان ڈال دی؟ یہ سراسر ایک من گھڑت قصہ ہے جس کو غلطی سے مفسرین نے قبول کر لیا۔ آیت کی یہ تاویل متعدد وجوہ سے غلط ہے : (۱) بَصُرتُ کا تعلق یہاں آنکھ سے نہیں بلکہ ذہن سے ہے اسی لیے ہم نے اس کا ترجمہ "مجھے سجھائی دیا سے کیا ہے۔ عربی کی مشہور اور مستند لغت صحاح جوہری میں ہے : وَبَصُرْت بِالشَیءِعَلْمِتُہٗ "بَصُرْت بِالشَیءِ کے معنی ہیں میں نے اس کو جان لیا۔ " (ج ۲ص ۵۹۱)
اگر جبرئیل کو دیکھنا مراد ہوتا تو اس کے لیے رَأَیتُ، نَظَرْتُ، اَبْصَرْتُ جیسا کوئی لفظ استعمال ہوا نہ کہ بَصُرْتُ جو کم ہی اس معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ تو تھی لغت کے لحاظ سے صحیح معنی کی تعیین۔ اب ذرا اس بات پر بھی غور کیجئے کہ حضرت جبرئیل کو دیکھنے کی سعادت سامری جیسے منافق اور مفسد کو کیوں حاصل ہونے لگی؟ جبرئیل کے گھوڑے پر سوار ہونے کا ثبوت کیا ہے؟ اور سامری کو یہ کیسے معلوم ہو گیا کہ ان کے گھوڑے کے پاؤں کے نشان کی مٹی ایسی بابرکت ہے کہ کسی چیز میں ڈالتے ہی اس میں جان پیدا ہو جاتی ہے۔ اور اگر وہ اسے حیات بخش سمجھتا تھا تو پھر وہ کسی مردہ انسان کو اس کے ذریعہ زندہ بھی کر سکتا تھا یا خود مٹی کھا کر ہمیشہ کے لیے زندہ رہ سکتا تھا پھر اس نے ایسا کیوں نہیں کیا! قرآن میں تو جبریل کے خاکِ پاکی یہ تاثیر کہیں بھی بیان نہیں ہوئی ہے اور نہ بچھڑے کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ اس میں جان پڑ گئی تھی بلکہ قرآن صاف کہتا ہے کہ وہ محض ایک دھڑ (جسد) تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ قصہ بالکل بیہودہ ہے امام رازی نے تفسیر کبیر میں اور مولانا ابوالکلام آزاد نے ترجمان القرآن میں قوی دلائل سے اس کی تردید کی ہے۔ لیکن جو لوگ بدعتوں کی تائید میں اوٹ پٹانگ باتیں کرتے رہتے ہیں انہیں یہ مصرع لگانے کا موقع مل گیا کہ :
" جب حضرت جبرئیل کی گھوڑی کی خاک بے جان سونے میں جان پیدا کر سکتی ہے تو بزرگوں کے قدموں کی خاک مردہ دلوں کو ضرور زندہ کر دیتی ہے۔ " (تفسیر نورالعرفان ص ۵۰۸) ۔
۲) آیت میں الرسول کا لفظ استعمال ہوا ہے اور موقع کلام کے لحاظ سے اس سے مراد حضرت موسیٰ ہی ہو سکتے ہیں کیونکہ مسئلہ ان ہی کی پیروی کا تھا۔ جبرئیل کا ذکر اس سلسلہ کی آیات میں کہیں بھی نہیں ہوا ہے پھر ان کو کس طرح مراد لیا جاسکتا ہے؟ رہا یہ سوال کہ پھر سامری نے حضرت موسیٰ کو جواب دیتے ہوئے " آپ کی پیروی کے بجائے رسول کی پیروی" کے الفاظ کیوں استعمال کئے تو اس کی وجہ دراصل اس کا گول مول انداز بیان تھا۔
۳) رسول کے نقش قدم سے ایک مٹھی لینے کے معنیٰ مٹھی بھر مٹی لینے کے نہیں ہیں بلکہ موقع کلام دلیل ہے کہ اس کے معنی رسول کی قدرے اتباع کرنے یا اس کی پیروی میں تھوڑا سا حصہ لینے کے ہیں اسی طرح نَبَذْتُھَا کے معنی یہ نہیں ہیں کہ میں نے اس مشت خاک کو بچھڑے کے اندر ڈال دیا کیونکہ نَبَذَ کے معنی عربی میں پھینک دینے یا بے وقعتی کے ساتھ کسی چیز کو ڈال دینے کے آتے ہیں : اَلنَّبَذ الْقَاءُ الشَّیْ وَطَرْحُہُ ا لِقِلَّۃِ الْاَعْتَدَادِبِہٖ وَلِذٰلِکَ یُقَالُ نَبَذْتُہُ نَبْذَ النَّعَلِ الخَلْقِ (المفردات۔ راغب ص ۴۹۸) "نَبَذَ کے معنیٰ کسی چیز کو اس کے بے وقعت ہونے کی بنا پر ڈال دینے اور پھینک دینے کے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے میں نے اس کو اس طرح پھینکا جس طرح پرانی جوتیوں کو پھینکا جاتا ہے۔ "
اگر سامری نقش پائے رسول کی خاک کو بابرکت اور حیات بخش سمجھتا تھا تو بچھڑے کے اندر ڈالنے کے لیے وہ ایک ایسا لفظ کیسے استعمال کرتا جس سے اس مٹی کا بے وقعت ہونا ظاہر ہوتا ہے وہ اس کے لیے اِلقاء (ڈالنے) کا لفظ استعمال کرتا یعنی کہتا فَاَلْقَیْتُہَا (میں نے اس مشتِ خاک کو ڈال دیا) لہٰذا لغوی طور پر نَبَذَ کا لفظ رسول کی پیروی ترک کرنے اور اس کی اتباع کو بے وقعت خیال کر کے چھوڑ دینے کے معنی میں موزوں ہو رہا ہے قرآن کریم میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے : نَبَذَ فَرِیْقٌ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُو الکِتٰبَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَرَاءَ ظُہورِہِمْ کَاَنَّہُم لَایَعْلَمُوْنَ (بقرہ۔ ۱۰۱) " اہلِ کتاب کے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب کو اس طرح پس پشت ڈال دیا کہ گویا وہ جانتے ہی نہیں۔ "
ظاہر ہے یہاں نَبَذَ (ڈال دیا) کے معنی کتاب اللہ کو بے التفاتی کے ساتھ پیٹھ پیچھے ڈال دینے کے ہیں۔
۱۱۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الفاظ سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ اللہ کا عذاب تھا جو اس کے لیے مقدر ہوا اور جس کا اعلان حضرت موسیٰ نے کیا۔ اسے معاشرہ سے کاٹ دیا گیا اور ایسی حالت میں اسے تنہا چھوڑ دیا گیا کہ کوئی شخص اس کے پاس پھٹکنے نہ پائے۔ وہ شرک کی نجاست سے آلودہ ہو گیا تھا اس لیے سزا کے طور پر اس کو ہمہ تن نجس قرار دیا گیا کہ کوئی شخص اس کو چھونے نہ پائے اور ذلت کی انتہا یہ کہ وہ خود اپنی زبانی اپنے اچھوت ہونے کا اعلان کرتا رہے۔ اغلب یہ ہے کہ وہ کسی موذی اور خطرناک مرض میں مبتلا کر دیا گیا ہو گا۔
جن لوگوں نے بچھڑے کو پوجا تھا ان کو قتل کر دیا گیا (سورۂ بقرہ آیت ۵۴ اور نوٹ ۷۳) لیکن سامری کو عذاب بھگتنے کے لیے زندہ چھوڑ دیا گیا تاکہ وہ نشان عبرت بنا رہے۔
۱۱۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ سزا ہے جو قیامت کے دن ملے گی۔
۱۱۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بچھڑا زیورات سے بنایا گیا تھا جو سونے چاندی کے رہے ہوں گے۔ حضرت موسیٰ نے اسے جلا کر ریزہ ریزہ کر دیا یعنی اس کا سفوف بنا ڈالا اور اس سفوف کو دریا میں بہا دیا۔ اس طرح حضرت موسیٰ نے بت شکنی کی ابراہیمی سنت کو زندہ کر دیا اور دیکھنے والوں نے دیکھ لیا کہ اگر بچھڑا خدا ہوتا تو وہ راکھ کا ڈھیر نہ بن جاتا اور اس کا پجاری مردود ہو کر نہ رہ جاتا۔
اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ بچھڑا ایک بے جان دھڑ تھا۔ اگر اس میں جان ہوتی اور وہ گوشت پوست کا بچھڑا ہوتا تو اسے ذبح کر دیا جاتا اور پھر نذر آتش کیا جاتا۔
ضمناً یہ بھی معلوم ہوا کہ منکر کو مٹانے اور اس سے شدید نفرت پیدا کرنے کے لیے سونے چاندی کی قیمتی چیزوں کو بھی ضائع کیا جاسکتا ہے کیونکہ غیرتِ ایمانی کے مقابلہ میں ضیاعِ مال ایک بے معنی بات ہے۔
۱۱۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ توحید کی ایک اور دلیل ہے۔ خدا وہی ہو سکتا ہے جس کا علم کلی اور ہمہ گیر ہو۔ یہ صفت صرف اللہ ہی کی ہے اس لیے خدا صرف وہی ہے۔ مگر جو لوگ شرک اور بت پرستی میں مبتلا ہوتے ہیں ان کے نزدیک ایک بیل بھی خدا ہو سکتا ہے اور ایک بدھو بھی !
۱۱۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ذکر سے مراد قرآن ہے۔ قرآن کو ذکر سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ وہ خدا کو یاد دلانے والی کتاب ہے۔ بندہ اسے جہاں سے بھی پڑھے خدا کی یاد میں ڈوب جاتا ہے۔ وہ ان باتوں کی بھی یاد دہانی کرتا ہے جن سے انسانی فطرت پہلے ہی سے آشنا ہے نیز اس لیے بھی کہ وہ سرتاسر نصیحت ہے۔
۱۲۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کو " ایک مذہبی کتاب" سمجھ کر نظر انداز کرنا وہ زبردست غلطی ہے جس میں دنیا کی قومیں مبتلا ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن فرمان الٰہی ہے کسی قوم، ملک اور زمانہ کی تخصیص کے بغیر پوری انسانیت کے لیے اور ہر دور کے لیے نازل ہوا ہے جس کا مخاطب ہر فرد ہے لہٰذا جس شخص تک بھی قرآن یا اس کی دعوت پہنچ جائے اور وہ اس سے منہ موڑے وہ اپنے کو معصیت کی راہ پر ڈال دیتا ہے کیونکہ فرمان الٰہی کو رد کرنے کا مطلب باغیانہ طرز عمل اختیار کرنا ہے اور باغیانہ طرز عمل اختیار کر کے آدمی بہت بڑے گناہ کا بوجھ اپنے سر لے لیتا ہے مگر اس کا احساس اسے قیامت کے دن ہو گا کہ وہ کتنا بڑا بوجھ اپنے سر لادے ہوئے ہے۔
۱۲۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہمیشہ گناہوں کے بوجھ تلے دبے رہیں گے اور اس کی سزا بھگتیں گے کیونکہ کفر اور شرک کا گناہ ایسا ہے جو چپک کر رہ جاتا ہے اور کبھی جدا نہیں ہوتا۔
۱۲۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ قیامت کا سائرن (Siren) ہو گا جس کی آواز زمین کے گوشہ گوشہ تک پہنچ جائے گی۔ جب پہلا سائرن ہو گا تو زمین کی ساری مخلوق مر جائے گی اور نظام کائنات درہم برہم ہو جائے گا اور جب دوسرا سائرن ہو گا تو تمام انسان جو آدم سے لیکر قیامت تک پیدا ہوتے رہے ہیں جسم سمیت دوبارہ زندہ ہو کر زمین سے نکل پڑیں گے۔
۱۲۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دہشت کی وجہ سے مجرموں کی آنکھوں کا رنگ نیلا پڑا ہو گا بالفاظ دیگر ان کی آنکھیں بے رونق ہو گئی ہوں گی۔
۱۲۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مرنے کے بعد انسان کی روح قیامت تک عالم برزخ میں رہتی ہے جو دنیا اور آخرت کے درمیان کا عالم ہے۔ اس عالم میں انسان نے خواہ کتنی ہی لمبی مدت گزاری ہو قیامت کے دن اسے ایسا محسوس ہو گا کہ یہ واقعہ بس چند دن کا تھا اور منکرین میں سے جو شخص سب سے بہتر اندازہ لگانے والا ہو گا وہ کہے گا کہ نہیں وقفہ صرف ایک دن کا رہا ہے۔
وقت کی طوالت کو محسوس نہ کرنے کا تجربہ ہمیں دنیا کی زندگی میں بھی ہوتا رہتا ہے۔ کئی گھنٹے سوتے رہنے کے بعد جب ہم بیدار ہوتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ابھی ہم سوئے تھے اور ابھی اٹھ گئے۔ جب وقت کے بارے میں ہمارے احساسات کا حال یہ ہے تو قیامت کو دور خیال کر کے دنیا کے عیش میں مست رہنا نادانی اور فریب نفس نہیں تو اور کیا ہے؟
۱۲۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ کہف نوٹ ۶۶ اور سورۂ قارعہ نوٹ ۵۔
۱۲۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی زمین کی ہیئت بالکل بدل جائے گی۔ نہ کہیں ٹیڑھ میڑھ ہو گا اور نہ کہیں نشیب و فراز۔ انسان کی بنائی ہوئی عمارتیں تو پہلے ہی مسمار ہو چکی ہوں گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ کر کے ہوا میں اڑا دئے گئے ہوں گے۔ درخت، جھاڑ جھنکار اور جنگلوں کا صفایا کر دیا گیا ہو گا۔ جغرافیائی تبدیلی ایسی عمل میں آئے گی کہ کسی بھی ملک کا نشان باقی نہیں رہے گا۔ اس طرح زمین ایک ہموار اور چٹیل میدان کی شکل اختیار کرے گی تاکہ لا تعداد انسان اپنے رب کے حضور حاضری کیلئے جمع ہو سکیں۔
۱۲۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پکارنے والے سے مراد فرشتہ ہے۔ میدانِ حشر میں جس کے کھڑے ہونے کی جو جگہ مقرر ہو گی اس کی طرف فرشتہ اسے لے جائے گا اور وہ اس فرشتہ کو پیچھے پیچھے چلا جائے گا۔ کسی کی مجال نہیں ہو گی کہ اس سے انحراف کر کے کہیں اور نکل جائے۔
۱۲۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کا یہ اجتماع کیا ہو گا انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر مگر نہ ہنگامہ آرائی ہو گی اور نہ شور و غل۔ مجال نہیں کہ کوئی آواز بلند کر سکے۔ سب کی آوازیں خدائے رحمن کے حضور دب گئی ہوں گی۔ اس وقت صرف قدموں کی آہٹ سنائی دے گی۔
۱۲۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بقرہ نوٹ ۴۱۲ اور سورۂ مریم نوٹ ۱۱۱۔
۱۳۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ کون اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے حق میں عذاب اخروی سے نجات کی سفارش کی جائے اور کون اس کا مستحق نہیں ہے اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے کیونکہ وہ ماضی، حال، مستقبل، حاضر، غائب سب کا جاننے والا ہے اور وہ ہر ہر شخص کی نیت اور اس کے احوال سے پوری طرح باخبر ہے لہٰذا سفارش کی عام اجازت کسی کو بھی نہیں دی جائے گی کہ وہ جس کے لیے چاہے سفارش کرے بلکہ یہ اجازت اس شرط کے ساتھ مشروط ہو گی کہ ان ہی کے حق میں سفارش کی جائے جن کے بارے میں سفارش سننا اللہ پسند فرمائے گا۔
۱۳۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ظلم سے مراد جیسا کہ بعد کی آیت سے واضح وہ رویہ ہے جو ایمان اور عمل صالح کے خلاف ہو۔ شرک، کفر اور معصیت کیش ہونا (گناہ کی زندگی گزارنا) اس میں شامل ہے۔
۱۳۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ یوسف نوٹ ۳ میں گزر چکی۔
۱۳۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تنبیہ اللہ کی جلالی صفات کو پیش کر کے، تنبیہ گزری ہوئی سرکش قوموں کے واقعات کو یاد دلا کر، تنبیہ عذاب کے اس کوڑے کے ذریعہ جو مفسد افراد اور قوموں پر دنیا میں برستا رہتا ہے، تنبیہ موت کی سختیوں کا ذکر کر کے، تنبیہ قیامت کی ہولناکیاں بیان کر کے اور تنبیہ جہنم کی وعید سنا کر۔
۱۳۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن کے نزول کا مقصد یہ ہے کہ لوگ تقویٰ (خدا خوفی اور پرہیزگاری) کی زندگی گزاریں لیکن اگر لوگ اس کو قبول نہیں کرتے تو قرآن ان کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلائے تاکہ اللہ کی حجت ان پر قائم ہو جائے۔
۱۳۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے بادشاہِ حقیقی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کا فرمانروا اللہ اور صرف اللہ ہے۔ رہے دنیوی بادشاہ تو ان کے اختیارات اللہ ہی کے عطا کردہ ہیں اس لیے وہ محض مجازی معنی میں بادشاہ ہیں اور وہ حق کی بنا پر (Dejure) اس بات کے مجاز نہیں ہیں کہ اللہ کے حکم کی جگہ اپنا حکم چلائیں۔
۱۳۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت ہے کہ جب قرآن نازل ہو رہا ہو تو اس کو پڑھنے میں جلدی نہ کرو جب تک کہ وحی پوری نہ ہو جائے تو اسے پڑھو۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کس شوق و انہماک سے وحی کو اخذ (حاصل) کرتے تھے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ قرآن مکمل طور سے وحی الٰہی ہے اور اس کی تصنیف میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی دخل نہیں ہے۔
۱۳۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں علم سے مراد وہ علم ہے جو وحی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے یہ علم کائنات کے اسرار و رموز اور غیبی حقیقتوں کو جاننے اور خدا کی پسند اور نا پسند کو معلوم کرنے کا صحیح ذریعہ ہے اس لیے دنیا کے تمام علوم پر اس کی فوقیت ظاہر ہے۔ اس علم کی طلب طلبِ صادق ہے اور اس میں فراوانی (ترقی) کے لیے دعا قدر شناسی کی علامت ہے۔
یہ علم قرآن کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے اور اس پر غور کرنے سے علوم و معارف کے دروازے کھلتے ہیں مگر اس ٹھوس علم سے کم ہی لوگ فیضیاب ہو رہے ہیں دنیا اس سے بالکل نا آشنا ہے۔
۱۳۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب حضرت آدم کی سرگزشت کے کچھ پہلو پیش کئے جا رہے ہیں۔ مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ انسان کی اصل کمزوری کیا ہے اور وہ کس طرح شیطان کے فریب میں آ جاتا ہے۔
۱۳۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکیدی حکم اس بات کا کہ فلاں درخت کے پاس نہ جانا۔ (سورۂ بقرہ آیت ۳۵)۔
۱۴۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آدم میں ارادہ کی پختگی نہیں تھی اس لیے اس سے یہ لغزش ہوئی کہ شیطان کے فریب میں آ گیا اور چونکہ خدا کے تاکیدی حکم کو وہ بھول گیا اس لیے اس نے اس درخت کا پھل کھا لیا جس سے منع کیا گیا تھا۔
معلوم ہوا کہ انسان کی بنیادی کمزوری بھول اور ارادہ کا مضبوط نہ ہونا ہے۔
۱۴۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ بقرہ نوٹ ۴۷، ۴۸ میں گزر چکی۔
۱۴۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آدم علیہ السلام کو جس جنت میں رکھا گیا تھا اس کی خصوصیت یہ تھی کہ وہاں بھوک اور پیاس کی کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی اس کے باوجود کھانے پینے کی اشیاء وافر پیمانے پر مہیا کر دی گئی تھیں تاکہ وہ بہ فراغت کھا سکیں اسی طرح لباس ایسا پہنا دیا گیا تھا کہ جسم پر قائم رہنے والا تھا اس لیے انہیں برہنگی کا کبھی احساس نہیں ہوا سورج کی دھوپ اور گرمی سے بھی انہیں محفوظ رکھا گیا تھا یہ ایک عارضی جنت تھی جس میں اس اہتمام کے ساتھ حضرت آدم اور حضرت حوا کو رکھا تھا۔ رہا یہ سوال کہ یہ جنت کہاں تھی تو قرآن نے اس کا ذکر نہیں کیا کیونکہ پیش نظر مقصد کے لیے یہ تفصیلات غیر ضروری تھیں۔
۱۴۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ اعراف نوٹ ۲۵ میں گزر چکی۔
۱۴۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیطان نے آدم کو ورغلانے کے لیے مختلف باتیں کہی تھیں۔ کبھی تو یہ کہا کہ اس درخت کا پھل کھانے سے تمہیں اس لیے روکا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ (سورۂ اعراف آیت ۲۰ اور کبھی یہ کہا کہ اگر تم نے اسے کھا لیا تو تمہیں ہمیشگی کی زندگی اور لازوال بادشاہی حاصل ہو گی۔
۱۴۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۲۶، ۲۹ اور ۳۰۔
۱۴۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت آدم نے نافرمانی تو کی لیکن یہ نافرمانی قصد و ارادہ کے ساتھ نہیں تھی اور نہ اس میں سرکشی کا کوئی دخل تھا بلکہ یہ محض بھول کا نتیجہ تھی جس کی صراحت خود قرآن نے کی ہے اور اس بھول پر گرفت اس لیے ہوئی کہ انہوں نے اللہ کے اس تاکیدی حکم کو یاد رکھنے کی پوری پوری کوشش نہیں کی کہ مخصوص درخت ان کے لیے ممنوع ہے۔
رہا یہ اشکال کہ آدم نبی تھے اور نبی گناہ سے محفوظ ہوتا ہے تو اولاً یہ بات ا ن کو نبوت عطا کئے جانے سے قبل کی ہے۔ ثانیاً یہ واقعہ عارضی جنت میں پیش آیا تھا جو بنائی ہی گئی تھی مخصوص قسم کی آزمائش کے لیے ثالثاً گناہ اور گناہ میں فرق ہے۔ یہ گناہ ایک لغزش تھی جو شیطان کے فریب میں آنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔
۱۴۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ غَویَ استعمال ہوا ہے جس کے معنی گمراہی کے بھی ہیں اور جہالت یا خواہشات کے غلبہ کے تحت بے راہ ہو جانے کے بھی۔ چنانچہ سورۂ قصص آیت ۱۸ میں ایک جھگڑالو شخص کے بارے میں حضرت موسیٰ کا یہ بیان نقل ہوا ہے کہ اِنَّکَ لَغَوِیٌّ مبینٌ " تو صریح غوی (نا معقول آدمی) ہے۔ "
حضرت آدم کسی اعتقادی گمراہی میں مبتلا نہیں ہوئے تھے اور نہ انہوں نے سرکشی کی راہ اختیار کی تھی بلکہ شیطان کے فریب میں آنے کی وجہ سے ان کا قدم غلط رخ پر جا پڑا تھا۔ ان کی اسی حالت کو غَویَ بے راہ ہو جانے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
۱۴۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب حضرت آدم کے جسم سے جنت کا لباس اتر گیا تو انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے ٹھوکر کھائی ہے اور اس پر نادم ہوئے۔ ان کی ندامت کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کو اٹھایا کہ وہ گرتوں کو اٹھاتا ہے اور ایسا اٹھایا کہ وہ مقبول بارگاہ ٹھہرے۔ ان کے گناہ کے داغ کو دھونے کے لیے ان کو توبہ کی توفیق عطا فرمائی یہاں تک کہ توبہ کے الفاظ بھی تلقین فرمائے اور ہدایت سے نوازا۔
اس واقعہ میں انسان کے لیے یہ سبق موجود ہے کہ اگر اس سے کوئی گناہ سرزد ہو جاتا ہے اور وہ اس پر نادم ہو کر اپنے رب کے حضور توبہ کرتا ہے تو وہ اس کو معاف کر دیتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو اٹھاتا ہے۔
اس آیت سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ حضرت آدم نبی تھے کیونکہ ان کی توبہ قبول کرنے کے بعد ان کو ہدایت دینے کا ذکر ہوا ہے۔ اس ہدایت سے مراد ایمان (عقیدہ) و عمل کی راہ ہے جس پر چل کر اللہ کی خوشنودی اور اس کے نتیجہ میں ابدی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس طرح پہلا انسان جو زمین پر آیا ہدایت یافتہ انسان تھا اور چونکہ یہ ہدایت اسے اللہ تعالیٰ سے براہ راست ملی تھی اس لیے وہ نبی تھا۔
۱۴۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی تشریح سورۂ اعراف نوٹ ۳۳ میں گزر چکی۔
۱۵۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بقرہ نوٹ ۵۶۔
۱۵۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں مصیبت میں نہ پڑنے سے مراد آخرت کے عذاب میں مبتلا نہ ہونا ہے۔ سورۂ بقرہ میں یہ بات اس طرح ارشاد ہوئی ہے۔ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیہِمْ وَلاَہُمْ یَحْزَنُونَ " ان کے لیے نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ "
۱۵۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "مَعِیْشۃً ضَنْکاً " (تنگ زندگی) سے مراد قلب و روح کی وہ تنگی ہے جو گھٹن کا باعث بنتی ہے۔ مال و دولت اور سامانِ عیش کی کتنی ہی فراوانی کیوں نہ ہو اللہ کی یاد اور اس کی تذکیر (ارشاد و ہدایت) سے منہ موڑنے کے نتیجہ میں نہ کبھی قلب کو طمانیت حاصل ہوتی ہے اور نہ روح کو سکون میسر آتا ہے۔ ایسا شخص ہمیشہ ایک نفسیاتی مرض میں مبتلا رہتا ہے اور وہ ہے پریشانی اور بے چینی۔
آج جبکہ دنیا اس کے پرستاروں پر بہت وسیع ہو گئی ہے اکثر لوگوں کا حال یہی ہے کہ بہت کچھ کمانے کھانے کے باوجود انہیں سکونِ قلب میسر نہیں ہے۔ اضطراب کی کیفیت ان کے چہروں سے ظاہر ہو رہی ہے اور کتنے ہیں جو زندگی سے تنگ آ کر موت کو دعوت دیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کو خوشی و انبساط اور سکون و طمانیت کی زندگی اسی صورت میں میسر آتی ہے جبکہ وہ اپنے رب سے بندگی کا تعلق قائم کر کے اسے یاد کرتا ہے اور اس کی یاد دہانی (قرآن) سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
۱۵۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ بنی اسرائیل نوٹ ۱۰۲۔
۱۵۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تجھے بالکل نظر انداز کیا جا رہا ہے تیری طرف نظر عنایت نہیں کی جائے گی۔
۱۵۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جس نے حد بندگی سے تجاوز کیا تھا اور جو اپنے کو خود مختار سمجھ کر من مانی کرتا رہا۔
۱۵۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد ثمود اور مدین وغیرہ کی تباہ شدہ بستیاں ہیں جو شاہراہ عام پر واقع تھیں اور جن پر سے عربوں کا گزر ہوتا تھا۔ (مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ حجر نوٹ ۷۸۔
۱۵۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نشانیاں اس بات کی کہ یہ دنیا اندھیر نگری نہیں ہے بلکہ ایک مدبر ہستی عدل و انصاف کے ساتھ اس پر حکومت کر رہی ہے اور اس کی قوت قاہرہ کے آگے سب بے بس ہیں۔ وہ انسانوں کی ہدایت کے لیے رسول بھیجتا ہے اور ان کی دعوت برحق ہے جو قوم رسول کی مخالفت کرتی ہے اس پر اس دنیا میں بھی عذاب کا کوڑا برستا ہے۔
۱۵۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد مہلت عمل ہے۔
۱۵۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مہلت کی مدت۔
۱۶۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کے الٹے سیدھے اعتراضات کو خاطر میں نہ لاؤ اور ان کی اذیت دہ باتوں پر صبر و تحمل سے کام لو۔
۱۶۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تسبیح کرو یعنی پاکی بیان کرو اور بِحَمْدِرَبِّکَ یعنی اپنے رب کی حمد کے ساتھ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی پاکی اس کے گن گاتے ہوئے بیان کرو۔ اس ایمانی کیفیت کے ساتھ کہ اللہ ہر قسم کے نقص اور عیب سے پاک ہے اور اس کے لیے خوبیاں ہی خوبیاں ہیں تسبیح اور حمد کے کلمات زبان سے ادا کرو کہ یہ ذکر خالص عبادت ہے۔
تسبیح کے کلمات کی مثال ہے سَبْحَانَ اللّٰہ (اللہ کے لیے پاکی ہے) اور لاَ اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہ (اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں) اور حمد کے کلمات کے مثال ہے الحمدُ لِلّٰہ (تعریف اللہ کے لیے ہے) اور اللّٰہُ اَکبر (اللہ سب سے بڑا ہے) اور جن کلمات میں دونوں پہلو سموئے ہوئے ہیں ان کی مثالیں یہ ہیں : سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیم (پاک ہے میرا رب جو بلند شان والا ہے) سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ (میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں اس کی حمد کے ساتھ)
صحیح بخاری میں آخری حدیث جو امام بخاری نے نقل کی ہے وہ یہ ہے : عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قالَ قالَ النبیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کلمتانِ حَبیبتانِ اِلٰی الرَّحْمٰنِ خفِیفَتانِ عَلَی الِّسَانِ ثَقِیْلَتَانِ فی الْمِیزَانِ سُبْحانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔ (بخاری کتاب التوحید) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: دو کلمے ایسے ہیں جو رحمن کو نہایت ہی محبوب ہیں ، زبان پر ہلکے مگر میزان میں بھاری ہیں۔ وہ ہیں سبحان اللہ و بحمدہٖ (اللہ کی میں پاکی بیان کرتا ہوں اس کی حمد کے ساتھ) سبحان اللہ العظیم (اللہ کے لیے پاکی ہے جو عظمت والا ہے) ۔ "
اس سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ ایک مخلص مؤمن کی زبان سے ان کلمات کا شعوری طور پر ادا ہونا اللہ کے نزدیک نہایت پسندیدہ عمل ہے روزانہ ان کو بار بار دہرانا عین مطلوب ہے۔
یہاں اس بات کی طرف اشارہ کرنا بھی بے محل نہ ہو گا کہ ذکر الٰہی کے معاملہ مسلمانوں کے مختلف گروہوں کا اندازِ فکر اور طرز عمل مختلف ہے۔ ایک گروہ اللہ کے معاملہ میں صحیح دینی شعور پیدا کئے بغیر ورد پر زور دیتا ہے۔ اس کے نزدیک کیفیت سے زیادہ کمِیّت (مقدار) کی اہمیت ہے۔ دوسرے گروہ نے ذکر الٰہی کے لیے خاص ہیئتوں کا اہتمام کرنے اور ضربیں لگانے کا طریقہ اختیار کر رکھا ہے اور تیسرا گروہ جس کا انداز فکر جدید ہے ذکر الٰہی کی اہمیت کے معاملہ میں کوتاہ نظر واقع ہوا ہے اس لیے وہ اس کا کچھ زیادہ اہتمام نہیں کرتا۔ اس افراط و تفریط کے مقابلہ میں وہی طریقہ صحیح ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اختیار کیا تھا اور قرآن کے منشا کو آپ سے بہترین کون سمجھ سکتا ہے؟
۱۶۲ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس تسبیح کے لیے دو واقعات کا خصوصیت کے ساتھ ذکر فرمایا اور وہ ہیں آفتاب کے طلوع اور غروب سے پہلے کے اوقات یعنی فجر اور عصر کے اوقات کہ عبادت کے لیے یہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ پھر رات کے کچھ اوقات اور دن کے حصوں میں بھی تسبیح کرنے کی ہدایت فرمائی۔ دن کا ایک حصہ تو وہ ہوتا ہے جب سورج کچھ اوپر چڑھ گیا ہوتا ہے اسے ضحی اور اشراق کہتے ہیں۔ دوسرا حصہ ظہر کا ہوتا ہے اور تیسرا عصر کا۔
تسبیح کی یہ ہدایت پنج وقتہ نماز کی فرضیت سے پہلے دی گئی تھی۔ پنج وقتہ نماز کا حکم سورۂ بنی اسرائیل آیت ۷۸ میں دیا گیا جو سورۂ طٰہٰ کے چند سال بعد نازل ہوئی۔ تسبیح کا یہ حکم اسی طرح عام ہے جس طرح انفاق کا عام حکم مکہ میں دیا گیا تھا اور جب زکوٰۃ فرض ہوئی تو انفاق کا عام حکم منسوخ نہیں ہوا بلکہ اس کی دو قسمیں قرار پائیں۔ ایک فرض انفاق جس کے لیے زکوٰۃ کی اصطلاح استعمال ہوئی اور دسرا نفل انفاق جس کی ترغیب بر قرار رہی۔ اسی طرح تسبیح کا جو حکم آغاز میں دیا گیا تھا اس کی تعمیل دو طرح سے مطلوب ہوئی۔ ایک پنج وقتہ نمازوں کی صورت میں اور دوسرے نفل نمازوں اور نفل اذکار کی صورت میں چنانچہ حدیث میں بھی نماز کے بعد اذکار کی ترغیب دی گئی ہے۔
۱۶۳ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس عبادت کا ثمرہ یہ ہے کہ تم خوش اور شاد کام ہو جاؤ گے۔
معلوم ہوا کہ جس شخص کا دل اللہ کی تسبیح اور حمد و ثنا میں لگتا ہے اس کو قلبی مسرت حاصل ہوتی ہے اور آخرت میں تو وہ نہال ہو جائے گا۔
۱۶۴ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دنیا پرستوں کی شان و شوکت اور مال و دولت کو حریص نگاہوں سے نہ دیکھو کہ یہ ان کے لیے آزمائش کا سامان ہے۔ اس کے مقابلہ میں وہ رزق کہیں بہتر اور پائیدار ہے جس کا وعدہ اللہ نے تم سے کیا ہے اور وہ ہے جنت کا رزق۔
۱۶۵ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ خود بھی نماز کی پابندی کرے اور اپنے گھر والوں کو بھی اس کی تاکید کرے اور صحیح طریقہ یہی ہے کہ اپنے گھر سے اصلاح کا آغاز کرے۔ نماز کے معاملہ میں اپنے بیوی بچوں کی طرف سے غفلت کسی فرض شناس شخص کا کام نہیں ہو سکتا۔
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز کا حکم پنج وقتہ نماز کی فرضیت سے بہت پہلے آ گیا تھا۔
۱۶۶ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی بات سورۂ زمر میں اس طرح بیان ہوئی ہے : مَا اُرِیدُمِنْہُمْ مِنْ رِّزْقٍ وَمَا اُرِیدُ اَن یطْعِمُوْن (ذاریات ۵۷) " میں نہ ان سے رزق چاہتا ہوں اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔ "
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور نماز کا جو حکم دیا ہے وہ اس لیے نہیں ہے کہ اس کا کوئی فائدہ اسے پہنچے گا بلکہ یہ مطالبہ اس لیے ہے کہ بندوں میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو۔
۱۶۷ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی نماز سے تقویٰ کی صفت پیدا ہوتی ہے اور آخرت کی کامیابی ان ہی کے لیے ہے جو اپنے اندر یہ صفت پیدا کریں۔
واضح رہے کہ تقویٰ کا مفہوم برائیوں سے بچنا ہی نہیں بلکہ احکام کی تعمیل بھی ہے یعنی منفی اور مثبت دونوں پہلو اس میں شامل ہیں چنانچہ علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں :
" " کون کہتا ہے کہ تقویٰ محض برائیوں کو ترک کرنے کا نام ہے تقویٰ تو ___جیسا کہ اگلے پچھلے اس کی تفسیر کرتے چلے آئیں ___اوامر (احکام) کی تعمیل بھی ہے اور نواہی (ممنوعات) کو ترک کرنا بھی۔ " (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ج ۲۰ ص ۱۳۲)
۱۶۸ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین مکہ کا کہنا تھا کہ یہ شخص اگر واقعی رسول ہے تو کوئی حسی معجزہ کیوں نہیں دکھاتا۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ کیا جو کچھ اگلے صحیفوں میں مذکور ہے اس کی شہادت ان تک نہیں پہنچتی، مطلب یہ ہے کہ تورات اور انجیل میں جو پیشین گوئیاں آنے والے رسول کے سلسلہ میں مذکور ہیں ٹھیک ٹھیک ان کے مطابق اس رسول کی بعثت ہوئی ہے اور یہ شہادت اس کے رسول ہونے کی واضح دلیل ہے۔ اس دلیل کے بعد حسی معجزہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
واضح رہے کہ نزولِ قرآن کے وقت تورات و انجیل کے جو نسخے موجود تھے ان میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں واضح طور پر متعدد پیشین گوئیاں موجود تھیں لیکن بعد میں یہود و نصاریٰ نے کتنی ہی عبارتیں ان کتابوں میں سے غائب کر دیں تاکہ قرآن کی حجت کے مقابلہ میں ان کے موقف کی کمزوری ظاہر نہ ہو جائے اور کچھ عبارتوں کا ترجمہ ایسا کیا گیا کہ کسی کے پلے کچھ نہ پڑے۔ تاہم تورات و انجیل کے موجودہ ترجموں میں کچھ پیشین گوئیاں موجود ہیں جن کا حوالہ ہم اس سے پہلے دیتے آئے ہیں۔
مثال کے طور پر تورات میں یہ پیشین گوئی موجود ہے : " میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری (موسیٰ کی) مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا۔ " (استثناء ۱۸:۱۸)
اس پیشین گوئی میں ایک بات تو یہ کہی گئی ہے کہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے نبی برپا کروں گا۔ بنی اسرائیل کے بھائی بنی اسمعٰیل ہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم بنی اسمٰعیل ہی میں سے تھے اور آپ کے علاوہ کوئی رسول نبی اسمٰعیل میں نہیں ہوا۔ دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ وہ شانِ نبوت میں موسیٰ کی مانند ہو گا اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم اسی شان کے نبی تھے چنانچہ قرآن کہتا ہے : " ہم نے اسی طرح رسول کو تم پر شاہد بنا کر بھیجا ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا۔ " (مزمل ۱۵) اور تیسری بات یہ کہ " میں اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ بھی اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا۔ "
یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا امتیازی وصف تھا چنانچہ اللہ کا کلام آپ کی زبان سے ادا ہوا اور قرآن آپ کا معجزہ قرار پایا۔ گویا یہ معجزہ ٹھیک اس پیشین گوئی کے مطابق ہے جو تورات میں بیان ہوا ہے اور یہ دلیل ہے آپ کے رسولِ برحق ہونے کی۔
واضح رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے اہل کتاب ان پیشین گوئیوں کی بنا پر آنے والے رسول کے منتظر تھے اور اس کا چرچا کرتے تھے (دیکھئے سورۂ بقرہ آیت ۸۹ اس لیے عرب اس سے ناواقف نہیں ہو سکتے تھے۔
۱۶۹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ذلیل اپنی نگاہوں میں اور رسوا لوگوں کی نگاہوں میں۔
۱۷۰ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہر شخص اس انتظار میں ہے کہ رسول کی دعوت کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
۱۷۱ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی عنقریب تم دیکھ لو گے کہ نبی کی دعوت خیر اور فلاح کا باعث تھی یا نہیں اور اللہ کی نصرت نبی کے ساتھ رہی یا تمہارے ساتھ؟ اور قیامت کے دن تو دو اور دو چار کی طرح تم پر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ رسول اور اس کے پیرو ہی راہ راست پر تھے اور وہی کامیابی کی منزل پر پہنچ گئے۔