دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ المُمتَحنَة

تعارف

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

نام:

 

آیت ۱۰ میں ہجرت کر کے مدینہ آنے والی عورتوں کے بارے میں حکم دیا گیا ہے فَامْتَحِنُوْہُنَّ(ان کا امتحان لو کہ واقعی وہ ایمان لائی ہیں یا نہیں ۔)اس مناسبت سے اس سورہ کا نام "اَلْمُمْتَحِنَۃ"ہے یعنی امتحان لینے والی۔ مراد وہ سورہ ہے جس میں امتحان لینے کا حکم دیا گیا ہے ۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور صلح حدیبیہ کے زمانہ میں (غالباً  ۷ ھ) میں نازل ہوئی جبکہ عورتیں مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آ رہی تھیں اور ان کے مہر کی واپسی وغیرہ کے مسائل پیدا ہو گئے تھے جیسا کہ آیت ۱۰ اور ۱۱ سے واضح ہے ۔

 

مرکزی مضمون

 

اسلام کے دشمنوں سے دوستی گانٹھنے اور ذاتی مصلحتوں کی خاطر انہیں جنگی راز وغیرہ کی باتوں سے آگاہ کرنے سے مسلمانوں کو روکنا ہے ۔

 

نظم کلام

 

 آیت ۱ تا ۳ میں دشمنان اسلام سے دوستانہ روابط رکھنے کی سخت ممانعت کی گئی ہے اور ان مسلمانوں کو سخت تنبیہ کی گئی ہے جو اپنے مفاد کی خاطر ان سے خفیہ دوستی کرتی ہیں اور راز کی باتیں ان تک پہنچاتے ہیں ۔

 

آیت ۴ تا ۷ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کا اپنی کافر قوم سے اعلانِ برأت کو اسورۂ حسنہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔

 

آیت ۸ اور ۹ میں واضح کیا گیا ہے کہ غیر حربی کافروں کے ساتھ انصاف اور حسن سلوک کرنے کی ممانعت نہیں ہے ۔

 

آیت ۱۰ تا ۱۲ میں مکہ سے ہجرت کر کے آنے والی عورتوں نیز ان عورتوں کے بارے میں جو مسلمانوں کے نکاح میں تھیں اور ان کے مدینہ ہجرت کر جانے کے بعد مکہ ہی میں رہ گئی تھیں ہدایات دی گئی ہیں ۔

 

آیت ۱۳سورہ کے خاتمہ کی آیت ہے جس میں اسی بات کی تاکید کی گئی ہے جس کی ہدایت آغاز سورہ میں دی گئی تھی۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔۱* تم ان سے دوستی کے روابط بڑھاتے ہو۔۲* حالانکہ وہ اس حق کا انکار کر چکے ہیں جو تمہارے پاس آیا ہے ۔ انہوں نے رسول کو اور تم کو اس بنا پر (اپنے وطن سے) نکال دیا کہ تم اللہ اپنے رب پر ایمان لائے ہو۔ ۳* اگر تم میری راہ میں جہاد اور میری رضا جوئی کے لیے نکلے ہو(تو ان کو دوست نہ بناؤ) تم چھپا کر ان سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے ہو ۵* حالانکہ جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو علانیہ کرتے ہو اسے میں جانتا ہوں ۔ اور جو کوئی تم میں سے ایسا کرے گا وہ راہِ راست سے بھٹک گیا۔ ۶*

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ تم کو پالیں تو تمہارے ساتھ دشمنی کریں گے اور بری طرح تم پر دست درازی اور زبان درازی کریں گے اور چاہیں گے کہ تم کافر ہو جاؤ۔۷*

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری رشتہ داریاں اور تمہاری اولاد قیامت کے دن تمہارے کچھ بھی کام نہیں آئے گی۔ ۸* وہ تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا اور تم جو کچھ کرتے ہو اسے اللہ دیکھ رہا ہے ۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ تم لوگوں کے لیے ابراہیم اور اس کے ساتھیو ں میں بہتر ین نمونہ ہے ۔۹* جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو بالکل بری ہیں ۔ ہم نے تم سے کفر(انکار) کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت اور بیزاری ظاہر ہو گئی جب تک کہ تم اللہ وحدہٗ پر ایمان نہ لاؤ۔۱۰* مگر ابراہیم کا اپنے باپ سے یہ کہنا(اسوہ نہیں ہے) کہ میں آپ کے لیے مغفرت کی دعا کروں گا۔۱۱* اور میں آپ کے لیے اللہ کی طرف سے کوئی اختیار نہیں رکھتا۔۱۲* اے ہمارے رب ہم نے تیرے ہی اوپر بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف رجوع ہوئے اور تیرے ہی طرف لوٹنا ہے ۔ ۱۳*

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ اے ہمارے رب! ہمیں کافروں کے لیے فتنہ نہ بنا۔۱۴* اور اے ہمارے رب ہمیں معاف فرما۔ بلا شبہ تو غالب اور حکیم ہے ۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یقیناً ان لوگوں میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے ۔ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور روزِ آخر کا امیدوار ہو۔۱۵* اس سے جو روگردانی کرے تو اللہ بے نیاز ہے لائق ستائش ۔۱۶*

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ عجب نہیں کہ اللہ تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان جن سے تمہاری دشمنی ہے دوستی پیدا کر دے ۔۱۷* اللہ بڑی قدرت والا ہے اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ ۱۸*

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تمہیں صرف ان لوگوں سے دوستی کرنے سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی ہے اور تمہیں تمہارے گھرو ں سے نکالا ہے اور تمہارے نکالنے میں مدد کی ہے ۔ ۱۹* اور جو لوگ ان سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں ۔ ۲۰*

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اے ایمان والو ! جب مومن عورتیں ہجرت کر کے تمہارے پاس آئیں تو ان کی جانچ کر لو۔۲۱* اللہ ان کے ایمان کو بہتر جانتا ہے ۔۲۲* پھر اگر تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ مومن ہیں تو انہیں کفار کی طرف واپس نہ کرو۔ ۲۳* نہ وہ ان (کفار) کے لیے حلال ہیں اور نہ وہ ان کے لیے حلال۔۲۴* اور انہوں نے (کافر شوہروں نے) جو کچھ خرچ کیا تھا وہ انہیں ادا کر دو۔۲۵* اور ان عورتوں سے نکاح کرنے میں تم پر گناہ نہیں جب کہ تم ان کے مہر ان کو ادا کر دو۔۲۶* اور کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں روکے نہ رکھو۔۲۷* جو کچھ تم نے خرچ کیا تھا اس کا تم (کفار سے) مطالبہ کرو اور جو کچھ انہوں نے خرچ کیا تھا اس کا وہ (تم سے) مطالبہ کریں ۔ ۲۸* یہ اللہ کا فیصلہ ہے جو تمہارے درمیان وہ کر رہا ہے اور اللہ علم والا حکمت والا ہے ۔ ۲۹*

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر تمہاری بیویوں کے مہر میں سے کچھ کافروں کی طرف رہ جائے اور پھر تمہاری باری آئے تو جن کی بیویاں چلی گئی ہیں ان کو اتنا ادا کر دو جتنا انہوں نے خرچ کیا ہے ۔ ۳۰ اور اللہ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اے نبی! جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لیے آئیں اس بات پر کہ وہ کسی چیز کو اللہ کا شریک نہ ٹھہرائیں گی، چوری نہ کریں گی، زنا نہ کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی، اپنے ہاتھ پاؤں کے آگے کوئی بہتان نہ گھڑیں گی اور کسی معروف بات میں تمہاری نافرمانی نہیں کریں گی تو ان سے بیعت لے لو۔۳۱* اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کرو۔ ۳۲* یقیناً اللہ مغفرت فرمانے والا رحم فرمانے والا ہے۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اے ایمان والو! ان لوگوں کو دوست نہ بناؤ جن پر اللہ کا غضب ہوا۔ ۳۳* وہ آخرت سے مایوس ہو چکے ہیں جس طرح کفار قبر والوں سے مایوس ہیں ۔ ۳۴*

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔  اللہ کا دشمن سے مراد اس کے دین کا دشمن ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔ ان کو اپنا دشمن ہی سمجھنا چاہیے اور ان کے ساتھ وہی معاملہ کرنا چاہیے جو ایک دشمن قوم کے ساتھ روا ہے ۔ نہ تو اسلام دشمن لوگوں کے ساتھ قلبی محبت رکھی جاسکتی ہے اور نہ ان کی تشدد پسندی کے مقابلہ میں نرمی برتی جاسکتی ہے اور نہ کوئی ایسا کام کیا جاسکتا ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے مقابلہ میں کافروں کے مفاد میں جاتا ہو۔ خاص طور سے جنگی کارروائی کے دوران مسلمانوں کو ان کے معاملہ میں بہت محتاط ہونا چاہیے ۔

 

کافروں کو دوست نہ بنانے کی ہدایت کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ آل عمران نوٹ ۴۱ اور سورۂ مائدہ نوٹ ۱۶۴۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ ان مسلمانوں پر گرفت ہے جو اس مصلحت سے کہ مکہ میں ان کے عزیزوں کا تحفظ ہو سکے گا۔ مشرکین مکہ کے ساتھ ظاہری طور سے دوستانہ روابط رکھے ہوئے تھے ۔ یہ معاملہ اگرچہ وہ بدنیتی کے ساتھ نہیں کر رہے تھے لیکن تھی ان کی یہ کمزوری اور اس کا اثر کافروں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں پر پڑسکتا تھا اس لیے سختی کے ساتھ اس سے روکا گیا۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ کفّارِ مکہ کی دشمنی کا حال بیان ہوا ہے ہ وہ دینِ حق کے منکر ہیں اور ظلم و زیادتی پر ایسے اتر آئے ہیں کہ رسول کو نیز مسلمانوں کو مکہ سے ہجرت کر جانے پر مجبور کیا۔ اس کی وجہ صرف یہ ہوئی کہ مسلمان اللہ ہی کو اپنا رب مانتے تھے اور انہوں نے اس کے سوا کسی کو اپنا رب ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ ایمان ان کی نظروں میں جرم تھا اور جو لوگ ایمان کو جرم قرار دیں وہ کس طرح دوستی کے لائق ہو سکتے ہیں ۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جب تم اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہو اور خالصۃً اسی کی رضا چاہتے ہو تو تمہیں کافروں کے ساتھ اپنے رویہ میں بے لاگ ہونا چاہیے ۔ ان کے ساتھ کسی قسم کی رعایت کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ بات عمومیت کے ساتھ کہی گئی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کسی فرد واحد کا قصہ نہیں تھا بلکہ متعدد افراد سے یہ کمزوری سرزد ہوئی تھی اور وہ کسی راز کو پہنچانے ہی کی بات نہیں تھی بلکہ مختلف طریقوں سے دوستی کو نبھانے کی بات تھی۔ رہا حاطب بن ابی بلتعہ کا قصہ جو حدیث میں بیان ہوا ہے تو وہ بھی اسی ذیل میں آتا ہے اس لیے راویوں نے اس آیت کے شانِ نزول کے طور پر اس کو بیان کر دیا ہے ۔ یہ واقعہ معاہدۂ حدیبیہ کے ٹوٹ جانے کے بعد پیش آیا تھا اور ہے سورہ اس سے پہلے نازل ہو چکی تھی۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایک صحابی حاطب بن بلتعہ نے جن کو ہجرت کا بھی شرف حاصل تھا اور جنگِ بدر میں شرکت کا بھی ، کفارِ مکہ کو خط لکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پر چڑھائی کی تیاری کر رہے ہیں ۔ یہ خط انہوں نے ایک بوڑھی عورت کو دے کر روانہ کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ اس کی اطلاع ہوئی تو آپ ؐ نے حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت مِقداد کو اس کے تعاقب میں روانہ کیا اور فرمایا کہ روضہ خاخ کے مقام پر ایک عورت ملے گی۔ اس کے پاس ایک خفیہ خط ہے جو لے آنا۔ ان حضرات نے گھوڑے دوڑا کر اس عورت کو پکڑ لیا اور اس کے پاس سے خط حاصل کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ آپ نے حاطب کو بلا بھیجا انہوں نے عرض کیا:

 

"یا رسول اللہ آپ میرے بارے میں جلدی نہ فرمائیں ۔ میں قریش کے خاندان سے نہیں ہوں اور جو مہاجرین آپ کے ساتھ ہیں ان کی مکہ میں رشتہ داریاں ہیں اور وہ ان کے گھر والوں اور ان کے مال کا خیال رکھتے ہیں ۔ چونکہ میری ان کے ساتھ رشتہ داری نہیں ہے اس لیے میں نے چاہا کہ ان کے ساتھ بھلائی کروں تاکہ وہ میرے رشتہ داروں کا خیال رکھیں ۔ میں نے یہ کام کفر اور ارتداد کی وجہ سے نہیں کیا۔"

 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس بات کو سچ مان لیا اور ان کی عظیم قربانیوں کے پیشِ نظر جو ان کے مخلص مومن ہونے کا ثبوت تھیں ان سے درگزر فرمایا۔ (دیکھئے بخاری کتاب التفسیر سورۃ الممتحنہ)

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔  اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے ساتھ دوستی گانٹھنے کو گمراہی قرار دیا گیا ہے جس سے اس گناہ کی شدت واضح ہوتی ہے موجودہ دور کے ان مسلمانوں کو جو اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے خلاف ان کے دشمنوں سے جا ملتے ہیں ان کو اپنا چہرہ اس آیت کے آئینہ میں دیکھ لینا چاہیے ۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ان دشمنان اسلام کا حال یہ ہے کہ اگر مسلمان کہیں ان کی گرفت میں آ گئے تو انہیں پھر بخشیں گے نہیں بلکہ ان پر ظلم و زیادتی کریں گے اور انہیں قلبی اذیت پہنچائیں گے اور ان کی کوشش یہی ہوگی کہ مسلمان کا فر بن جائیں تو ان کے ان بُرے عزائم کو دیکھتے ہوئے تم ان کے لیے نرم چارہ کیوں بنو؟

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اگر کافروں سے تمہاری رشتہ داریاں ہیں تو وہ اسلام سے زیادہ تمہیں عزیز نہیں ہونی چاہئیں کہ ان کو بچانے کے لیے اسلام کے مفاد کو قربان کرو۔ یہ رشتہ داریاں قیامت کے دن تمہارے کچھ بھی کام آنے والی نہیں ۔ اس روز جو چیز کام آئے گی وہ اسلام کے لیے تمہارے دل کا خلوص اور تمہاری قربانیاں ہوں گی۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔  اس سے واضح ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام پر ان کے اعلانِ برأت سے پہلے کچھ لوگ ایمان لائے تھے اور ان کے ساتھیوں نے بہترین نمونہ پیش کیا تھا۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔  حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے رفقاء کا یہ اعلان اپنی مشرک قوم سے اعلانِ حق کی حجت قائم ہو جانے کے بعد کیا گیا۔اس کے ایک ایک لفظ سے بیزاری کا اظہار ہو رہا ہے اور پھر جس بے باکی کے ساتھ یہ اعلان کیا گیا  وہ عزیمت اور بلند حوصلگی کی نہایت  اعلیٰ مثال ہے ۔

 

یہاں اس مثال کو پیش کرنے سے مقصود اس بات کی طرف متوجہ کرنا ہے کہ مسلمان مشرکین سے جو اسلام کے دشمن بنے ہوئے ہیں دوستی کی پینگیں نہ بڑھائیں ۔

 

موجودہ دور کے مسلمان اگر مشرک قوموں کو بے لاگ طریقہ پر توحید کی دعوت دیں اور شرک کے باطل ہونے کو واضح کریں تو ان کا موقف صحیح ہوگا اور کتنے ہی گمراہ لوگوں پر ہدایت کی راہ بھی کھلے گی۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی حضرت ابراہیم کا اپنے مشرک باپ کے لیے مغفرت (معافی) کی دعا کرنا اسوۂ حسنہ نہیں ہے کہ تم اس کی تقلید کرو۔ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کرنے کی قرآن نے ممانعت کی ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے استغفار کے بارے میں سورۂ توبہ (آیت ۱۱۴) میں وضاحت کی ہے کہ انہوں نے اپنے باپ سے اس کا وعدہ کیا تھا اس لیے اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہے لیکن جب ان پر یہ بات آشکارا ہو گئی کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس کے لیے استغفار کرنا چھوڑ دیا۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ توبہ نوٹ ۲۰۹، ۲۱۰ اور ۲۱۱۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔  اللہ کے آگے حضرت ابراہیم جیسی جلیل القدر ہستی بھی کوئی اختیار نہیں رکھتی تھی تو اور کون ہو سکتا ہے جو کسی کو بخشوا کر چھوڑے ؟

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ وہ دعا ہے جو حضرت ابراہیم نے اعلانِ برأت کے موقع پر کی تھی۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی کافروں کو اتنی ڈھیل نہ دے کہ وہ ہم کو تختۂ مشق بنائیں اور پھر اس مغالطہ میں رہیں کہ اگر یہ لوگ حق پر ہوتے تو ظلم کا نشانہ نہ بنتے ۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اس اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق ان ہی لوگوں کو ہو سکتی ہے جو اللہ سے اجر کی توقع رکھنا ہو اور آخرت کا طالب ہو۔جو لوگ دنیا کے مفاد کو عزیز رکھیں گے وہ یہ حوصلہ نہیں دکھاسکتے ۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اگر تم ہدایت سے روگردانی کرو تو اللہ کا کچھ بگڑنے والا نہیں ۔ اس کو کسی چیز کی حاجت نہیں ہے اور وہ اپنی ذات میں حمد کا مستحق ہے ۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اسلام کے دشمنوں کو دوست نہ بنانے کی جو ہدایت دی گئی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی اسلام دشمنی کبھی ختم ہو ہی نہیں سکتی ۔ ہو سکتا ہے انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو اور اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے اور وہ تمہارے دوست بن جائیں ۔ چنانچہ جب مکہ فتح ہوا تو اسلام اور مسلمانوں کے یہی دشمن حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے اور مسلمانوں کے دوست بن گئے ۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ ان غیر مسلموں کے ساتھ جو جارح نہیں ہیں یعنی اسلام اور مسلم دشمنی کا مظاہرہ نہیں کرتے ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کے معاملہ میں انصاف کا رویہ اختیار کرنے سے روکا نہیں گیا ہے یعنی غیر مسلموں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئیں ، ان کی تکلیف اور مصیبت کو دور کرنے کی کوشش کریں جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے قحط کی مصیبت سے عام باشندگانِ مصر کو بچانے کا سامان کیا تھا۔ رفاہی کاموں سے ان کو بھی مستفید ہونے کا موقع دیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ ان کی جان، مال اور آبرو پر دست درازی نہ کریں اور شرعی حدود میں رہتے ہوئے ان کے ساتھ جو بھلائی ممکن ہو کریں ۔ اسی طرح ان سے جو معاملات طے ہوں ان میں انصاف کا رویہ اختیار کریں ۔ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت اس کا مصداق خزاعہ جیسے قبیلے تھے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف نہ جارحانہ کار روائی کی تھی اور نہ اس معاملہ میں قریش کا ساتھ دیا تھا۔

 

واضح رہے کہ اس آیت میں ان غیر مسلموں کو جو جارح Aggressive نہیں ہیں اپنا دلی دوست بنانے اور اسلام اور مسلمانوں کے مصالح کے خلاف ان سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے بلکہ ان کے ساتھ بھلائی کا سلوک کرنے، اخلاقی حقو ق کو ادا کرنے اور ان کے معاملہ میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی اجازت اور ہدایت دی گئی ہے ۔ اس لیے بات کو اپنے معروف حدود میں رکھنا ضروری ہے ۔ اس سلسلہ میں دوسری متعلقہ آیتیں بھی پیش نظر رہنی چاہئیں ۔ مثلاً آل عمران ۲۸ (نوٹ ۴۱) سورۂ مائدہ آیت ۵۱ (نوٹ ۱۶۴) سورۂ توبہ آیت ۲۳ (نوٹ ۴۴)۔

 

اس سے موجودہ دور کی غیر اسلامی ریاستوں میں رہنے والے مسلمانوں کو یہ رہنمائی ملتی ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے اور وہ ان کے ساتھ کیا برتاؤ کریں ۔ خاص طور سے یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ جن غیر مسلموں کا طرزِ عمل اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جارحانہ نہیں ہے ان پر کسی قسم کی زیادتی روا نہیں ہے ۔ البتہ اگر کسی غیر مسلم قوم کا رویہ بحیثیت قوم جارحانہ ہے تو اس کے ساتھ پالیسی اختیار کرنے میں پوری قوم کے رویہ ہی کو پیش نظر رکھا جائے گا نہ کہ افراد کے طرزِ عمل کو۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی وہ قبیلے بھی جنہوں نے تمہارے خلاف کارروائی کرنے میں قریش کی پشت پناہی کی ہے ۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔  واضح ہوا کہ اسلام دشمن عناصر سے جو مسلمانوں پر مظالم ڈھاتے رہتے ہیں دوستی کے روابط قائم کرنا بہت بڑا گنا ہے ۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔  صلح حدیبیہ میں یہ بات طے ہوئی تھی کہ مکہ سے اگر کوئی شخص مدینہ چلا جائے تو اسے واپس کر دیا جائے گا لیکن عورتوں کے بارے میں کوئی بات طے نہیں ہوئی تھی اور عورتوں کے مسئلہ کی نوعیت بھی مختلف تھی اس لیے طے شدہ دفعہ کا اطلاق عورتوں پر نہیں ہو سکتا تھا۔جب عورتیں مسلمان ہو کر مدینہ آنے لگیں تو ان مہاجر مسلمان عورتوں کے بارے میں سوال پیدا ہوا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے ۔ اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ احکام نازل فرمائے یہ مسلمان مہاجر عورتوں کے مسائل کا حل بھی تھا اور کافروں کے ساتھ انصاف کے تقاضوں کو بھی پورا کرتا تھا۔

 

اس سلسلہ میں سب سے پہلے ان مسلمان عورتوں کو پرکھنے کا حکم دیا گیا جو ہجرت کر کے مدینہ آ جائیں ۔ یعنی یہ دیکھ لیا جائے کہ کیا واقعی انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور ان کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے یا کسی دنیوی مفاد اور اپنی ذاتی غرض سے وہ مدینہ آئی ہیں ۔ اگر پہلی صورت ہے تو انہیں کافروں کی طرف لوٹا یا نہ جائے اور اگر دوسری صورت ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کو روک لیا جائے ۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ان کے دلوں کا حال تو اللہ ہی کو معلوم ہے اس لیے ان کے ایمان کو بہتر طور پر جاننے والا وہی ہے ۔ تمہارا کام قرائن و شواہد کی بنا پر رائے قائم کرنا ہے ۔ اس سے زیادہ ذمہ داری تم پر نہیں ہے ۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی تحقیق کرنے کے بعد تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ واقعی ایمان لائی ہیں تو ان کو کافروں کی طرف نہ لوٹاؤ بلکہ اپنے معاشرہ (سوسائٹی) میں انہیں جگہ دو۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ایسی مسلمان عورتوں کو کافروں کی طرف لوٹانا اس لیے صحیح نہیں کہ وہ نہ کافروں کے لیے حلال ہیں اور نہ کافر ان کے لیے حلال ہیں ۔ یہ حکم اپنی جگہ ایک اصولی حکم ہے جس کی رو سے نہ کوئی مسلمان عورت کافر کے نکاح میں رہ سکتی ہے اور نہ کسی کا فر کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ مسلمان عورت کو اپنے نکاح میں رکھے ۔ اگر بیوی اسلام قبول کر لے اور شوہر اسلام قبول نہ کرے تو دونوں کے درمیان تفریق عمل میں آئے گی اور عدت گزارنے کے بعد بیوی دوسرا نکاح کرنے کے لیے آزاد ہو جائے گی۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ان مسلمان عورتوں کے کافر شوہروں نے جو مہر ادا کئے تھے وہ ان کو لوٹا دو۔ یہ ہدایت صلح حدیبیہ کے پیش نظر انصاف کے تقاضے کو پورا کرنے کے لیے دی گئی تھی۔ مہر لوٹا نا مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری تھی۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ان مسلمان مہاجر عورتوں سے مدینہ کے مسلمان نکاح کرسکتے ہیں ۔ بشرطیکہ وہ نئے مہر کے ساتھ ان سے نکاح کریں ۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جو کافر عورتیں تمہارے نکاح میں چلی آ رہی ہیں انہیں اب چھوڑ دو۔ روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی دو بیویوں کو جو مکہ میں رہ گئی تھیں اور ایمان نہیں لائی تھیں اس آیت کے نزول کے بعد چھوڑ دیا۔ یہ اصولی ہدایت ہے لہٰذا اگر کوئی شخص مسلمان ہو گیا ہو اور اس کی بیوی کافر ہو تو وہ اسے اپنے نکاح میں نہیں رکھ سکتا الا یہ کہ وہ اہلِ کتاب (یہودی یا نصرانی) ہو (دیکھئے سورۂ مائدہ آیت ۵) کافر عورتوں میں مشرک عورتیں بھی شامل ہیں اور ملحد عورتیں بھی۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی مسلمانوں کی جو بیویاں مکہ میں رہ گئیں اور انہوں نے ان کے کافر ہونے کی بنا پر انہیں چھوڑ دیا تو جو مہر انہوں نے ادا کئے تھے ان کی واپسی کا مطالبہ مسلمان کافروں سے کریں اور جو مسلمان عورتیں ہجرت کر کے مدینہ آ جائیں ان کے کافر شوہر جو مکہ میں رہ گئے ہوں اپنے مہر کا مطالبہ مسلمانوں سے کریں ۔ اس طرح مہر کی واپسی کے بارے میں مسلمانوں اور کافروں دونوں کی ذمہ داریاں مساوی قرار پاتی ہیں اور ادائیگی کا یہ نظم قومی یا ریاستی سطح پر ہونا چاہیے ۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی صلح حدیبیہ کے تعلق سے مہاجر مسلمان عورتوں کی واپسی کا جو مسئلہ پیدا ہوگیا تھا اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے ان احکام کی شکل میں فرما دیا ہے اور اس کا فیصلہ علم و حکمت پر مبنی ہے لہٰذا فریقین کے درمیان اب نزاع کی کوئی صورت باقی نہیں رہنی چاہیے ۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اگر صورت یہ پیش آ جائے کہ جن کافروں کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے ان کے پاس مدینہ کے مسلمانوں میں سے کسی کی کافر بیوی رہ جائے یا مدینہ آ کر واپس چلی جائے اور نکاح فسخ ہو جانے کی بنا پر اس کا مہر کفار مدینہ کے مسلمان شوہر کو نہ لوٹائیں تو جب تمہاری باری آئے اور کسی مسلمان خاتون کے مدینہ ہجرت کر کے آ جانے کی بنا پر اس کا مہر مکہ کو لوٹانا ہو تو اس کا ایڈجسٹمنٹ(Adjustment) اس طرح کر لیا جائے کہ مہر کی جو رقم کفار سے وصول طلب ہو اس کے بقدر رقم اس مہر میں سے مدینہ کے مسلمان شوہر کو ادا کر دی جائے ۔

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔  اوپر مہاجر عورتوں کو جانچ لینے کی ہدایت کی گئی تھی اس آیت میں اس پسِ منظر میں عورتوں سے بیعت لینے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ جس جاہلی معاشرہ سے نکل کر وہ اسلامی معاشرہ میں داخل ہو رہی ہیں اس کی برائیوں کو وہ اپنے ساتھ نہ لائیں اور اپنی زندگیوں کو اور اسلامی معاشرہ کو ان سے پاک رکھیں ۔ اس کی ضرورت خاص طور سے اس لیے پیش آئی کہ دوسری مومن خواتین کی طرح ان کو اسلامی سوسائٹی میں رہنے اور اپنی تربیت کرنے کے مواقع نہیں ملے تھے ۔ نیز جو خواتین پہلے اسلام میں داخل ہوئی تھیں وہ نیکی میں سبقت کرنے والی خواتین تھی لیکن بعد میں اسلام میں داخل ہونے والی خواتین ان کے ہم پلہ نہیں ہو سکتی تھیں ۔

 

یہ بیعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ہاتھ پر کرنے کے لیے تھی اور جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا ایک خاص موقع پر مومن عورتوں سے بیعت لینے کی ہدایت کی گئی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس بیعت کا خاص ہونا اس آیت سے بخوبی واضح ہے ۔ چنانچہ اس میں ارشاد ہوا ہے کہ : وَلاَ یعْصِینَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ (وہ معروف میں تمہاری نافرمانی نہیں کریں گی) اور جو مقام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے وہ کسی اور کا نہیں ہو سکتا اس لیے کسی اور کے ہاتھ پر گناہوں سے بچنے وغیرہ کی بیعت کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا اور تصوف کی راہ سے جو پیری مریدی اسلام میں داخل کر دی گئی ہے اور ایک پیر ان مرید سے جو بیعت لیتا ہے وہ سب بدعت ہے ۔ اس کی مزید تفصیل کے لیے دیکھئے سورۂ فتح نوٹ ۱۷۔

 

حدیث میں آتا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے بیعت لیتے تو ان کے ہاتھ کو چھوتے نہیں تھے بلکہ فرما دیتے میں نے تم سے بیعت لے لی۔(بخاری کتاب التفسیر)

 

اس بیعت میں شرک سے بچنے کو اولیت دی گئی ہے ۔ جاہلیت اور جہالت کے زیر اثر عورتوں میں شرک اور مشرکانہ توہمات بہ آسانی راہ پا جاتے ہیں اس لیے انہیں اس پارے میں چوکنا رہنا چاہیے ۔

 

چوری کی عادت بھی عورتوں میں ہوتی ہے اور وہ مردوں کو اپنی طرف مائل کر کے زنا کی مرتکب بھی ہوتی رہتی ہیں ۔ اس لیے مسلمان عورتوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ ان بڑی بڑی برائیوں میں ملوث نہ ہو جائیں ۔

 

قتلِ اولاد کی ایک شکل یہ تھی کہ مفلسی کے ڈر سے بچوں کو قتل کر دیا جاتا تھا اور دوسری شکل یہ تھی کہ مشرکانہ وہم پرستی کی بنا پر اولاد کو بتوں یا دیوی دیوتاؤں کی بھینٹ چڑھایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ایک تیسری شکل بھی تھی جو اس زمانہ میں بھی موجود ہے کہ ولد الزنا (حرام اولاد) کا گلا گھونٹ کر اسے کہیں پھینک دیا جائے ۔ یہ بھی جان کا قتل ہے جو صریح حرام ہے ۔ اپنے ہاتھ اور پاؤں کے آگے بہتان گھڑنے سے مراد دوسرے کی اولاد کو اپنے شوہر کی طرف منسوب کرنا ہے ۔ اس کی صورت یہ ہے کہ ناجائز حمل ٹھہر جانے پر وہ اسے اپنے شوہر کی طرف منسوب کرے ۔

 

معروف بات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ کرے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کی اطاعت معروف کے ساتھ مشروط ہے کیونکہ کوئی نبی کبھی غیر معروف کا حکم دیتا ہی نہیں اور قرآن کریم میں اطاعتِ رسول کا حکم(اَطیعو الرسول)،بلا شرط دیا گیا ہے اس لیے یہاں اس کو شرط کے معنی میں لینے کی کوئی وجہ نہیں ۔ اوپر متعدد منکرات سے بچنے کا عہد لینے کی ہدایت ہوئی تھی۔ اب یہ جامع بات کہی گئی ہے جس میں عبادت و اطاعت کے تمام امور آ جاتے ہیں جن کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں ۔ نماز، زکوٰۃ وغیرہ سب اس معروف میں داخل ہیں ۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ان کے پچھلے قصوروں کے لیے اللہ سے بخشش کی دعا کرو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بخشش کی یہ دعا ان مومن عورتوں کے لیے تسکینِ قلب کا سامان تھی۔

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد یہود ہیں جن پر اللہ کا غضب ہوا۔ ان کو دوست بنانے کی ممانعت بھی اسی طرح ہے جس طرح کافروں کو دوست بنانے کی ممانعت ہے ۔ اس ہدایت کے پیشِ نظر آج مسلمانوں کو اسرائیل سے تعلقات کے معاملہ میں محتاط رہنا چاہیے اور ان سے دوستی کے روابط ہرگز نہیں قائم کرنا چاہیے ۔

 

۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جس طرح کفار مردوں کے زندہ ہونے کی طرف سے مایوس ہیں ۔ اسی طرح یہود اگرچہ آخرت کے قائل ہیں لیکن اپنے کرتوتوں کی وجہ سے آخرت پر یقین اور اس کی کامیابی کی طرف سے بالکل مایوس ہیں ۔ وہ آرزوؤں اور تمناؤں کا اظہار ضرور کرتے ہیں لیکن دل ان کے آخرت کی طرف سے پھیرے ہوئے ہیں اور وہ دنیا پرستی میں بالکل غرق ہیں ۔ اسی لیے قرآن میں ان کے دعوے آخرت کو بے حقیقت قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا:

 

قُلْ اِنْ کَانَتْ لَکُمُ الدَّارُ الْآخِرَۃُ عِنْدَ اللّٰہِ خَالِصَۃً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُاالْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ۔وَلاَ یتَمَنَّوْ نَہٗ اَبَداً بِّمَا قَدَّمَتْ اَیٰدِیہِمْ وَاللّٰہُ عَلِیمٌ بّالظَّالِمِینَ۔ "ان سے کہو اگر آخرت کا گھر تمام لوگوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے لیے مخصوص ہے تو موت کی تمنا کرو اگر تم (اپنے دعوے میں ) سچے ہو مگر انہوں نے جو کچھ آگے بھیجا ہے اس کی وجہ سے وہ ہرگز اس کی تمنا نہ کریں گے ۔ اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے ۔"(بقرہ: ۹۴۔۹۵)۔ 

 

٭٭٭٭٭