سورہ کا آغاز حرف "ص" سے ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام "ص" (صاد) ہے۔
مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ نبوت کے آٹھ دس سال بعد نازل ہوئی ہو گی۔
تذکیر ہے اس پہلو سے کہ اللہ کی طرف رجوع اور انابت کی کیفیت پیدا ہو جائے چنانچہ اس میں انبیاء علیہم السلام کی سیرتوں کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے۔
آیت ۱ تا ۱۱ تمہیدی آیات ہیں جن میں قرآن کے کتاب تذکیر ہونے کے پہلو کو نمایاں کرتے ہوئے خبردار کیا گیا ہے کہ جو لوگ اس تذکیر کا اثر قبول نہیں کریں گے وہ اپنے کو برے انجام تک پہنچائیں گے۔
آیت ۱۲ تا ۱۶ میں مختصراً ان قوموں کے انجام سے با خبر کیا گیا ہے جنہوں نے رسولوں کو جھٹلایا تھا۔
آیت ۱۷تا ۴۸ میں انبیاء علیہم السلام کی سیرتوں کے وہ پہلو پیش کیے گئے ہیں جو رجوع و انابت کی بہترین مثال ہیں۔
آیت ۴۹ تا ۶۴ میں اللہ سے ڈرنے والوں اور اس سے سرکشی کرنے سلوں کا الگ الگ اخروی انجام بیان ہوا ہے۔
آیت ۶۵ تا ۸۵ میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نذیر (خبردار کرنے ولا)ہونے کی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے منکرین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ یاد رکھیں ان کے تکبر کا بھی وہی نتیجہ نکلے گا جا ابلیس کے تکبر کا نکلا۔
آیت ۸۶ تا ۸۸ سورہ کی اختتامی آیات ہیں جن میں پیغمبر کی مخلصانہ شخصیت ، قرآن کی نصیحت بھری تعلیم اور اس کی دی ہوئی خبر کے لازماً وقوع میں آنے کی طرف اشارات کئے گئے ہیں۔
۱۔۔۔۔۔۔ صاد ۱* یاد دہانی سے بھرے قرآن کی قسم ۲* (یہ اللہ کا نازل کیا ہوا ہے)۔
۲۔۔۔۔۔۔ مگر انکار کرنے والے تکبر اور ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں۔ ۳*
۳۔۔۔۔۔۔ ان سے پہلے ہم کتنی ہی قوموں کو ہلاک رک چکے ہیں۔ وہ اس وقت چیخ اٹھے جب بچنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہی تھی۴*
۴۔۔۔۔۔۔ ان لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ان کے پاس ان ہی میں سے ایک خبردار کرنے والا آگیا۔ اور کافروں نے کہا یہ جادو گر ہے جھوٹا۔
۵۔۔۔۔۔۔ کیا اس نے تمام معبودوں کی جگہ ایک معبود بنا ڈالا؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے ۵*
۶۔۔۔۔۔۔ ان کے سردار نکل کھڑے ہوئے کہ چلو اور اپنے معبودوں پر جمے رہو۔ اس بات سے (جو یہ شخص کہہ رہا ہے) مطلوب کچھ اور ہی ہے ۶*
۷۔۔۔۔۔۔ یہ بات ہم نے گزرے ہوئے مذہب والوں میں نہیں سنی ۷*۔ یہ محض ایک من گھڑت بات ہے۔
۸۔۔۔۔۔۔ کیا ہمارے درمیان اسی شخص پر یاد دہانی نازل کی گئی! ۸* اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ میری یاد دہانی کے برے میں شک میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے ابھی میرے عذاب کا مزا نہیں چکھا ۹*۔
۹۔۔۔۔۔۔ کیا تمہارے غلام اور فیاض رب کی رحمت کے خزانے انکے پاس ہیں ؟ ۱۰*
۱۰۔۔۔۔۔۔ یا یہ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی موجودات پر اقتدار رکھتے ہیں ؟ ایسا ہے تو وہ آسمانوں میں چڑھ جائیں ۱۱*۔
۱۱۔۔۔۔۔۔ یہ (کافر)گروہوں میں سے ایک لشکر ہے جو اسی جگہ شکست کھائے گا۱۲*۔
۱۲۔۔۔۔۔۔ ان سے پہلے قوم نوح اور عاد اور لشکروں والے فرعون نے جھٹلایا تھا۔
۱۳۔۔۔۔۔۔ اور ثمود اور قوم لوط اور "ایکہ" والوں نے بھی ۱۳* یہ وہ گروہ تھے۔
۱۴۔۔۔۔۔۔ جن میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا تو میرا عذاب ان پر واقع ہو گیا۔
۱۵۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ ایک ہولناک آواز کے منتظر ہیں جس کے بعد ذرا بھی وقفہ ہو گا۱۴*
۱۶۔۔۔۔۔۔ اور یہ لوگ کہتے ہیں اے ہمارے رب! روز حساب سے پہلے ہی ہمارا حصہ ہمیں جلد ہمیں جلد دیدے ۱۵*۔
۱۷۔۔۔۔۔۔ اے نبی! ان کی باتوں پر صبر کرو اور ہمارے بندے داؤد کا حال بیان کرو جو قوت والا تھا ۱۶*۔ وہ اللہ کی طرف بڑا ہی رجوع کرنے والا تھا ۱۷*۔
۱۸۔۔۔۔۔۔ ہم نے پہاڑوں کو مسخر کر دیا تھا کہ اس کے ساتھ وہ شام کو اور صبح کو تسبیح کرتے۔ ۱۸*
۱۹۔۔۔۔۔۔ اور پرندے بھی جمع ہو کر۱۹*۔ سب اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے ۲۰*۔
۲۰۔۔۔۔۔۔ ہم نے اس کی سلطنت مضبوط کر دی تھی ۲۱*۔ اور اس کو حکمت ۲۲* اور قول فیصل عطا کیا تھا۲۳*
۲۱۔۔۔۔۔۔ کیا تمہیں مقدمہ والوں [L:۸] کی خبر پہنچی ہے ؟ جو دیوار پر چڑھ کر خلوت گاہ میں گھس آئے تھے ۲۴*۔
۲۲۔۔۔۔۔۔ جب وہ داؤد کے پاس پہنچے تو وہ انہیں دیکھ کر گھبرا گیا ۲۵*۔ انہوں نے کہا ڈرو نہیں ہم دو فریق مقدمہ ہیں۔ ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے۔ آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر دیجئے اور نا انصافی نہ کیجئے اور ہمیں سیدھی راہ دکھائیے ۲۶*۔
۲۳۔۔۔۔۔۔ یہ میرا بھائی ہے۔ اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبی ہے۔ اس نے کہا یہ بھی میرے حوالے کر دے اور بحث میں اس نے مجھے دبا لیا ۲۷*
۲۴۔۔۔۔۔۔ داؤد نے کہ اس نے تمہاری دنبی کو اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کا مطالبہ کر کے یقیناً تم پر ظلم کیا ۲۸* اور اکثر شرکا ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں ۲۹*۔ بس وہی لوگ اس سے بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے اور نیک عمل کرتے ہیں ۳۰*۔
اور ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں ۳۱* اور داؤد سمجھ گیا کہ ہم نے اس کی آزمائش کی ہے اور (یہ خیال آتے ہی) اس نے اپنے رب سے استغفار کیا اور اس کے آگے جھک پڑا اور رجوع کیا ۳۲*۔
۲۵۔۔۔۔۔۔ تو ہم نے اس کا قصور معاف کر دیا ۳۳*۔ اور یقیناً اس کے لیے ہمارے پاس تقریب کا مقام اور بہترین ٹھکانا ہے۔
۲۶۔۔۔۔۔۔ اے داؤد ! ہم نے تمہیں زمین پر خلیفہ بنایا ہے ۳۴* لہٰذا لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہش نفس کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دے ۳۵*۔ جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں ان کے لیے سخت سزا ہے۔ اس وجہ سے کہ انہوں نے روز حساب کو بھلا دیا۳۶*۔
۲۷۔۔۔۔۔۔ ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی موجودات کو بے مقصد نہیں پیدا کیا ہے ۳۷*۔ یہ ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کیا ۳۸*۔ تو ایسے کاروں کے لیے آگ کی تباہی ہے۔
۲۸۔۔۔۔۔۔ کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک کام کیے ان لوگوں کی طرح کر دیں گے جو زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ کیا ہم متقیوں کو فاجروں جیسا کر دیں گے ؟۳۹*۔
۲۹۔۔۔۔۔۔ یہ بڑی مبارک کتاب ہے جو ہم نے (اے پیغمبر !) تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ وہ اس کی آیتوں میں تدبر (غور) کریں ۴۰* اور عقل رکھنے والے اس سے یاد دہانی حاصل کریں ۴۱*۔
۳۰۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے داؤد کو سلیمان عطاء کیا ۴۲* ، بہترین بندہ ۴۳*، (اللہ کی طرف) بہت رجوع کرنے والا تھا ۴۴*۔
۳۱۔۔۔۔۔۔ جب اس کے سامنے شام کے تربیت یافتہ ۴۵* تیز رو گھوڑے پیش کیے گئے ۴۶*
۳۲۔۔۔۔۔۔ تو اس نے کہا مجھے اس مال سے محبت اللہ کی یاد کی وجہ سے ہے ۴۷*۔ یہاں تک کہ وہ اوٹ میں چھپ گئے ۴۸*۔
۳۳۔۔۔۔۔۔ (اس نے حکم دیا) انہیں میرے پاس واپس لاؤ ۴۹*۔ پھر وہ ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ ۵۰*
۳۴۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے سلیمان کی آزمائش کی اور اس کی کرسی پر ایک دھڑ ڈال دیا۔ پھر اس نے رجوع کیا ۵۱*۔
۳۵۔۔۔۔۔۔ اس نے دعا کی میرے رب ! مجھے معاف فرما دے اور مجھے ایسی سلطنت عطا کر جو میرے بعد کسی کے لیے سزا وار نہ ہو ۵۲*۔ بے شک تو بڑا بخشنے والا ہے۔
۳۶۔۔۔۔۔۔ تو ہم نے ہوا کو اس کے تابع کر دیا جو اس کے حکم سے نرمی کے ساتھ چلتی جدھر کا وہ قصد کرتا۵۳*۔
۳۷۔۔۔۔۔۔ اور شیاطین کو اس کے تابع کر دیا ۵۴*۔ ہر قسم کے معمار ۵۵* اور غوطہ خور ۵۶*۔
۳۸۔۔۔۔۔۔ اور دوسرے جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے ۵۷*۔
۳۹۔۔۔۔۔۔ یہ ہماری بخشش ہے بے حساب ۵۸*۔ تو احسان کرو یا روک لو۵۹*۔
۴۰۔۔۔۔۔۔ اور اس کے لیے ہمارے پاس تقرب کا مقام اور بہترین ٹھکانا ہے ۶۰*
۴۱۔۔۔۔۔۔ اور ہمارے بندے ایوب۶۱* کو یاد کرو۔ جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ شیطان نے مجھے سخت دکھ اور تکلیف میں مبتلا کیا ہے ۶۲*۔
۴۲۔۔۔۔۔۔ (ہم نے اس سے کہا) اپنا پاؤں زمین پر مارو۔ یہ ٹھنڈا پانی ہے نہانے کے لیے بھی اور پینے کے لیے بھی ۶۳*۔
۴۳۔۔۔۔۔۔ ہم نے اس کو اس کے اہل و عیال عطا کیے اور ان کے ساتھ اتنے اور بھی ۶۴*۔ اپنی رحمت کے طور پر ۶۵* اور دانشمندوں کے لیے یاد دہانی کے طور پر ۶۶*۔
۴۴۔۔۔۔۔۔ اور (ہم نے اس کو ہدایت کی کہ) تنکوں کا ایک مٹھا (گچھا) اپنے ہاتھ میں لے لو اور اس سے مارو اور اپنی قسم نہ توڑو۶۷*۔ ہم نے اسے صابر پایا۔ بڑا اچھا بندہ۔ اپنے رب کی طرف بڑا ہی رجوع کرنے والا تھا۔
۴۵۔۔۔۔۔۔ اور ہمارے بندوں ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کو یاد کرو جو قوت عمل۶۸* اور بینائی رکھنے والے تھے ۶۹*۔
۴۶۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان کو خالص کر لیا تھا اس گھر کی یاد دہانی کے لیے ۷۰*۔
۴۷۔۔۔۔۔۔ یقیناً وہ ہمارے ہاں چنے ہوئے نیک بندوں میں سے ہیں۔
۴۸۔۔۔۔۔۔ اور اسمٰعیل، اَلیَسعَ ،۷۱* اور ذولکفل ۷۲* کو یاد کرو۔ یہ سب نیک بندوں میں سے تھے۔
۴۹۔۔۔۔۔۔ یہ یاد دہانی ہے ۷۳*۔ اور یقیناً متقیوں کے لیے بہترین ٹھکانا ہے۔
۵۰۔۔۔۔۔۔ ہمیشگی کی جنتیں جن کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوں گے ۷۴*۔
۵۱۔۔۔۔۔۔ ان میں وہ تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ بہت سے میوے اور مشروبات طلب کر رہے ہوں گے۔
۵۲۔۔۔۔۔۔ اور ان کے پاس نیچی نگاہوں والی۷۵* ہم سن۷۶* عورتیں ہوں گی۔
۵۳۔۔۔۔۔۔ یہ ہے وہ چیز جس کا تم سے حساب کے دن کے لیے وعدہ کیا جا رہا تھا۔
۵۴۔۔۔۔۔۔ یہ ہمارا رزق ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ۷۷*۔
۵۵۔۔۔۔۔۔ یہ ہے (متقیوں کا انجام) اور سرکشوں کے لیے بہت برا ٹھکانا ہے ۷۸*۔
۵۶۔۔۔۔۔۔ جہنم جس میں وہ داخل ہوں گے تو کیا ہی بری جگہ ہے وہ !
۵۷۔۔۔۔۔۔ یہ ہے ان کے لیے۔ تو وہ اس کا مزا چکھیں یعنی کھولتے ہوئے پانی اور پیپ کا۔
۵۸۔۔۔۔۔۔ اور اسی قسم کی دوسری چیزوں کا ۷۹*۔
۵۹۔۔۔۔۔۔ یہ لشکر ہے جو تمہارے ساتھ (جہنم میں) گرنے والا ہے۔ ان لوگوں کے لیے خوش آمدید نہیں۔ یہ آگ میں داخل ہونے والے ہیں ۸۰*۔
۶۰۔۔۔۔۔۔ وہ جواب دیں گے بلکہ تمہارے لیے خوش آمدید نہیں۔ تم ہی نے ہمیں اس انجام کو پہنچایا۸۱*۔ تو بہت برا ہے یہ ٹھکانا۔
۶۱۔۔۔۔۔۔ وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! جن لوگوں نے ہمیں اس انجام کو پہنچایا ان کو دوزخ میں دوہرا عذاب دے ۸۲*۔
۶۲۔۔۔۔۔۔ اور وہ کہیں گے کیا بات ہے ہم ان لوگوں کو (یہاں) نہیں دیکھ رہے ہیں جنہیں ہم اشرار میں شمار کرتے تھے ۸۳*۔
۶۳۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان کو مذاق بنا لیا تھا یا نگاہیں ان سے چوک رہی ہیں ۸۴*۔
۶۴۔۔۔۔۔۔ بے شک دوزخیوں کی یہ باہمی تکرار ایک امر واقعہ ہے ۸۵*۔
۶۵۔۔۔۔۔۔ کہو میں تو خبر دار کر دینے والا ہوں۔ اور اللہ واحد و قہار۸۶* کے سوا کوئی معبود نہیں۔
۶۶۔۔۔۔۔۔ آسمانوں ور زمین اور ان کے درمیان کی ساری موجو دات کا مال۔ غالب اور بخشنے والا۸۷*۔
۶۷۔۔۔۔۔۔ کہو یہ بہت بڑی خبر ہے ۸۸*۔
۶۸۔۔۔۔۔۔ جس سے تم بے توجہی برت رہے ہو ۸۹*۔
۶۹۔۔۔۔۔۔ مجھے ملاء اعلیٰ (عالم بالا والوں) کی کوئی خبر نہ تھی جب وہ جھگڑ رہے تھے۔ ۹۰*
۷۰۔۔۔۔۔۔ میری طرف وحی صرف اس لیے کی جاتی ہے کہ میں کھلا خبر دار کرنے والا ہوں ۹۱*۔
۷۱۔۔۔۔۔۔ جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا میں مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں ۹۲*۔
۷۲۔۔۔۔۔۔ تو جب میں اس کو ٹھیک ٹھیک بنا لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں ۹۳*تو تم اس کے آگے سجدہ میں گر جانا۔
۷۳۔۔۔۔۔۔ چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا ۹۴*۔
۷۴۔۔۔۔۔۔ سوائے ابلیس۹۵* کے۔ اس نے گھمنڈ کیا اور کافروں میں سے ہو گیا۔ ۹۶*۔
۷۵۔۔۔۔۔۔ فرمایا اے ابلیس ! تجھے کس چیز نے اس کو سجدہ کرنے سے روکا جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں ۹۷* سے پیدا کیا ہے ؟ تو نے گھمنڈ کیا یا تو سرکش ہو گیا ہے۔
۷۶۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اس کو مٹی سے ۹۸*۔
۷۷۔۔۔۔۔۔ فرمایا یہاں سے نکل جا۹۹*۔ تو مردود ہے۔
۷۸۔۔۔۔۔۔ اور تجھ پر میری لعنت ہے روز جزا تک ۱۰۰*۔
۷۹۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا اے میرے رب! مجھے اس دن تک کے لیے مہلت دے جب لوگ اٹھائے جائیں گے۔
۸۰۔۔۔۔۔۔ فرمایا تجھے مہلت دی گئی ۱۰۱*
۸۱۔۔۔۔۔۔ اس دن تک کے لیے جس کا وقت مقرر ہے ۱۰۲*۔
۸۲۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا تیری عزت کی قسم ۱۰۳*۔ میں ان سب کو بہکا کر رہوں گا ۱۰۴*۔
۸۳۔۔۔۔۔۔ بجز تیرے ان بندوں کے جن کو تو نے خالص کر لیا ہو ۱۰۵*۔
۸۴۔۔۔۔۔۔ فرمایا تو حق یہ ہے اور میں حق ہی کہتا ہوں ۱۰۶*۔
۸۵۔۔۔۔۔۔ کہ میں جہنم کو تجھ سے اور ان سب سے بھر دوں گا جوان میں سے تیری پیروی کریں گے ۱۰۷*۔
۸۶۔۔۔۔۔۔ کہو میں اس پر تم سے کوئی معاوضہ نہیں مانگتا ۱۰۸* اور نہ میں بناوٹ کرنے والوں میں سے ہوں ۱۰۹*۔
۸۷۔۔۔۔۔۔ یہ تو ایک یاد دہانی ہے تمام دنیا والوں کے لیے ۱۱۰*۔
۸۸۔۔۔۔۔۔ اور تھوڑی ہی مدت بعد تم اس کی (دی ہوئی) خبر معلوم ہو جائے گی ۱۱۱*۔
۱۔۔۔۔۔۔ یہ حروف مقطعات میں سے ہے تشریح کے لیے دیکھیے سورہ بقرہ نوٹ ۱ سور یونس نوٹ ۱ اور سورہ عنکبوت نوٹ ۱۔
اس سورہ میں "ص" کا اشارہ "صافات" (گھوڑے ) کی طرف ہے یہ لفظ آیت ۳۱ میں حضرت سلیمان کے گھوڑوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ جو ایک امتیازی لفظ (Significant word) ہے یہ حروف جن سورتوں کے آغاز میں آئے ہیں وہ ان سورتوں کے ساتھ نہ صرف گہری مناسبت رکھتے ہیں بلکہ صوتی لحاظ سے بھی ان سے ہم آہنگ ہیں جن کی وجہ سے کلام میں بڑی تاثیر پیدا ہو گئی ہے۔ یہ حروف اپنی اپنی جگہ اس طرح موزوں ہو رہے ہیں کہ اگر کوئی شخص ایک حف کو دوسرے حف سے بدلنا چاہے تو یہ موزونیت اور یہ صوتی تاثیر باقی نہیں رہے گی۔ مثال کے طور پر آیت "ص" وَلْقُرْآنِ ذِی اذِّکْرِ میں "ص" کی جگہ "ق" رکھا جائے اور سورہ "ق" کی پہلی آیت "ق" وَالْقُرْآنِ الْمَجِیْد میں "ص" کی جگہ "ص" رکھا جائے تو پڑھنے میں تکلیف بھی محسوس ہو گا اور موزونیت بھی نہیں رہے گی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن معجزانہ کلام ہے۔ جس کا ایک حرف بھی دوسرے حرف سے بدلہ نہیں جا سکتا۔ پھر یہ حروف متعلقہ آیتوں کے ساتھ اس طرح بڑے ہوئے ہیں کہ اگر کوئی شخص ان کو ساقط کر کے آیتوں کو پڑھنا چاہے مثلاً"ص" وَالْقرْآنِ ذِی الذِّکْرِ کی جگہ "وَالقرآن ذِکر" سے سورہ کا آغاز کرنا چاہے تو اسے بڑا خلا محسوس ہو گا۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حروف مقطعات قرآن میں یونہی نہیں آئے ہیں بلکہ وہ قرآن کی معجزانہ شان کو ظاہر کرتے ہیں۔
۲۔۔۔۔۔۔ قرآن کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ یاد دہانی سے لبریز ہے۔ یاد دہانی اس بات کی کہ اللہ ہی انسان کا رب ہے ، اس بات کی بھی کہ جزائے عمل ایک حقیقت ہے ، اس بات کی بھی کہ رسولوں کو جھٹلانے والے برے انجام سے دوچار ہوئے ، اس بات کی بھی کہ تمام آسمانی کتابوں کی تعلیم خدائے واحد کی بندگی اور صالح و تقویٰ کی تعلیم تھی نیز اس سبق کی بھی جو اول روز حضرت آدم کو پڑھایا گیا تھا کہ شیطان انسان کا دشمن ہے اس کی پر فریب باتوں میں نہ آنا۔
قرآن کی یہ تذکیر حق و صداقت پر مبنی ہے اور اپنے اندر کمال درجہ کی تاثیر رکھتی ہے اور اس کی یہ امتیازی شان اسے کے کلام الٰہی ہونے ی دلیل ہے۔
۳۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ نے یہ تذکیر سے لبریز کتاب اس لیے نازل فرمائی تاکہ لوگ یاد دہانی حاصل کریں مگر یہ منکرین اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کر رہے ہیں اور سبق حاصل نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ گھمنڈ اور ہٹ دھرمی میں مبتلا ہیں ایک طرف نفس کا غرور انہیں قبول حق سے روکے ہوئے ہے اور دوسری طرف تعصب۔ اور یہی حال موجودہ دور کے منکرین قرآن کا بھی ہے۔ وہ قرآن کی تعلیم سے واقف ہونے کے باوجود اس لیے ٹس سے مس نہیں ہوتے کہ اس کی تعلیم کو قبول کرنے میں وہ اپنی کسر شان سمجھتے ہیں اور مذہبی تعصب بھی ایک ایسے دین کو قبول کرنے میں مانع ہوتا ہے جوان کے اپنے فرقہ کا دین نہیں ہے۔
۴۔۔۔۔۔۔ یعنی ان ہلاک شدہ قوموں کا حال یہ رہا کہ پہلے تو انہوں نے نصیحت کو سنی ان سنی کر دیا لیکن جب عذاب نمودار ہوا تو لگے فریاد کرنے۔ مگر مہلت ختم ہو جانے کے بعد وہ عذاب کہاں بچ سکتے تھے۔
۵۔۔۔۔۔۔ یعنی تمام معبودوں کو باطل اور صرف ایک اللہ کو معبود حقیقی قرار دیا۔ مشرکین کو اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ خدا یک کیسے ہو سکتا ہے خدا تو بہت ہونے چاہئیں کم از کم تین اور زیادہ سے زیادہ ہزاروں حالانکہ عقل میں نہ آنے والی بات متعدد خداؤں کا تصور ہی ہے۔
۶۔۔۔۔۔۔ یہ تصویر ہے پیغمبر کے پاس سے سرداروں کے نکل کھڑے ہونے کی اپنے ساتھیوں سے یہ کہتے ہوئے کہ وہ آپ کے پاس سے ہٹ جائیں اور اپنے معبودوں پر جمے رہیں کیونکہ بظاہر تو یہ شخص اللہ کو واحد معبود ماننے کی دعوت دے رہا ہے لیکن مقصد کچھ اور ہی ہے یعنی اپنی قیادت کا سکہ جمانا۔
۷۔۔۔۔۔۔ یعنی ہمارا جو مذہب گزرے ہوئے لوگوں سے چلا آ رہا ہے وہ یہی مشرکانہ مذہب ہے۔ اللہ کو معبود واحد قرار دینے کی بات تو ہم نے ان لوگوں سے نہیں کی۔
مشرکین کی یہ بات سراسر غلط تھی کیونکہ توحید کا واضح ثبوت خانہ کعبہ تھا جس کی تعمیر حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہم السلام نے کی تھی اور قریش ان ہی کی نسل سے تھے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے بھی توحید کو ماننے والے کچھ نہ کچھ لوگ موجود رہے ہیں۔
۸۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کو اگر کتاب نازل کرنا تھی تو اس نے ہمارے درمیان سے اسی شخص کا انتخاب کیوں کیا اور بڑے بڑے سرداروں کیوں چھوڑ دیا ؟
۹۔۔۔۔۔۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بیان ہے کہ ان لوگوں کو اصلاً اس بات کا یقین ہی نہیں ہو راہ ہے کہ اللہ کی طرف سے کوئی یاد دہانی (کتاب) نازل ہو سکتی ہے اور جب دلائل و شواہد کے باوجود یہ شک میں مبتلا ہیں تو انکا یہ شک اسی وقت رفع ہو گا جب وہ عذاب کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔
۱۰۔۔۔۔۔۔ یہ ان کے اس اعتراض کا جواب ہے کہ ہمارے درمیان سے اس شخص ہی کو رسالت کے لیے کیوں منتخب کیا گیا۔ فرمایا کیا اللہ کی رحمت کے خزانے ان کے پاس ہیں کہ اللہ ان کی مرضی کے مطابق منصب رسالت کے لیے کسی کا انتخاب کرے۔ اگر واقعہ یہ نہیں ہے اور اللہ کی رحمت کے خزانے اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں تو پھر وہ اپنی رحمت سے جس کو بھی نوازے کسی کو اعتراض کا کیا حق ہے ؟ وہ غالب ہے اس لئے اس کا ہر فیصلہ نافذ ہو کر رہتا ہے اور اس میں کسی کی مجال نہیں کہ مداخلت کر سکے اور وہ فیاض ہے اس لیے اپنے جس بندے کو چاہتا ہے اپنی بخششوں سے مالا مال کر دیتا ہے۔
۱۱۔۔۔۔۔۔ یعنی اگر آسمان و زمین کا اقتدار ان کو حاصل ہے تو یہ آسمان میں چڑھ کر جاتے کیوں نہیں ؟ اگر یہ باتیں ان کے بس میں نہیں ہیں اور ظاہر ہے کہ نہیں ہیں تو پھر اللہ کے اس فیصلہ کے مقابلہ میں جو اس نے منصب رسالت کے سلسلہ میں فرمایا ہے ان کے غرور اور گھمنڈ میں مبتلا ہونے کا کیا مطلب؟
۱۲۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ آج اللہ کے رسول کے مقابلہ میں مکبر بنے ہوئے ہیں لیکن عنقریب وہ وقت آئے گا جب حق و باطل کی جنگ کا میدان گرم ہو گا اس وقت ان منکرین کا لشکر بالکل بے وقعت ہو گا اور اسی مقام پر بری طرح شکست کھائے گا چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر ان کافروں کا لشکر بالکل نے وقعت تھا یہاں تک کہ یہ لوگ لشکر اسلام کا مقابلہ ہی نہیں کر سکے۔ اس طرح قرآن کی یہ پیشین گوئی پوری ہو کر رہی کہ رسول کے مقابلہ میں کافروں کا یہ لشکر بالآخر شکست کھاۓ گا ٹھیک اسی طرح جس طرح کافروں کے دوسرے گروہوں نے رسولوں کے مقابلہ میں شکست کھائی تھی۔
۱۳۔۔۔۔۔۔ مراد قوم شعیب ہے۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورہ حجر نوٹ ۷۷۔
۱۴۔۔۔۔۔۔ صیحۃ (ہولناک آواز) سے مراد قیامت کا دوسرا صور ہے یہ ہولناک آواز ایسی ہو گی کہ تمام مرے ہوئے لوگ فوراً اٹھ کھڑے ہوں گے تاکہ اپنے رب کے حضور اپنے اعمال کی جواب دہی کریں۔ اس ہولناک آواز کے بعد کوئی مہلت اور کوئی وقفہ اٹھ کھڑے ہونے کے نہیں مل سکے گا بلکہ اسی لمحہ حاضر ہونا پڑے گا۔
۱۵۔۔۔۔۔۔ روز حساب کی بات جب ان منکرین کے سامنے کی جاتی تو وہ غیر سنجیدہ ہو جاتے اور کہتے جو عذاب ہمارے حصہ میں آنے والا ہے وہ ہمیں دنیا ہی میں نقد مل جائے تو اچھا ہے۔ قیامت تک کون انتظار کرے گا۔
۱۶۔۔۔۔۔۔ یعنی حضرت داؤد کی شخصیت بڑی طاقتور تھی۔ جسمانی لحاظ سے بھی وہ نہایت قوی تھے چنانچہ جالوت جیسے قوی ہیکل کو انہوں نے تنہا ڈھیر کر دیا تھا (سورہ بقرہ آیت ۲۵۱) اور انہوں نے اس جنگ میں بہادری کے جو جوہر دکھانے اس کے نتیجہ میں ان کی شخصیت ابھری۔ پھر ان کے ہاتھ میں لوہا نرم کر دیا گیا تھا اور وہ اس سے زرہیں بناتے تھے۔ اسی طرح وہ سیاسی لحاظ سے بھی کافی طاقتور تھے کیونکہ ان کی سلطنت نہایت مستحکم تھی۔
۱۷۔۔۔۔۔۔ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا مطلب اس کے دھیان میں رہنا، ہر معاملہ میں اس کی طرف پلٹنا ، اپنے قصوروں پر اس کے حضور توبہ کرنا اور اس کی عبادت و اطاعت کی راہ اختیار کرنا ہے۔
حضرت داؤد کے ان اوصاف کا بیان کرنے سے مقصود یہاں یہ واضح کرنا ہے کہ ہلاک شدہ قوموں عاد، ثمود اور فرعون وغیرہ کو اللہ نے قوت والا بنایا تھا مگر انہوں نے اس وقت کے گھمنڈ میں اللہ سے سرکشی کی۔ بخلاف اس کے داؤد (علیہ السلام ) کی شخصیت ایسی ہے کہ نہایت طاقتور ہونے کے باوجود وہ اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ یہ لوگ اگر اس مثالی شخصیت کو سامنے رکھیں تو اپنی مادی طاقت پر اترائیں نہیں بلکہ اللہ کی طرف رجوع ہوں۔
۱۸۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انبیاء نوٹ ۱۰۶۔
۱۹۔۔۔۔۔۔ داؤد علیہ السلام جب اپنے مخصوص لحن کے ساتھ تسبیح میں مشغول ہوتے تو پہاڑوں سے بھی یہی صدا بلند ہوتی اور پرندوں کے پرے کے پرے جمع ہو کر تسبیح میں نغمہ زن ہوتے۔ اس طرح بڑی پُر کیف فضا بن جاتی۔ یہ اللہ کی طرف سے حضرت داؤد کے حق میں ایک معجزہ کا ظہور تھا۔
۲۰۔۔۔۔۔۔ یعنی داؤد ہی نہیں ان کے ساتھ پہاڑ اور پرندے بھی اللہ کے دھیان میں مشغول ہو جاتے تھے۔
۲۱۔۔۔۔۔۔ بنی اسرائیل کے ارض مقدس (فلسطین) میں داخل ہونے کے بعد انہیں مسلسل جنگوں کا سامنا کرنا پڑا اور بتدریج وہ فلسطین کے علاقے فتح کرتے چلے گئے یہاں تک کہ حضرت داؤد کے ہاتھوں ایک مضبوط حکومت قائم ہو گئی اور سلطنت کا دائرہ کافی وسیع ہوا۔
۲۳۔۔۔۔۔۔ یعنی انہیں دو ٹوک اور فیصلہ کن بات کرنے کی غیر معمولی صلاحیت بخشی تھی اس لئے ان کے کلام میں زبردست تاثیر ہوتی اور فصل مقدمات میں بھی ان کی یہ خصوصیت نمایاں ہوتی۔
۲۴۔۔۔۔۔۔ یہاں ان مقدمہ والوں کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے جو یکایک دیوار پھاند کر داؤد علیہ السلام کی خلوت گاہ میں گھس آئے تھے۔
"محراب" سے مراد خلوت گاہ ہے جو عبادت کے لیے مخصوص تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جس وقت اہل مقدمہ اندر گھس آئے اس وقت حضرت داؤد عبادت میں مشغول ہوں گے۔
۲۵۔۔۔۔۔۔ وہ بے وقت حضرت داؤد کے پاس پہنچے تھے اور خلوت گاہ (محراب) کا دروازہ بند دیکھ کر دیوار پر سے اندر داخل ہوئے تھے۔ ان کے اس طرح اچانک داخل ہونے سے حضرت داؤد گھبرا گئے کہ معلوم نہیں یہ کس ارادہ سے آئے ہیں۔ ان کی یہ گھبراہٹ بالکل فطری تھی۔
۲۶۔۔۔۔۔۔ مقدمہ والوں نے حضرت داؤد کو اطمینان دلایا کہ ہمارے آنے کی غرض اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ جو نزاع ہمارے آپس میں ہوئی ہے۔ اس کا آپ فیصلہ کریں۔ مگر ان کی گفتگو کا انداز نا شائستہ تھا چنانچہ انہوں نے یہ سخت الفاظ بے محل استعمال کیے کہ بے انصافی نہ کیجئے جبکہ حضرت داؤد نبی تھے اور ایک نبی کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ وہ نا انصافی کرے گا۔
۲۷۔۔۔۔۔۔ ایک فریق نے مقدمہ اس طرح پیش کیا کہ یہ دوسرا فریق در اصل میرا بھائی ہے اور ننانوے دنبیوں (بھیڑوں ) کا مالک ہے اور میری صرف ایک دنبی ہے جس کے بارے میں اس کا مطالبہ یہ ہے کہ میں اس کو بھی اس کے حوالہ کر دوں۔ مجھے یہ بات پسند نہیں ہے لیکن یہ بحث میں مجھے دبا لیتا ہے اور اس پر آپس میں تکرار ہوتی ہے لہٰذا آپ انصاف کے ساتھ فیصلہ کیجئیے کہ آیا اس کا یہ مطالبہ صحیح ہے یا نہیں۔
واضح رہے کہ فریق ثانی نے فریق اول سے یہ مطالبہ نہیں کیا تھا کہ مجھے تو اپنی دنبی بھی دے دے بلکہ مطالبہ یہ کیا تھا اس کو میرے حوالے کر دے تاکہ میں اس کی نگرانی کروں جیسا کہ لفظ اَکْفِلْنِیْھَا (اس کو میری کفالت میں دیدے ) سے ظاہر ہے۔ اس کا ارادہ تو اس دنبی کو ہڑپ کرنے کا ہی رہا ہو گا اسی لیے تو اس کو اس بات پر اصرار تھا کہ وہ دنبی اس کے حوالہ کر دے تاکہ اپنی ننانوے دنبیوں میں اس کو شامل کر لے اور سو کا عدد پورا ہو جائے۔ مگر اس نے اپنی اس حرص کو پورا کرنے کے لیے مطالبہ اس شکل میں پیش کیا کہ وہ اس دنبی کی جو تنہا ہے رکھوالی کرنا چاہتا ہے۔ وہ چونکہ اس کا بھائی تھا اس لیے اس نے زور دیکر کہا ہو گا کہ تو اپنی ایک دنبی کو چَرانے کا اور اس کی حفاظت کا کہاں انتظام کر سکتا ہے۔ میری دنبیوں میں اس کو شامل کر دے تو آسانی سے یہ انتظام ہو جائے گا مگر اس کا بھائی سمجھ گیا کہ اس کی نیت بُری ہے اس لیے وہ اپنی دنبی اس کے حوالہ کرنے سے انکار کرتا رہا۔ مگر جب دوسری طرف سے اصرار بڑھ گیا اور تکرار تک نوبت پہنچی تو دونوں فریق فیصلہ کے لیے حضرت داؤد کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
۲۸۔۔۔۔۔۔ دوسرے فریق کی بات بھی یقیناً حضرت داؤد نے سن لی ہو گی کیونکہ کسی منصف سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ یک طرفہ بات سن کر فیصلہ کر دے گا لیکن قرآن نے اس کا بیان اس لیے نقل نہیں کیا کہ اس کے بیان سے فریق اول کا دعویٰ غلط ثابت نہیں ہو رہا تھا خاص طور سے اس لیے بھی کہ فریق ثانی (ننانوے دنبیوں کے مالک) کا دعویٰ یہ نہیں تھا کہ یہ دنبی میری ہے جیسا کہ اوپر کے نوٹ میں واضح کیا گیا ہے۔ حضرت داؤد نے فیصلہ یہ دیا کہ اس شخص کی ایک دنبی کو اپنی دنبیوں میں شامل کرنے کا فریق ثانی کا مطالبہ سراسر غلط اور اس شخص (فریق اول) کی حق تلفی ہے۔ جب فریق اول اپنی دنبی کو فریق ثانی کے حوالہ نہیں کرنا چاہتا تو اسے اپنی بات پر اصرار کرنے کا کوئی حق نہیں۔ یہ فیصلہ نہایت معقول اور منصفانہ تھا۔
۲۹۔۔۔۔۔۔ شرکاء عام طور سے ایک دوسرے پر جو زیادتی کرتے ہیں ان کے سلسلہ میں حضرت داؤد نے اس عدالتی رائے کا اظہار کیا (Observed)اس میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس غریب کی ایک دنبی کو اپنے مال میں شریک کرنے کا مطالبہ اس کو ہڑپ کر جانے کی ایک تدبیر ہے۔
۳۰۔۔۔۔۔۔ مقدمہ والوں نے حضرت داؤد سے یہ بھی درخواست کی تھی کہ وہ انہیں سیدھی راہ دکھائیں لہٰذا حضرت داؤد نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے یہ رہنمائی بھی دی کہ مومنانہ اور صالحانہ زندگی ہی انسانوں کو بندگان خدا کی حق تلفی سے بچاتی ہے۔
۳۱۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے ایسے بندے جو اپنے ایمان میں مخلص اور اپنی عملی زندگی میں صالح ہوں بہت کم ہیں۔ اور یہ واقعہ ہے کہ ایسے لوگ ہر زمانہ میں تھوڑے ہی رہے ہیں کیونکہ اپنے اندر اچھے اوصاف پیدا کرنا سب سے زیادہ مشکل کام ہے اور دنیا میں اعلیٰ قسم کی چیزیں کم ہی پائی جاتی ہیں۔ ہیرے جواہرات نادر الوجود ہیں جب کہ پتھروں کی کوئی کمی نہیں۔ سونا کمیاب ہے جب کہ ہر اسم کی دھات کثیر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ پس اللہ جسے توفیق دے وہی سچا مؤمن اور نیک کردار بن جاتا ہے۔
۳۲۔۔۔۔۔۔ مقدمہ والوں نے بے وقت اور دیوار پھاند کر خلیفہ وقت کی عمارت میں گھس آنے کی جو جسارت کی تھی اور گفتگو کاجو گستاخانہ انداز اختیار کیا تھا اس پر حضرت داؤد نے کمال ضبط اور نہایت تحمل سے کام لیا اور حق و عدل کے ساتھ مقدمہ کا فیصلہ سنایا۔ ساتھ ہی ان کا ذہن اس بات کی طرف منتقل ہوا کہ مقدمہ والوں کی یہ جسارت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے وجہ آزمائش تھی اور جب ایک بیدار مغز انسان کو کوئی ٹھوکر لگتی ہے تو اسے اپنا قصور یاد آ جاتا ہے ، حضرت داؤد کو بھی اس موقع پر اپنا قصور یاد آگیا چنانچہ وہ فوراً اللہ سے معافی کے طالب ہوئے اس کے آگے جھک کر سجدے میں گر پڑے اور دل کی انابت کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
یہ تھا حضرت داؤد کا مثالی کردار کہ ایک عظیم فرمانروا ہونے کے باوجود ان کے خلوص و للّہیت اور تقویٰ اور انابت کا یہ حال تھا کہ وہ اپنا احتساب کرتے اور اپنے قصور پر نادم ہو کر اللہ سے معافی مانگتے۔
ان کی حکومت (خلافت) میں غریبوں کو انصاف ملتا اور نظام حکومت عادلانہ اس صالح نظام حکومت تھا۔
یہ آیت سجدہ ہے اس لیے اس کی تلاوت یا سماعت پر سجدہ کرنا چاہیے۔ تاکہ پڑھنے یا سننے والے پر رجوع و انابت کی کیفیت طاری ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس موقع پر سجدہ کرنا ثابت ہے۔
۳۳۔۔۔۔۔۔ حضرت داؤد کا قصور کیا تھا اس کی صراحت قرآن نے نہیں کی لیکن بعد والی آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ فرائض خلافت کس انجام دینے کے سلسلے میں ان سے کوئی کوتاہی سرزد ہوئی تھی جس کا احساس ان کو اس موقع پر ہو گیا۔ قرآن نے جب ان کے قصور پر پردہ ڈال دیا ہے تو اس کو کریدنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جن مفسرین نے ان کو کریدنے کی کوشش کی انہوں نے ان آیتوں کی دور افکار تاویلیں کیں اور حضرت داؤد کی طرف ایسی باتیں منسوب کیں جو ایک نبی کے شایان شان نہیں ہو سکتیں اور مشہور مفسر ابن جریر طبری نے تو اور یّاہ حِتّی کی بیوی سے حضرت داؤد کے نکاح کا بے ہودہ قصہ نقل کر کے افسوس ناک غلطی کی ہے اللہ تعالیٰ انہیں معاف کرے۔ اوریّاہ حِتّی کی بیوی سے حضرت داؤد کے نکاح کا قصہ اصلاً بائیبل میں بیان ہوا ہے۔ (۲۔ سموئیل باب ۱۱،۱۲) جو حضرت داؤد پر الزامات اور بہتان سے پر اور اس قدر لغو ہے کہ اس کو نقل کرنے سے ہمارا قلم قاصر ہے۔ سُبْحَانَکَ ھٰذا بُھتان عَظِیْم۔ اسی قصہ کو تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ راویوں نے پیش کر دیا اور روایتوں پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کرنے والوں نے اسے قبول کر لیا متعدد مفسرین نے اس کی پر زور تردید بھی کی۔ مثال کے طور پر علامہ رازی نے اپنی تفسیر میں اس قصہ کو نہایت شرمناک قرار دیتے ہوئے اس کی مدلل تردید کی ہے اور علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے : " اس موقع پر مفسرین نے ایک قصہ بیان کیا ہے جس کا بیشتر حصہ اسرائیلیات سے ماخوذ ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس سلسلہ میں کوئی حدیث ثابت نہیں جس کی اتباع واجب ہو"۔ (تفسیر بن کثیر ،ج ۴ ص ۳۱)
اور مولانا حفظ الرحمٰن صاحب اپنی محققانہ کتاب قصص القرآن میں لکھتے ہیں :
"مگر افسوس صد ہزار افسوس کہ قرآن عزیز کے اس مقدس اعلان کے باوجود حتّی اور یّاہ کی بیوی کی اس خرافی داستان کو توراۃ اور اسرائیلیات سے لے کر بعض مفسرین نے قرآن عزیز کی تفسیر میں نقل کر دیا اور اسرائیلی بکواس کو بلا دلیل و سند اسلامی روایت کی حیثیت دی۔
ان سادہ لوح بزرگوں نے یہ مطلق خیال نہیں فرمایا کہ جن خرافاتی داستانوں کو آج وہ اسرائیلی روایت کی حیثیت سے قرآن عزیز میں نقل کر رہے ہیں کل وہ آیات قرآنی کی تفسیر و تشریح سمجھی جا کر گمراہی کا سبب ثابت ہوں گی اور حیرت و صد حیرت ہے بعض ان جدید قدیم متکلمین پر جنہوں نے اس قسم کی روایات کو سختی کے ساتھ رد کر دینے اور ان بہتان طرازیوں کو مردود قرار دینے کے بجاۓ ان روایات کے نیک محمل تلاش کر کے ان کو قابل قبول بنانے کی سعی نا مشکور فرمائی ہے اور بے محل حسن ظن سے کام لے کر اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا کہ یہ تاویلات جو اس خرافی روایت کے بارے میں کی جا رہی ہیں ریت کی دیوار اور تار عنکبوت ہیں اور کسی نہ کسی اسلوب کے ساتھ اس کو تسلیم کرنے سے "عصمت انبیاء" جیسے اہم اور بنیادی اسلامی عقیدہ پر ضرب کاری لگتی ہے اور یہ کہ انبیاء و رسل کی جانب اس قسم کے انتساب سے جب کہ قرآن مجید کا دامن پاک اور بے لوث ہے اور وہ اس قسم کی روایات کو بہتان عظیم سمجھتا ہے تو پھر کسی شخص کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اس کی تفسیر میں اس قسم کی خرافات کا تذکرہ کرے " (قصص القرآن ، ج ۲ ص۱۷۹)
مگر حیرت ہے کہ صاحب تفہیم القرآن نے بائیبل کے اس قصہ کو ریفائنڈ (Refined) کر کے پیش کیا ہے اور توجہ یہ کی ہے کہ :
"معلوم ایسا ہوتا ہے کہ حضرت داؤد کو اس خاتون کی خوبیوں کا کسی ذریعہ سے علم ہو گیا تھا اور ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ ایسی لائق عورت ایک معمولی افسر کی بیوی ہونے کے بجائے ملک کی ملکہ ہونا چاہیے۔ اسی خیال سے مغلوب ہو کر انہوں نے اس کے شوہر سے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ اسے طلاق دیدے۔ اس میں کوئی قباحت انہوں نے اس لیے محسوس نہ کی کہ بنی اسرائیل کے ہاں یہ کوئی معیوب بات نہ سمجھی جاتی تھی۔ "
یہ توجیہ بھی بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ یہ بات کہ داؤد علیہ السلام کے دل میں ایک دوسرے شخص کی بیوی سے نکاح کرنے کا خیال پیدا ہوا اور انہوں نے اس کے شوہر سے اپنی یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ اسے طلاق دیدے اخلاقی لحاظ سے نہایت فرو تر بات ہے اور ایک نبی کی طرف ایسی بات منسوب کرنے سے مقام نبوت متاثر ہوتا ہے جب کہ نبی اخلاق کی بلند ترین چوٹی پر ہوتا ہے اور یہ بات کیسے معلوم ہو گئی کہ حضرت داؤد کے دل میں یہ غلط خیال پیدا ہو گیا تھا۔ شرعی پہلو سے بھی یہ بات قابل اعتراض قرار پاتی ہے کہ کسی شخص سے اس کی بیوی کو طلاق دینے کے لیے کہا جائے تاکہ اس کے طلاق دینے کے بعد وہ اس کی منکوحہ قرار پائے۔ یہ تو میاں بیوی کے درمیان تفریق کا عمل ہوا جس کو شرعی جواز کس طرح حاصل ہو سکتا ہے ؟ پھر ایک ایسی بات جو نہ اخلاقاً صحیح ہو سکتی ہے اور نہ شرعاً ایک نبی کی طرف کس طرح منسوب کی جا سکتی ہے ؟ فاضل مفسر اور دوسرے مفسرین کو یہ سب تکلفات اس لیے کرنا پڑے کہ اللہ نے اپنے بی کے ایک قصور پر پردہ ڈالا تھا اس کو اٹھانے کی انہوں نے ناکام کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ ان کو معاف کرے اور اپنے نبی داؤد کو سلام و رحمت سے نوازے۔
۳۴۔۔۔۔۔۔ یہاں خلیفہ کے معنی با اقتدار اور فرمانروا کے ہیں۔ بنی اسرائیل کو ارض مقدس میں بتدریج جو اقتدار حاصل ہوتا چلا گیا اس نے حضرت داؤد کے زمانہ میں ایک مضبوط حکومت اور مستحکم سلطنت کی شکل اختیار کر لی۔ یہ ایک خالص اسلامی حکومت تھی جس کی زمامِ کار ایک نبی کے ہاتھ میں تھی۔ یہ خلافت (اسلامی حکومت) اس مملوکیت سے بالکل مختلف تھی جس کی خصوصیات میں آمریت اور خواہش پرستی جیسی چیزیں شامل ہیں۔
(لفظ خلیفہ کی مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ فاطر نوٹ ۷۱)
۳۵۔۔۔۔۔۔ اقتدار پاکر انسان حق و عدل کے تقاضے پورے نہیں کرتا بلکہ اپنی خواہشات کے پیچھے پڑ کر من مانی کرنے لگتا ہے جس کا نتیجہ گمراہی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے تاکید فرمائی کہ حکومت کے سارے فیصلے حق کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔ یہ حضرت داؤد کے واسطہ سے بنی اسرائیل کو مستقل ہدایت تھی کہ جو اقتدار حاصل ہو جانے کے بعد اپنے حاکمانہ اختیارات کو حق و عدل کی بنیاد پر استعمال کریں جس میں شریعت کی تطبیق لازماً شامل ہے۔
۳۶۔۔۔۔۔۔ واضح ہوا کہ حق و عدل پر قائم رکھنے والی چیز قیامت کے دن اللہ کے حضور جوابدہی کا یقین ہے۔ اگر اس تصور کا غلبہ دل و دماغ پر نہیں رہا تو خواہشات حاوی ہو جاتی ہیں اور آدمی غلط فیصلے کرنا لگتا ہے اس طرح ہدایت کی راہ اس پر گم ہو جاتی ہے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کائنات کی تخلیق کا ایک مقصد اور اس کی ایک غایت ہے اور وہ ا ہے جزائے عمل اور اس کے لیے قیامت کے دن اللہ کی عدالت کا برپا ہونا۔
۳۸۔۔۔۔۔۔ یعنی جو لوگ اللہ کی نشانیوں سے جو اس کائنات کی تخلیق کے عظیم مقصد کی طرف رہنمائی کرنے والی ہیں انکار کرتے ہیں وہی یہ گمان کرتے ہیں کہ اس کے پیچھے کوئی حکیمانہ منصوبہ کار فرما نہیں ہے بلکہ یہ کائنات ایک حادثہ کے طور پر پیدا ہوئی ہے یا ہمیشہ سے یونہی چلی آ رہی ہے۔ وحی الٰہی کی روشنی سے محروم ہونے کے بعد وہ اس کائنات کے وجود کی کوئی صحیح توجیہ کر نہیں پاتے۔
۳۹۔۔۔۔۔۔ یعنی آخرت اور جزا و سزا کے انکار کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کی نظر میں مؤمنین صالحین اور مفسدین سب برابر ہیں اور متقیانہ زندگی گزارنے اور فسق و فجور میں مبتلا ہونے میں نتیجہ کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔ اللہ نہ مظلوم کی داد رسی کرنے ولا ہے اور نہ ظالموں کو سزا دینے والا ہے۔ مگر کیا عقل سلیم اور فطرت انسانی اس خیال کی تائید کرتی ہے ؟ ہر گز نہیں۔ نہ عقل سلیم نیک کردار اور بد کردار کو یکساں قرار دیتی ہے اور نہ فطرت انسانی ظالم و مظلوم کو ایک ہی سطح پر رکھتی ہے۔ اور یہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ وحی الٰہی جزا و سزا کی جو خبر دے رہی ہے وہ بالکل حق ہے۔
۴۰۔۔۔۔۔۔ قرآن کے مبارک کتاب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ چشمۂ خیر ہے اور اس کی فیض رسانی کبھی ختم ہونے والی نہیں جو بھی اس میں تدبر کرے گا یعنی صاف ذہن کے ساتھ غور و فکر کرے گا اس کے فیض سے محروم نہیں رہے گا اور جو شخص اس کتاب میں جتنا تدبر کرے گا اتنا ہی وہ فیضیاب ہو گا اور جتنی گہرائی میں جائے گا اتنے ہی علم و معرفت کے موتی چن لے گا۔
قرآن نے غور فکر کی جو دعوت دی ہے اس کے باوجود مسلمانوں کی بڑی تعداد ایسی ہے جو تلاوت کو کافی سمجھتی ہے اور اس کے معنی و مفہوم کو سمجھنے اور اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی نتیجہ یہ کہ ان کا تعلق اس کتاب سے بہت کمزور ہو کر رہ گیا ہے اور اس کی فیض بخشیوں سے انہوں نے اپنے کو محروم کر لیا ہے :
"اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ سبحانہ نے قرآن اس لیے نازل کیا ہے کہ اس کے معانی میں غور و فکر کیا جائے۔ تدبر کے بغیر محض تلاوت کے لیے نازل نہیں کیا ہے "۔ (فتح القدیر ،ج ۴ ص ۴۳۰)
۴۱۔۔۔۔۔۔ یعنی جو لوگ اپنی عقل و دانش کا استعمال کریں گے وہ اس کتاب کے مطالعہ سے یاد دہانی اور نصیحت حاصل کریں گے۔ اور قرآن کا اولین مقصد یہی ہے کہ لوگ اس کتاب سے نصیحت پذیر ہوں۔ اور یہ فائدہ ایک عام آدمی بھی اس کا مطالعہ کر کے حاصل کر سکتا ہے بشرط یہ کہ وہ صاف ذہن سے مطالعہ کرے۔
۴۲۔۔۔۔۔۔ یعنی داؤد کو سلیمان جیسا فرزند عطاء کیا۔
مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ انبیاء نوٹ ۴۰۱ اور سورہ نمل ۲۱۔
۴۳۔۔۔۔۔۔ اس سے بائیبل کی ان غلط بیانیوں کی خود بخود تردید ہوتی ہے جو حضرت سلیمان کے بارے میں کی گئی ہیں اور جن سیان کی کردار شکنی ہوتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے انہیں بہترین بندہ قرار دیا تو اخلاقی و عملی لحاظ سے جو فرو تر باتیں ان کی طرف منسوب کی گئی ہیں وہ کس طرح صحیح ہو سکتی ہیں۔
۴۴۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی طرف رجوع کرنے کی صفت ان میں بدرجہ کمال موجود تھی۔
رجوع کی تشریح اوپر نوٹ ۱۷ میں گزر چکی۔
۴۵۔۔۔۔۔۔ متن میں لفظ "الصافات" استعمال ہوا ہے جو ان گھوڑے کے لیے بولا جاتا ہے جو اس طرح کھڑ ے ہوں کہ ان کا اگلا ایک پاؤں اٹھا ہوا اور مڑا ہوا ہو یعنی اس کے سم کا صرف ایک کنارہ زمین پر ہو۔ اس طرز پر گھوڑوں کا کھڑا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ وہ ایک اشارہ پر دوڑنے کیلیے تیار ہیں۔ یہ گھوڑے چونکہ جہاد کیلیے تھے اس لیے ان کو یہ ٹریننگ دے دی گئی تھی۔ اسی مناسبت سے ہم نے "الصافات" کا ترجمہ تربیت یافتہ گھوڑے کیا ہے۔
۴۶۔۔۔۔۔۔ شام کے وقت کے ذکر سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ یہ گھوڑے جہاد کی مہم پر روانہ ہونے والے تھے کیونکہ صحرا میں سفر زیادہ تر رات میں کیا جاتا تھا۔ اور صبح کے وقت دھاوا بولا جاتا تھا (فَالْمُغِیْراتِ صُبْحاً)ان گھوڑوں کی قسم جو صبح کے وقت دھاوا کر دیتے ہیں۔ سورہ عادیات :۳)
آیت کا مطلب یہ ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے پاس نہایت عمدہ، سبک رو اور تربیت دئے ہوئے (Trained) گھوڑے تھے اور یہ شام کے وقت جب کہ وہ جہاد کی مہم پر روانہ کیے جانے والے تھے حضرت سلیمان کے سامنے پیش کیے گئے۔
بائیبل میں یہ واقعہ تو مذکور نہیں ہے جو قرآن نے یہاں بیان کیا ہے لیکن حضرت سلیمان کے گھوڑوں (Cavalry) کا ذکر موجود ہے : " اور سلیمان نے رتھ اور سوار (مراد گھوڑے سوار ہیں ) اکٹھے کر لیے۔ اس کے پاس ایک ہزار چار سو رتھ اور بارہ ہزار سوار تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو گھوڑے سلیمان کے پاس تھے وہ مصر سے منگائے گئے تھے اور بادشاہ کے سوداگر ایک ایک جھنڈ کی قیمت لگا کر ان کے جھنڈ کے جھنڈ لیا کرتے تھے۔ " (۱: سلاطین۱۰: ۲۶ تا ۲۸)۔
۴۷۔۔۔۔۔۔ حضرت سلیمان ان گھوڑوں کو جو نہایت عمدہ تھے اور جن کو جنگ کی ٹریننگ بھی دی گئی تھی دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ مگر اس جنگی طاقت پر جو انہیں فراہم ہوئی تھی اترائے نہیں بلکہ اللہ کو یاد کیا اور فرمایا اس مال سے میری محبت دنیوی شان و شوکت پر فخر کرنے کی غرض سے نہیں ہے بلکہ اللہ کے ذکر کی وجہ سے ہے کہ یہ مال اور یہ طاقت اس کی راہ میں جہاد کرنے کی وجہ سے فراہم کی گئی ہے۔ یعنی کی نگاہ اعلائے کلمۃ اللہ جیسے عظیم مقصد پر تھی نہ کہ اپنی حکومت کی ظاہری شان و شوکت پر۔ اور حضرت سلیمان جیسے عظیم سلطنت کے مالک کا یہ وہ مثالی کردار ہے جو ان کے رجوع و انابت کا ثبوت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وسائل و اقتدار پا کر لوگ گھمنڈ میں مبتلا ہو جاتے ہیں اس کے برخلاف سلیمان (علیہ السلام) نے جو رویہ اختیار کیا وہی رویہ بندوں کے اختیار کرنے کا ہے یعنی اللہ کو ہر موقع پر یاد کرنا اور اس کی طرف رجوع ہونا۔
بعض مفسرین نے عَنْ ذِکْرِ رَبِّی کے معنی "میرے رب کے ذکر سے غافل کر دیا" لئے ہیں اور پھر ان آیتوں کی تاویل میں ایسی باتیں کہی ہیں جو نہ حضرت سلیمان کی شان نبوت سے مناسبت رکھتی ہیں اور نہ ان سے وہ مقصدیت واضح ہوتی ہے جو اس واقعہ میں مضمر ہے اور جس کا ربط اوپر کے سلسلہ بیان سے ہے۔ علامہ رازی نے اپنی تفسیر میں اس تاویل کی مکمل تردید کی ہے اور مولانا مودودی نے بھی تفہیم القرآن میں قوی دلائل سے اس تاویل کی بنیاد پر کہی جانے والی قیاسی باتوں کی تردید کی ہے۔
مفسرین میں اصل اختلاف عربی کے حرف جار"عن" کے معنی متعین کرے کے سلسلہ میں ہو رہا ہے۔ یہ حرف "اس وجہ سے " (مِن اَجْل) کے معنی میں بھی آتا ہے جیسا کہ عربی کی مستند لغت لسان العرب (جلد ۱۳ ص ۲۹۶) میں بیان ہوا ہے۔ نیز قرآن میں بھی سورہ توبہ آیت ۱۱۴میں "عن" کی وجہ سے " کے معنی میں استعمال ہوا ہے :
وَمَا کَانَ اسْتغْفَارُ اِبْرَاہِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَوْعِدَۃٍ و عَدَ ھا اِیَّا ہُ۔ "اور ابراہیم نے اپنے باپ کے لیے جو مغفرت کی دعا کی تھی وہ اس وعدہ کی وجہ سے تھی جو اس نے کیا تھا"۔
اسی طرح سورہ ہود آیت ۵۳ میں بھی ان ہی وجوہ سے ہم نے آیت کا ترجمہ "مجھے اس مال سے محبت اللہ کی یاد کی وجہ سے ہے " کیا ہے۔
۴۸۔۔۔۔۔۔ یعنی سلیمان (علیہ السلام) ان گھوڑوں کو محبت بھری نگاہ سے دیکھتے رہے یہاں تک کہ ان کی دوڑ شروع ہوئی اور وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
"حجاب"کے معنی اوٹ کے ہیں۔ ممکن ہے گھوڑے دوڑتے ہوئے کسی پہاڑ کی اوٹ میں چلے گئے ہوں اور اس وجہ سے نظروں سے غائب ہو گئے ہوں۔
۴۹۔۔۔۔۔۔ جب گھوڑے نظروں سے اوجھل ہو گئے تو حضرت سلیمان نے پھر ان کو واپس بلا لیا تا کہ اپنا دست مبارک ان پر پھیریں۔ یہ بات بعد میں ان کے ذہن میں آئی ہو گی۔
۵۰۔۔۔۔۔۔ جب گھوڑے واپس لائے گئے تو حضرت سلیمان فرط محبت سے ان کی گردنوں اور پنڈلیوں پر اپنا دست مبارک پھیرنے لگے چونکہ یہ جنگی گھوڑے تھے اور جہاد کی مہم پر روانہ ہو رہے تھے اس لیے اپنا دست مبارک ان کے ان اعضاء پر پھیرا جو تلوار کی زد میں آتے ہیں۔ جنگ میں دشمن کی فوجیں گھوڑوں کی گردن پر تلوار چلاتی ہیں یا ان کی کونچیں (ٹانگیں ) کاٹ دیتی ہیں حضرت سلیمان کا ان کی گردنوں اور پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرنا اس بات کی علامت تھا کہ وہ ان کو اللہ کی حفاظت میں دے رہے ہیں۔
۵۱۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کو مختلف آزمائشوں سے گزارتا رہا ہے تاکہ وہ ان کے رجوع و انابت میں اور اضافہ ہو اور ان کا مقام اور بلند ہو جائے۔ حضرت سلیمان کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک خاص آزمائش میں ڈالا تھا جس کی تفصیل قرآن نے نہیں بتلائی بلکہ اشارہ پر اکتفاء کیا کیونکہ پیش نظر مقصد کے لیے یہ بات کافی تھی۔
آیت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کی کرسی (تخت ) پر غیر معمولی طریقہ سے ایک دھڑ ڈال دیا تھا۔ یہ دھڑ انسان کا ہی رہا ہو گا اور جب حضرت سلیمان نے دیکھا ہو گا کہ میرے تخت پر یہ کون شخص آ کر بیٹھا ہے تو گھبرا گئے ہوں گے لیکن جب انہوں نے قریب سے دیکھا ہو گا تو ایک بے جان انسان کے دھڑ کو دیکھ کر انہیں حیرت ہوئی ہو گی کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ مگر وہ بیدار دل تھے اس لیے ان کا ذہن فوراً اس بات کی طرف منتقل ہو گیا کہ غیر معمولی طریقہ پر ایک بے جان انسان کے دھڑکا ان کے تخت پر گرا ہونا اللہ کی طرف سے آزمائش ہے اور ہو سکتا ہے یہ آزمائش فرائض سلطنت کو انجام دینے کے سلسلہ میں کسی قصور کی بنا پر ہوئی ہو اور اللہ تعالیٰ نے اس پر انہیں متنبہ کرنا چاہا ہو۔ اس لیے انہوں نے اللہ کی طرف رجوع کیا اور معافی کے خواستگار ہوئے۔ ان کے کردار کی بلندی کا یہی وہ خاص پہلو ہے جس کو یہاں پیش کرنا مقصود ہے۔ ایک عظیم سلطنت کے فرمانروا ہونے کے باوجود ان کے عجز و نیاز کا حال یہ تھا کہ وہ اپنے قصوروں کی اللہ سے معافی مانگتے اور دل کی انابت کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوتے۔
ہم نہیں سمجھتے کہ آیت کے اس ظاہری مفہوم کو چھوڑ کر تاویلات میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ مگر بعض مفسرین نے آیت کی تاویل میں بے سر و پا قصے نقل کئے ہیں جو اس قدر بے ہودہ ہیں کہ ان کو حضرت سلیمان کی طرف منسوب کرنا بڑی ہی سادہ لوحی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکایتوں اور روایتوں کو قبول کرنے کے معاملہ میں طبری جیسے مفسر کا معیار کتنا گھٹیا رہا ہے۔ علامہ ابن کثیر نے ان قصوں کو اسرائیلیات میں سے قرار دیتے ہوئے لکھا ہے :
" ابن جریر اور ابن ابی حاتم وغیرہ مفسرین نے اس سلسلہ میں سلف کے ایک گروہ سے بکثرت اقوال نقل کئے ہیں جن میں سے اکثر بلکہ تمام تر اسرائیلیات سے ماخوذ ہیں اور ان میں سے اثر اقوال میں سخت نکارت پائی جاتی ہے۔ "
(البدایۃ و الجہایتہ ، ج ۲ ص ۲۶ )
اور بعض مفسرین نے بخاری و مسلم کی اس حدیث کو اس آیت کی تفسیر قرار دیا ہے جس میں حضرت سلیمان کے ایک موقع پر ان شاء اللہ نہ کہنے اور اس کے نتیجہ میں ان کی بیوی سے ناقص بچہ پیدا ہونے کا قصہ بیان ہوا ہے مگر یہ حدیث نکارت (نامناسب باتوں ) سے پُر ہونے کے باوجود اگر بالفرض صحیح تسلیم کر لی جائے تو اس کو اس آیت کی تفسیر نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ اس میں اس واقعہ کی طرف سے اشارہ نہیں کیا گیا ہے جو اس آیت میں بیان ہوا ہے۔ (عبدالوہاب نجار نے اس حدیث کو بوجوہ ناقابل قبول قرار دیا ہے۔
۵۲۔۔۔۔۔۔ یعنی ایسی حکومت جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے بے مثال ہو۔ حضرت سلیمان کی یہ دعا مقبول ہوئی اور ہوا اور جنوں کو ان کے تابع کر دیا گیا جیسا کہ بعد والی آیتوں میں بیان ہوا ہے۔ اور یہ واقعہ ہے کہ دنیا میں بڑی بڑی سلطنتیں قائم ہوئیں لیکن جو خصوصیات حضرت سلیمان کی سلطنت کی تھیں وہ ہی ان کا طرہ امتیاز قرار پائیں۔
حضرت سلیمان نے یہ بے مثال حکومت کسی ذاتی غرض سے طلب نہیں کی تھی بلکہ نہایت پاکیزہ جذبات کے ساتھ اعلائے کلمۃ اللہ (اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے ) اور اسلامی حکومت کی تمام غیر اسلامی حکومتوں پر برتری ظاہر کرنے کے لیے کی تھی نیز اس لیے بھی کہ اللہ کی قدرت کی کرشمہ سازیوں کا ایک نبی کے حق میں ظہور ہو۔
۵۳۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انبیاء نوٹ ۱۰۹ اور سورہ سبا نوٹ ۲۳۔
۵۴۔۔۔۔۔۔ مراد سرکش جن ہیں۔ مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ انبیاء نوٹ ۱۱۰ اور سورہ نمل نوٹ ۲۵۔
۵۵۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ سبا نوٹ ۲۷۔
۵۶۔۔۔۔۔۔ ایسے جن جو سمندر میں غزوہ لگا کر موتی وغیرہ نکالتے۔
۵۷۔۔۔۔۔۔ یعنی سرکش جن سلیمان (علیہ السلام ) کی قید و بند میں رہتے تھے۔ جن ایک نہ دکھائی دینے والی مخلوق ہے اس لیے انکو جکڑنے والی زنجیریں بھی مخصوص قسم کی رہی ہوں گی۔
۵۸۔۔۔۔۔۔ بے حساب بخشش کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ کو اس کا حساب دینا نہیں ہے۔ ایک نبی پر بھی حکومت کے تعلق سے عدل وغیرہ کی جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کا ذکر اوپر آیت ۶۱ میں ہوا ہے اس لیے اس قسم کے معنی لینے کی یہاں گنجائش نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ بخشش نہایت وافر اور کثیر ہے۔ قرآن میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے وَاللہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَاءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ (اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔ سورہ بقرہ آیت ۲۱۲) اس آیت میں بھی بغیر حساب (بے حساب ) سے مراد کثیر رزق ہے جو اندازوں اور توقعات سے بڑھ کر ہو نہ کہ ایسا رزق جس پر آخرت میں حساب ہونے والا نہ ہو۔
۵۹۔۔۔۔۔۔ یعنی ان جنوں میں سے جو تمہارے قابو میں کر دئے گئے ہیں جن کو چاہو احسان کر کے چھوڑ دو اور جن کو چاہو خدمت کے لیے روک رکھو۔
۶۱۔۔۔۔۔۔ ا ایوَب (علیہ السلام) کے حالات کے بارے میں دیکھیے سورہ انبیاء نوٹ ۱۱ تا ۱۱۳۔
۶۲۔۔۔۔۔۔ یعنی مجھے دونوں طرح تکلیف پہنچی ہے۔ بیماری کا دکھ بھی اور گھر والوں کے بچھڑنے کا غم بھی۔ یہ تکلیفیں اللہ کی مشیت ہی سے پہنچی تھیں کیونکہ اللہ ہی نفع و نقصان پہنچانے والا ہے اسی لیے حضرت ایوب نے ان تکلیفوں کو دور کرنے کے لیے اللہ ہی سے فریاد کی لیکن ان کو شیطان کی طرف اس لیے منسوب کیا گیا اس آزمائش میں جو اللہ کی طرف سے تھی شیطان کی شرارت کے نتیجے میں پیش آئی تھی۔ یہ شرارت کیا تھی ہمیں نہیں معلوم۔ ہو سکتا ہے شیطان کے اکسانے پر کسی قبیلہ نے غارت گری کی ہو اور اس میں حضرت ایوب کے گھر والے بچھڑ گئے ہوں۔ اور اس غم میں حضرت ایوب بیمار پڑ گئے ہوں اور اس بیماری نے پھر شدت اختیار کی ہو اس لیے انہوں نے اپنے دکھ اور قلبی تکلیف کا سبب شیطان کو قرار دیا ہو۔ اور حقیقت حال کا علم اللہ ہی کو ہے۔
حضرت ایوب ار چہ سخت بیمار پڑ گئے تھے جس میں ن کے صبر کا امتحان ہوا لیکن یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ ان کو کوئی ایسی بیماری ہو گئی تھی جس سے نفرت اور کراہیت پیدا ہوتی ہے مثلاً جذام وغیرہ نبی بیمار ہوتا ہے مگر ایسی کسی بیماری میں مبتلا نہیں کیا جاتا کہ لوگ اس کے قریب آنے نہ پائیں کیونکہ ایسی صورت میں نہ صرف نبوت کا مقام متاثر ہوتا ہے بلکہ دعوت و ارشاد اور اصلاح و تربیت کا کام بھی متاثر ہو جاتا ہے۔ جس کے لیے ایک نبی بعثت ہوتی ہے۔ بائیبل میں ایوب کے نام سے جو صحیفہ ہے وہ شاعری اور نثر کا مجموعہ ہے جس میں بڑے مبالغہ آمیز انداز میں قصہ گوئی کی گئی ہے۔ اس کے مضامین سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ایوب کے واقعہ کو بالکل غلط طریقہ پر اور افسانوی رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔ بائیبل کا شارح لکھتا ہے کہ اس کے مصنف کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ وہ کون تھا۔
"Despite our richer acquaintance with the background of Job, the name of the author remains quite unknown to us."
)The Interpreters now - Vol. Commentary on the Bible P. 239 (
مگر اہل کتاب سے سن کر راویوں نے بھی حضرت ایوب کے بارے میں عجیب و غریب قصے بیان کیے جو تفسیروں میں نقل ہوئے ہیں ان ناقابل اعتبار قصوں کا شیخ محمد بن ابو شہبہ نے اپنی کتاب الاسرائیلیات و الموضوعات فی کتاب التفسیر میں بڑا اچھا جائزہ لیا ہے۔ لکھتے ہیں
"حقیقت یہ ہے کہ اس قصہ کے تانے بانے نہایت کمزور ہیں اور وہ تنقید کے آگے ٹک نہیں سکتا۔ اس کی تائید نہ عقل سلیم کرتی ہے اور نہ نقل صحیح۔ حضرت ایوب جس مرض میں مبتلا ہوئے تھے وہ نفرت اور کراہیت پیدا کرنے والا نہیں تھا بلکہ ایسا مرض تھا جس کا اثر جلد پرظاہر نہیں ہوتا جیسے رومینٹزم، امراض مفاصل اور ہڈیوں وغیرہ کے امراض"۔ (کتاب مذکور ،ص ۲۸۱)
تعجب ہے کہ صاحب تدبر قرآن نے بھی بائیبل کی کتاب صِفْر ایوب پر اعتماد کرتے ہوئے ان کی بیماری کے بارے میں بعض نا مناسب باتوں کا ذکر کیا ہے۔
۶۳۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب کی دعا سن لی اور ان کو صحت حاصل کرنے کا یہ طریقہ بتایا کہ وہ اپنا پاؤں زمین پر ماریں جس سے ٹھنڈے پانی کا ایک چشمہ جاری ہو گا۔ اس پانی میں غسل بھی کر لو اور اس کو بی بھی لو۔ حضرت ایوب نے اس ہدایت پر عمل کیا اور صحت یاب ہو گئے۔ ٹھنڈے پانی کے چشمہ کا اس طرح جاری ہونا اللہ کی طرف سے اپنے نبی کے حق میں ایک غیر معمولی (خارق عادت ) چیز کا ظہور تھا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹھنڈے پانی سے غسل بعض بیماریوں میں شفا یابی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
۶۴۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسے اسباب کر دئے کہ ان کا بچھڑا ہوا خاندان بھی ان کے پاس واپس آگیا نیز ان کی بیوی بچوں میں مزید اضافہ ہوا یعنی ان کی تعداد دگنی ہو گئی۔
۶۵۔۔۔۔۔۔ حضرت ایوب جب امتحان میں پورے اترے اور صبر کی اونچی مثال پیش کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمت سے اس طرح نوازا کہ انہوں نے نہ صرف اپنی کھوئی ہوئی چیزیں پالیں بلکہ مزید نعمتیں بھی انہیں حاصل ہو گئیں۔
۶۶۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورہ انبیاء نوٹ ۱۱۴۔
۶۷۔۔۔۔۔۔ قرآن نے یہ صراحت نہیں کی کہ یہ حکم کس کو مارنے کے لیے دیا گیا تھا بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ دوران مرض حضرت ایوب کے صبر میں کوئی مخل ہو رہا تھا اس اور وہ ان ہی کے متعلقین میں سے تھا۔ ہو سکتا ہے وہ انکا غلام رہا ہو اور جب اس نے اللہ کے بارے میں شکوہ شکایت کی باتیں کی ہوں تو حضرت ایوب نے غیرت ایمانی کی بنا پر قسم کھا کر کہا ہو کہ اس کی سرزنش کے لیے وہ اس کو کوڑوں سے ماریں گے لیکن صحت بحال ہونے کے بعد اس غلام نے معافی مانگ لی ہو اور بیماری میں ان کی خدمت بھی کرتا رہا ہو اس لیے حضرت ایوب کے لیے یہ مسئلہ پیدا ہو گیا ہو کہ اگر وہ غلام کو مارتے ہیں تو بدلے ہوئے حالات میں ایک نامناسب صورت ہو گی اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو قسم توڑنا ہو گی۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ان کے لیے یہ تخفیف کر دی کہ وہ تنکوں کا ایک گچھا لے کر اس سے ماریں۔ اس طرح مار بھی نہیں لگے گی اور قسم بھی پوری ہو جائے گی۔ یہ مخصوص صورت حال کے پیش نظر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے نرمی اور آسانی کا معاملہ تھا۔ اس سے یہ بات تو نکلتی ہے کہ اگر ایک شرعی حکم کی تعمیل کسی معقول عذر کی بنا پر پوری طرح نہ ہو سکتی ہو تو کم از کم اس کی ظاہری صورت کو ضرور بر قرار رکھا جائے تاکہ تعمیل حکم کا احساس باقی رہے لیکن اس میں حیلوں کے لیے کوئی دلیل نہیں ہ اور ناجائز کو قرار دینے کے لیے جو بدترین حلیے "شرعی حیلوں " کے نام سے اختیار کئے جاتے ہیں وہ شریعت سے فرار کی بہت بھونڈی شکلیں ہیں۔ اس سلسلہ میں بخری کتاب الْحِیلَ کا مطالعہ کافی مفید ہو گا۔ امام بخاری نے اس میں حدیثوں کے حوالہ سے حیلہ بازی کرنے والوں پر سخت گرفت کی ہے۔
۶۸۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ سب با عمل تھے۔ اپنی قوت اللہ کی عبادت و اطاعت اس کے دین کی دعوت تعلیم و تذکیر اور اس کا بول بالا کرنے میں صرف کی۔
۶۹۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ دیدہ بینا رکھتے تھے۔ واقعات کو بصیرت کی نگاہ سے دیکھتے اور علم و بصیرت کی روشنی میں چلتے۔
۷۰۔۔۔۔۔۔ اس گھر سے مراد آخرت کا گھر ہے۔ حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام جو آسمان نبوت کے روشن ستارے ہیں۔ آخرت کی ایذا دہانی کے لیے خاص کر لئے گئے تھے وہ خود بھی آخرت کی فکر میں ڈوبے رہتے اور ان کا مشن بھی یہی تھا کہ لوگ نجات اخروی کی فکر کریں اور آخرت کی کامیابی کو اپنا نصب العین بنائیں۔
آخرت کی یاد سہانی انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا نہایت اہم اور امتیازی پہلو ہے مگر موجودہ زمانہ میں جو لوگ دعوت اسلامی کو لیکر اٹھے ہیں وہ آخرت کی یاد دہانی کا کچھ زیادہ اہتمام کرتے دکھائی نہیں دیتے۔
۷۱۔۔۔۔۔۔ ملاحظہ ہو سورہ انعام نوٹ ۱۴۸۔
۷۲۔۔۔۔۔۔ ملاحظہ ہو سورہ انبیاء نوٹ ۱۱۶۔
۷۳۔۔۔۔۔۔ یعنی ان نیک بندوں کا جو ذکر ہوا اور ان کے جو احوال سنائے گئے وہ تذکیر (یاد دہانی) کے لیے ہیں۔ محض قصے سنانا مقصود نہیں ہے۔
۷۴۔۔۔۔۔۔ یعنی متقیوں کے استقبال کے لیے جنت کے دروازے کھلے ہوں گے۔
۷۵۔۔۔۔۔۔ یعنی شرمیلی عورتیں جو اپنے شوہروں کے سوا کسی کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنا پسند نہیں کرتیں۔
۷۶۔۔۔۔۔۔ یعنی سب یکساں عمر کی جو ان عورتیں ہوں گی خواہ دنیا میں وہ کتنی ہی بڑی عمر کی رہی ہوں۔ جنت میں نہ کوئی عورت بوڑھی ہو گی اور نہ کوئی مرد۔ دونوں یکساں جوان ہوں گے۔
۷۷۔۔۔۔۔۔ یعنی جنت کی یہ نعمتیں ان کو ہمیشہ ملتی رہیں گی۔ ان کا سلسلہ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔
۷۸۔۔۔۔۔۔ اوپر ان لوگوں کا انجام بیان کیا گیا تھا جو اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کی بندگی میں زندگی گزارتے ہیں۔ اب ایسے لوگوں کا انجام بیان کیا جا رہا ہے جو اس کی عبادت و اطاعت سے منہ ہوڑ کر باغیانہ طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ اس طرح اخروی انجام کے دونوں رخ پیش کر دئے گئے ہیں تاکہ قرآن کا ہر قاری سوچ لے کہ وہ اپنے لیے کس انجام کو پسند کرتا ہے۔
۷۹۔۔۔۔۔۔ یعنی اسی قسم کے دوسرے عذابوں کا انہیں مزہ چکھنا ہو گا۔ انسان اگر غور کرے تو اس کے تصور ہی سے کانپ اٹھے۔
۸۰۔۔۔۔۔۔ ان آیتوں میں جہنم میں داخل ہونے والوں کا ایک منظر پیش کیا گیا ہے۔ سرکش لیڈر اور پیشوا جب جہنم کے قریب پہنچ جائی گے تو دیکھیں گے کہ ان کے پیچھے ان کے پیروؤں (عوام) کا لشکر بھی چلا آ رہا ہے۔ وہ (پیشوا) آپس میں کہیں گے کہ یہ لشکر بھی تمہارے (یعنی ہمارے ) ساتھ جہنم میں گرنے والا ہے۔ ان کے لیے خوش آمدید نہیں یعنی بڑی ذلت کا سامنا ہے۔
۸۱۔۔۔۔۔۔ پیرو (عوام) اپنے پیشواؤں اور لیڈروں کو جواب دیں گے ذلت و رسوائی در اصل تمہارے لئے ہے کیونکہ تم ہی نے ہمیں اس بُرے انجام کو پہنچایا۔ یعنی عوام اپنے گمراہ ہونے کی ذمہ داری اپنے لیڈروں اور مذہبی پیشواؤں پر ڈالیں گے۔
۸۲۔۔۔۔۔۔ پھر وہ اپنے رب سے فریاد کریں گے کہ ہمیں جن لوگوں نے گمراہ کیا تھا، ان کو دوہرا عذاب دے کہ ایک عذاب اپنے گمراہ ہونے کا، دوسرا ہمیں گمراہ کرنے کا۔
۸۳۔۔۔۔۔۔ مراد اہل ایمان ہیں جن کو یہ کافر شریر خیال کرتے رہے کیونکہ ان کے نزدیک دین حق کی دعوت فرقہ بندی کی دعوت تھی اور وہ سمجھتے تھے کہ بت پرستی اور مشرکانہ عقائد کی مخالفت سماج میں پھوٹ ڈالنے کا باعث ہے۔
۸۴۔۔۔۔۔۔ یہ ان کافروں کی طرف سے تعجب کا اظہار ہے کہ آیا ہم نے ان لوگوں کا مذاق بنا لیا تھا جب کہ وہ نیک تھے یا وہ کہیں اور ہیں اور ہماری نگاہیں ان کو دیکھنے سے قاصر ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان جہنمیوں کو اس وقت اس بات کا احساس ہو گا کہ جن لوگوں کو ہم ان کے ایمان لانے کی بنا پر شریر قرار دیتے رہے۔ وہ واقعی شریر نہ تھے اسی لیے آج وہ ہمارے ساتھ اس انجام کو پہنچنے کے لیے موجود نہیں ہیں۔
۸۵۔۔۔۔۔۔ یعنی جہنم میں داخل ہونے کے موقع پر گمراہ لیڈروں اور ان کے پیچھے چلنے والی بھیڑ میں جو بحث و تکرار ہو گی وہ بالکل سچی بات ہے جو لازماً وقوع میں آئے گی اور قرآن اس سے پیشگی آگاہ کر رہا ہے تاکہ لوگ ہوش میں آئیں۔
۸۶۔۔۔۔۔۔ قہار یعنی زبردست جوہر چیز کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے اور کوئی بھی اس کے قابو سے باہر نہیں اور جس کے احکام بزور سب پر نافذ ہوتے ہیں۔
۸۷۔۔۔۔۔۔ اللہ کی یہ معرفت کہ وہ قہار ہے ، کائنات کا مالک ہے اور سب پر غالب ہے دلوں کے اندر اس کا خوف اور تقویٰ پیدا کر دیتی ہے اور اس کی یہ معرفت کہ وہ بخشنے والا ہے بندوں کو اس بات کے لیے آمادہ کرتی ہے کہ وہ اپنے گناہوں کی اس سے معافی مانگیں۔
۸۸۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کی خبر جب کہ وہ واقعات پیش آئیں گے جو اوپر بیان ہوئے ایک زبردست حادثہ کی خبر ہے۔ ایسی خبر جس کو سنتے ہی لوگوں کو چونک جانا چاہیے۔
۸۹۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہارا حال بہت عجیب ہے کہ قیامت کی اتنی زبردست خبر سن کر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے اور نجات کی فکر تمہیں لائق نہیں ہوتی۔
۹۰۔۔۔۔۔۔ مراد وہ واقعہ ہے جو آگے بیان ہوا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اور ابلیس کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم کو سجدہ کریں تو فرشتے حکم کی تعمیل کے لیے فوراً آمادہ ہو گئے لیکن ابلیس پر یہ حکم شاق گزرا اس لیے وہ اس مسئلہ میں فرشتوں سے الجھنے اور اپنی منطق چلانے لگا۔ یہ قصہ علم بالا کا ہے جہاں فرشتوں کے ساتھ اس وقت ابلیس بھی موجود تھا اور ان کے درمیان آدم کو سجدہ کرنے کے مسئلہ میں تکرار ہوئی تھی۔
۹۱۔۔۔۔۔۔ یعنی ملاء اعلیٰ کی یہ خبریں میرے پاس وحی کے ذریعہ پہنچ رہی ہیں ورنہ میں ان واقعات سے بے خبر تھا اور میرے پاس وحی (اللہ کا پیغام) اس لیے پہنچ رہی ہے کہ میں لوگوں کو خبردار کروں۔
۹۲۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ حجر نوٹ ۲۴۔
۹۳۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ حجر نوٹ ۲۷۔
۹۴۔۔۔۔۔۔ یہ سجدہ سجدۂ عبادت سے بالکل مختلف آدم کی صرف تکریم کے لیے تھا جس کا حکم اللہ تعالیٰ ہی نے دیا تھا۔ اس سے بزرگوں اور قبروں کے آ گے تعظیمی سجدہ کرنے کے لیے کوئی سجدہ جواز نہیں کیونکہ اللہ نے نہ بزرگوں کی تعظیم کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیا ہے اور نہ اولیاء کی قبروں کے آگے سجدہ کرنے کا۔
مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ بقرہ نوٹ ۴۷۔
۹۵۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ نوٹ ۴۸۔
۹۶۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ سورہ بقرہ نوٹ ۴۹۔
۹۷۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ میں نے آدم کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پیدا کیا ہے۔ تخلیق آدم کی شان کو واضح کرتا ہے۔ یعنی یہ اللہ کی ممتاز مخلوق ہے جس میں اعلیٰ صلاحیتیں ودیعت ہوئی ہیں اور ایسی فضیلت اسے مخشی گئی ہے کہ گویا وہ اللہ کی تخلیق کا شاہکار ہے۔
یہاں اللہ کے ہاتھوں کا جو ذکر ہوا ہے تو اس کی کوئی تاویل کرنا صحیح نہیں۔ اللہ نے اپنی معرفت جس طور سے بخشی ہے اس کو اسی طرح قبول کرنا چاہیے۔ سلف کا طریقہ یہی تھا کہ کسی بحث میں پڑے بغیر ان باتوں پر جیسی کہ وہ بیان ہوئی ہیں ایمان لاتے تھے اور سلامتی کی راہ یہی ہے۔
۹۸۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ اعرف نوٹ ۱۶۔
۹۹۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ اعراف نوٹ ۱۷۔
۱۰۰۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت تک تجھ پر اللہ کی پھٹکار ہے اور قیامت کا دن تو فیصلہ کا دن ہے۔ اس روز تو قرار واقعی سزا کو پہنچے گا۔
۱۰۱۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ اعراف نوٹ ۱۸۔
۱۰۲۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت کے دن تک۔
۱۰۳۔۔۔۔۔۔ تیری عزت کی قسم یعنی تیری عظمت کی قسم۔
۱۰۴۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ حجر نوٹ ۳۶۔
۱۰۵۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ حجر نوٹ ۳۷۔
۱۰۶۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کا ہر ارشاد سچ، مطابق واقعہ اور حقیقت واقعہ کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
۱۰۷۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ اعراف نوٹ ۲۲۔
یہاں اس واقعہ کو بیان کرنے سے مقصود منکرین قرآن کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں نہ آئیں۔ وہ نہیں چاہتا کہ انسان ہدایت کی راہ اختیار کرے اور منکرین یہ بھی ید رکھیں کہ جس طرح شیطان گھمنڈ کرنے کے نتیجہ میں لعنت کا مستحق ہوا اسی طرح وہ بھی گھمنڈ میں مبتلا ہو کر لعنت ہی کے مستحق ہو سکتے ہیں۔
۱۰۸۔۔۔۔۔۔ یعنی غیب کی خبروں پر مشتمل اللہ کا یہ پیغام جو میں تمہیں پہنچا رہا ہوں اس پر نہ تم سے کسی معاوضہ کا طالب ہوں اور نہ اس کے پیچھے میری کوئی دنیوی غرض ہے بلکہ اپنے فرائض کی ادائیگی اور تمہاری خیر خواہی کے لیے بے لوث ہو کر تبلیغ کی یہ خدمت انجام دے رہا ہوں۔
۱۰۹۔۔۔۔۔۔ یعنی میری باتیں بالکل صاف اور بے لاک ہیں۔ بناوٹ کر کے میں نے کوئی بات نہیں کہی ہے اس لیے جن باتوں کی میں خبر دے رہا ہوں ان میں شک و شبہ کی ذرا بھی گنجائش نہیں۔
۱۱۰۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ قرآن تمام اقوام عالم کے لیے اللہ کی طرف سے یاد دہانی اور نصیحت کے طور پر نازل ہوا ہے لہٰذا کسی گروہی قومی اور مذہبی تعصب میں مبتلا ہوئے بغیر اس کی تذکیر سے فائدہ اٹھاؤ۔
۱۱۱۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن غیب کی جو خبریں دے رہا ہے ان کی حقیقت عنقریب تم پر کھل جائے گی۔ کچھ تو موت کے وقت کھلے گی اور پوری پوری قیامت کے دن جو جلد ہی قائم ہونے والی ہے۔