سورہ کا آغاز والنازعات سے ہوا ہے جس کی مناسبت سے اس سورہ کا نام النازعات رکھا گیا ہے۔ یہ لفظ ہواؤں کی صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔
یہ سورہ مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ سورہ نبا کے متصلاً بعد نازل ہوئی ہو گی
اس سورہ کا موضوع قیامت کا وقوع اور جزائے عمل کے لئے انسان کا دوبارہ اُٹھایا جانا ہے۔ پس منظر خاص طور سے وہ سرکش اور فرعون صفت لوگ ہیں جو اپنی دنیا بنانے میں مست رہتے ہیں۔
آیت ۱ تا ۵ میں روز جزا پر ہواؤں کو شہادت میں پیش کیا گیا ہے۔ آیت ۶ تا ۱۴ میں حادثہ قیامت کی تصویر پیش کرتے ہوئے منکرین کے اعتراض کا ذکر کیاگیا ہے۔ آیت ۱۵ تا ۲۶ میں حضرت موسیٰ کا مختصراً بیان ہوا ہے کہ کس طرح فرعون ان کی دعوت کو رد کرنے کے نتیجہ میں عبرتناک انجام سے دوچار ہوا۔ یہ گویا مکافات عمل پر تاریخ سے استشہاد ہے۔
آیت ۳۴ تا ۴۱ میں واضح کیا گیا ہے کہ جس دن قیامت کا حادثہ پیش آئے گا ، سرکشوں اور دنیا پرستوں کا انجام کیسا برا ہو گا۔ اور اﷲ سے ڈرنے والوں کا انجام کتنا خوشگوار ہو گا۔
آیت ۴۲ تا ۴۶ میں منکرین قیامت کے اس سوال کا جواب دیا گیا ہے کہ آخر قیامت آئے گی کب ؟
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم ۱*ہے ان ( ہواؤں) کی جو (بادلوں کو ) شدت کے ساتھ گھسیٹتی ہیں۔
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کی جو نرم نرم چلتی ہیں۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کی جو سبک رفتار ہیں۔ ۲*
۴۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر جو ( تعمیل حکم میں) بازی لے جاتی ہیں۔
۵۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اور ایک کام ( بارش ) کا انتظام کرتی ہیں۔ ۳*
۶۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔جس دن زلزلہ کا شدید جھٹکا لگے گا۔
۷۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے پیچھے دوسرا جھٹکا آئے گا۔ ۴*
۸۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔کتنے دل اس دن دھڑک رہے ہوں گے۔ ۵*
۹۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔نگاہیں ان کی پست ہوں گی۔
۱۰۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔کہتے ہیں کیا ہم پھر پہلی حالت میں لوٹائے جائیں گے ؟ ۶*
۱۱۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔کیا اس وقت جب کہ ہماری ہڈیاں بوسیدہ ہو چکی ہوں گی ؟ ۷*
۱۲۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔کہتے ہیں یہ لوٹنا بڑے خسارہ کا ہو گا۔ ۸*
۱۳۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تو بس ایک ڈانٹ ہو گی۔ ۹*
۱۴۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔کہ وہ یکایک میدان میں آ موجود ہوں گے۔ ۱۰*
۱۵۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔کیا تمھیں موسیٰ کے واقعہ کی خبر پہنچی ہے۔ ۱۱*
۱۶۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔جب کہ اس کے رب نے اسے طویٰ کی مقدس وادی میں پکارا۔ ۱۲*
۱۷۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔فرعون کے پاس جاؤ، وہ سرکش ہو گیا ہے۔ ۱۳*
۱۸۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس سے کہو کیا تو چاہتا ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے۔ ۱۴*
۱۹۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اور میں تجھے تیرے رب کی راہ دکھاؤں کہ تو اس سے ڈرنے لگے۔ ۱۵*
۲۰۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر (موسیٰ نے ) اس کو بڑی نشانی دکھائی۔ ۱۶*
۲۱۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔مگر اس نے جھٹلایا اور نہ مانا۔
۲۲۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر پلٹا اور مخالفت میں سرگرم ہو گیا۔ ۱۷*
۲۳۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اور لوگوں کو جمع کر کے اعلان کیا۔
۲۴۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اور کہا کہ میں ہوں تمہارا سب بے بڑا رب۔ ۱۸*
۲۵۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔بالآخر اﷲ نے اسے آخرت اور دنیا کے عذاب میں پکڑ لیا۔
۲۶۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔بے شک اس میں بڑی عبرت ہے ہر اس شخض کے لئے جو ڈرے۔ ۱۹*
۲۷۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔کیا تم لوگوں کی تخلیق زیادہ دشوار ہے یا آسمان کی ؟ اس نے اس کو بنایا۔ ۲۰*
۲۸۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی چھت بلند کی ۲۱* اور اس کو درست اور ہموار کیا۔ ۲۲*
۲۹۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی رات ڈھانک دی اور اس کا دن نکالا۔ ۲۳*
۳۰۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد زمین کو بچھایا۔ ۲۴*
۳۱۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اس میں سے اس کا پانی اور چارہ نکالا۔
۳۲۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اور پہاڑ اس میں گاڑ دئے۔
۳۳۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔تاکہ تمہاری اور تمہارے مویشیوں کی زندگی کا سامان ہو۔ ۲۵*
۳۴۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر جب وہ عظیم ہنگامہ برپا ہو گا۔ ۲۶*
۳۵۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔جس دن انسان اپنے کئے کو یاد کرے گا۔ ۲۷*
۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور دوزخ ہر دیکھنے والے کے لئے بے نقاب کر دی جائے گی۔
۳۷۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔تو جس نے سرکشی کی ہو گی۔ ۲۸*
۳۸۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی ہو گی۔ ۲۹*
۳۹۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہو گی۔
۴۰۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔البتہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا ہو گا ۳۰* اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکا ہو گا۔
۴۱۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔جنت اس کا ٹھکانا ہو گی۔
۴۲۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ (اے نبی!) یہ لوگ تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ گھڑی کب آ ٹھہرے گی۔
۴۳۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا وقت بتانے سے تمہیں کیا واسطہ۔ ۳۱*
۴۴۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا علم تو تمہارے رب ہی کو ہے۔
۴۵۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔تمہارا کام صرف ان لوگوں کو خبردار کرنا ہے جو اس سے ڈریں۔
۴۶۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔جس روز وہ اُسے دیکھ لیں گے تو انہیں ایسا محسوس ہو گا کہ وہ (دنیا میں ) ایک شام یا ایک صبح سے زیادہ نہیں ٹھہرے تھے۔ ۳۲*
۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ابتدائی پانچ آیتوں میں جن چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے ان کی صرف صفات بیان کی گئی ہیں موصوف کا ذکر صراحت کے ساتھ نہیں ہوا ہے۔ اور نہ نبی صلی اﷲعلیہ و سلم سے اس بارے میں کوئی حدیث منقول ہے۔ رَہے تفسیری اقوال تو وہ متعدد ہیں بعض نے فرشتے مراد لئے ہیں اور بعض نے ستارے کسی کے نزدیک گھوڑے مراد ہیں اور کسی کے نزدیک بادل ان میں زیادہ مشہور قول جس کو عام طور سے مفسرین نے اختیار کیا ہے یہ ہے کہ فرشتے مراد ہیں۔ ہم نے درج ذیل وجوہ کی بنا پر ہوائیں مراد لی ہیں۔
اولاً : قرآن کریم میں جہاں اس طرح کی قسمیں کھائی گئی ہیں ان کی نوعیت استدلال یا استشہاد کی ہے۔ یہاں انسان کے دوبارہ زندہ کئے جانے پر استدلال مقصود ہے جو ظاہر ہے محسوس چیز ہی سے ہو سکتا ہے اور ہوائیں ایک محسوس چیز ہیں جبکہ فرشتے غیر محسوس۔
ثانیاً : بیان کردہ صفات فرشتوں اور ستاروں وغیرہ کے مقابلہ میں ہواؤں سے زیادہ مناسبت رکھتی ہیں۔
ثالثاً : عربی میں "نزائع" خاص قسم کی ہواؤں کو کہتے ہیں (لسان العرب لفظ نزع ) نازعات اِس سے ملتا جلتا لفظ ہے۔ قرآن میں لفظ " تَنزِعُ " ہوا کے لئے استعمال ہوا ہے۔ تَنزِعُ النّاسَ کَاَنَّھُم اَعجَازُ نَخلٍ مُنقَعِر (القمر۔ ۲۰) وہ ہوا لوگوں کو اس طرح اکھاڑ پھینکتی تھی جیسے جڑ سے اکھڑے ہوئے کھجور کے تنے۔
رابعاً : قرآن میں دوسرے مقامات پر ہواؤں کی قسم قیامت اور روز جزا پر استدلال کے طور پر کھائی گئی ہے۔ ( ملاحظہ ہو سورہ ذاریات اور سورہ مرسلات ) اس لئے یہاں بھی جبکہ مدلول روز جزا ہے ہوائیں مراد لینا قرآن کے بیان سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔
خامساً : یہاں صفات مونث استعمال ہوئی ہیں اور ہواؤں کے لئے مونث صفات کا استعمال عربی میں معروف ہے
۲۔۔۔۔۔۔۔۔ " اَلسَّٓابِحَات " (سبک رفتار ) اصل میں گھوڑوں کا وصف ہے۔ یہاں ہواؤں کو گھوڑوں سے ان کے تیز رفتار ہونے کی بنا پر تشبیہہ دی گئی ہے گویا بادل ہواؤں کے دوش پر سوار ہیں اور وہ بگ ٹٹ اپنی منزل کی طرف رَواں دَواں ہیں۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔ ان آیات میں ہواؤں کی کیفیات اور ان کے تصرفات بیان کئے گئے ہیں، جس سے بارش کا نظام وجود میں آتا ہے یہ ہوائیں ہی ہیں جو بادلوں کو ہزاروں میل سے گھسیٹ کر لاتی ہیں اور جب کسی علاقہ میں بادل جمع ہو جاتے ہیں تو ہوائیں نرم نرم چلنے لگتی ہیں جس سے فضا خوشگوار ہو جاتی ہے۔
یہ ہوائیں جو لاکھوں اور کروڑوں لیٹر پانی کا وزن اُٹھائے ہوئے چلتی ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سبک رفتار گھوڑے جو کسی مہم کے لئے دوڑا دئے گئے ہوں اور جس طرٖح بعض گھوڑے بعض پر سبقت لے جاتے ہیں اسی طرح بعض ہوائیں بعض پر بازی لے جاتی ہیں۔ فضا میں ہواؤں کی اس یورش کو سابقات سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بارش کا یہ انتظام ہواؤں ہی کے ذریعہ عمل میں آتا ہے اس لئے مجازاً ۔۔ اَلمُدَبِرَّاَتِ اَمرًا (ایک کام یعنی بارش کو تقسیم کرنے والی ) سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ان ہواؤں کو شہادت میں پیش کر کے جس بات پر استدلال کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ روز جزا کا پیش آنا اور انسانوں کا دوبارہ اُٹھایا جانا بر حق ہے۔ استدلال کی نوعیت یہ ہے کہ ہواؤں کا یہ نظام اﷲ تعالٰی کی قدرت و حکمت، اس کی ربوبیت اور اس کی عظمت و جلال کی زبردست نشانیاں پیش کرتا ہے اور ان پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ بارانی ہوائیں جب چلتی ہیں تو وہ اپنی مختلف کیفیات کے ذریعہ غفلت میں پڑے ہوئے انسان کو چونکا دینے کا سامان کرتی ہیں مثلاً بادلوں کو گھسیٹنے کا عمل جس کے ساتھ کڑک اور بجلی بھی ہوتی ہے اور جو فضا کو خوشگوار بنائے ہوئے، نرم نرم چلتی ہیں اور کبھی سبک رفتار ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح ہواؤں کے مختلف گروپ جب یورش کرتے ہیں تو حکم الٰہی کی تعمیل و تنفیذ میں ان کے بازی لے جانے کا وصف بالکل نمایاں ہو جاتا ہے۔ رہا تدبیر امر کا پہلو تو یہ ہوائیں کسی علاقہ میں ابر کرم برساتی ہیں اور کسی علاقہ کو بارش سے محروم رکھ کر بادل آگے نکل جاتے ہیں۔ کہیں یہ طوفان لاتی ہیں اور درختوں اور مکانوں کو اکھاڑ پھینکتی ہیں، تو کہیں خوشگوار چلتی ہیں کبھی گرم لُو ، کی صورت اختیار کر جاتی ہیں تو کبھی نسیم سحر کے روپ میں ظاہر ہوتی ہیں۔ پس یہ ہوائیں یوں ہی نہیں چلتیں بلکہ دلوں کو مس کرتے ہوئے چلتی ہیں اور ہر اُس شخص کے اندر جو غور و فکر کرتا اور حقیقت کو بے لاگ طور پر قبول کرنے کے لئے آمادہ رہتا ہے یہ یقین پیدا کرتی ہیں کہ اس کائنات کا خالق زبردست قدرت کا مالک ہے اور وہ نہایت حکمت کے ساتھ اس پر فرما نروائی کر رہا ہے اس کا لازمی تقاضا ہے کہ اس دنیا کی بھی کوئی غایت اور اس کا کوئی مقصد ہو اور انسان کو اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ ملے گا گویا ہواؤں کا یہ نظام جزائے عمل کی شہادت پیش کرتا ہے اور انسان کی دوسری پیدائش کو نہ صرف ممکن بلکہ اس کی حکمت کا مقتضیٰ قرار دیتا ہے جو اس نظام میں کار فرما ہے۔ غرض یہ کہ ہواؤں کے تصرف اور ان کی کیفیات میں قانون جزا کی نشانیاں بالکل نمایاں ہیں اور ان کی شہادت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جو ہستی بارانی ہواؤں کے ذریعہ مردہ زمین کو زندہ کرتی ہے وہ یقیناً مردوں کو زندہ کر دینے والی " ہوائیں " بھی چلا سکتا ہے اور جس طرح ہوائیں سمندر سے پانی کے قطروں کو بخارات کی شکل میں آسمان پر پھیلا دیتی ہیں اور پھر ان منتشر بخارات کو سمیٹ کر پانی کی شکل میں برسا دیتی ہیں اسی طرح مردہ انسان کے منتشر اجزاء کو سمیٹ کر اسے دوبارہ زندہ کرنے کا عمل بھی ممکن ہے اور جب اس کی خبر خود اﷲ تعالیٰ دے رھا ہے تو پھر اس میں شک کا کیا سوال ؟ در حقیقت قیامت سے انکار خدا کی صفت قدرت و حکمت سے انکار کرنے کے ہم معنیٰ ہے۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلا جھٹکا وہ ہے جب زمین کا موجودہ نظام درہم برہم ہو گا اور تمام انسان مر جائیں گے اور دوسرا جھٹکا وہ ہے جب تمام مردے زندہ ہو کر زمین سے نکل آئیں گے۔ اس وقت زمین کی ساخت بدل چکی ہو گی اور اسے ایک نئے نظام کے ساتھ قائم کر دیا گیا ہو گا۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔ دل قیامت کی ہولناکی اور باز پرس کے ڈر سے دھڑک رہے ہوں گے۔ یہ حال کافروں اور فاسقوں کا ہو گا۔ رہے مومنین صالحین تو انہیں کوئی پریشانی لا حق نہیں ہو گی۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی کیا مرنے کے بعد پھر ہمیں زندہ کیا جائے گا ؟
۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تھا منکرین قیامت کا اشکال کہ جب انسان کا مادی وجود نہیں رہے گا تو پھر وہ کس طرح وجود میں آ سکے گا۔ اور جب اس کا وجود ہی محال ہے تو حشر اور جزا و سزا کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا ان کا یہ اشکال بہ آسانی رفع ہو سکتا تھا اگر وہ صاف ذہن (unprejudiced mind) سے اس کائنات کے نظام کا مطالعہ کرتے جس کی دعوت قرآن دے رہا ہے۔ یہ مطالعہ خالق کائنات کے بارے میں انہیں صحیح معرفت عطا کرتا اور انہیں محسوس ہوتا کہ زمین سے لے کر آسمان تک اور ہواؤں سے لے کر بارش تک کائنات کی ہر چیز قرآن کے بیان کی تصدیق کر رہی ہے۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح وہ آخرت کا مذاق اڑاتے تھے کہ اگر واقعی ہمیں دوسری زندگی عطا ہوئی جس کی اطلاع یہ نبی دے رہا ہے تو وہ زندگی ہمارے لئے بڑی خسارہ کی ہو گی کیونکہ ہم اس کا انکار کرتے رہے اور اس کے لئے ہم نے کوئی تیاری نہیں کی۔
۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے اﷲ تعالٰی کو کوئی خاص تیاری نہیں کرنا پڑے گی بلکہ اس کا صرف ایک حکم اس کے لئے کافی ہو گا اور یہ حکم ڈانٹ کی شکل میں ہو گا جسے پوری زمین پر بیک وقت نشر کیا جائے گا۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اسی گوشت پوست کے ساتھ انسان سطح زمین پر آ موجود ہو گا۔ بالفاظ دیگر انسان مرنے کے بعد نہ جانور کا روپ دھارے گا اور نہ کسی اور مخلوق کا بلکہ قیامت کے دن وہ اپنی پہلی حالت ہی میں قبر سے نکل کھڑا ہو گا۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تاریخ سے استشہاد ہے کہ رسولوں کو جھٹلانے اور سرکشی اور بغاوت کا رویہ اختیار کرنے والوں پر اﷲ تعالٰی اس دنیا میں عذاب کا کوڑا برساتا رہا ہے جس کی نمایاں مثال فرعون اور اس کا لشکر ہے جو تباہی سے دوچار ہوا۔ اس میں جزائے عمل کے اس قانون کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے جو قیامت کے دن حرکت میں آئے گا۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ " طُویٰ " اس وادی کا نام ہے جو کوہ سینا میں ہے اُسے مقدس اس لئے فرمایا کہ اﷲ نے یہاں تجلی فرمائی تھی۔ اور حضرت موسٰی علیہ السلام کو نبوت سے سرفراز فرمایا تھا۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ فرعون (Pharaoh) مصر کے قدیم بادشاہوں کا لقب ہے اور جس فرعون سے حضرت موسٰی کو سابقہ پیش آیا تھا وہ تقریباً ۱۴۰۰ قبل مسیح مصر میں حکمراں تھا۔ فرعون کی سرکشی یہ تھی کہ وہ اپنے کو خدا کا بندہ سمجھنے کے بجائے ، آزاد اور خود مختار سمجھتا تھا اپنے رب اعلٰی ہونے کا مدعی تھا اور حکومت و فرمانروائی کے سارے کام اﷲ سے کفر اور اس سے بغاوت کی بنیاد پر انجام دیتا تھا۔ اس نے اپنی خودسری کی بنا پر بندگان خدا کے ساتھ ظلم و جور کا رویہ اختیار کر رکھا تھا چنانچہ وہ اس وقت کی مسلم قوم " بنی اسرائیل " پر سخت ظلم ڈھا رہا تھا۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکیزگی اختیار کرنے کا مطلب اسلام قبول کرنا ہے جو انسان کو کفر و شرک کی گندگیوں سے پاک کرتا اور ایمان اور حُسن عمل سے سنوارتا ہے۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ عقائد و اعمال کی پاکیزگی کا انحصار خداخوفی پر ہے اور خدا خوفی اسی صورت میں پیدا ہوتی ہے جب کہ انسان کو خدا کی صحیح معرفت حاصل ہو جائے۔ " رب کی راہ دکھاؤں " سے اشارہ اسی معرفت الہٰی (خدا کی پہچان ) کی طرف ہے۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑی نشانی سے مراد لاٹھی کے سانپ بن جانے کا معجزہ ہے جو موسی علیہ السلام کو دیا گیا تھا اور جو اس بات کی واضح علامت تھا کہ حضرت موسی علیہ السلام اﷲ تعالٰی کی طرف سے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ تا کہ لوگ حضرت موسیٰ پر ایمان نہ لائیں اور ان کی دعوت قبول کریں۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ قدیم زمانہ کے بادشاہ صرف حکومت ہی کے دعویدار نہیں ہوتے تھے بلکہ رعایا سے اپنی پوجا بھی کراتے تھے تا کہ لوگوں کو ان کے ساتھ گرویدگی ہو، انکی حکومت مضبوط ہو اور وہ پوری " شان خدائی " کے ساتھ حکومت کر سکیں۔ اپنے اس تقدس کو منوانے کے لئے وہ اپنا رشتہ ستاروں اور دیوی دیوتاؤں سے بھی جوڑتے تھے اور ان کے اوتار ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ فرعون بھی اپنی پرستش لوگوں سے کراتا تھا اور اس مفہوم میں اپنے رب اعلٰی ہونے کا مدعی تھا۔ اس وقت مصر میں بت پرستی رائج تھی اور فرعون نے اپنے علاوہ کسی بت کی پرستش کو قانوناً ممنوع نہیں ٹھہرایا تھا۔ اس سے ظاہر ہے کہ اس کا اپنی اُلُوہیت اور اپنے رب اعلٰی ہونے کا دعویٰ موسیٰ علیہ السلام کی دعوت توحید کے مقابلہ میں تھا وہ دوسرے خداؤں کی جو نفی کرتا تھا وہ محض موسیٰ علیہ السلام کو زچ کرنے کے لئے تھی۔
فرعون کے اس دعوے کا مطلب یہ لینا صحیح نہ ہو گا کہ وہ خالق کائنات ہونے کا مدعی تھا کیونکہ یہ دعویٰ تو کوئی احمق ہی کر سکتا ہے، اسی طرح اس کا یہ مطلب لینا بھی صحیح نہ ہو گا کہ وہ سیاسی معنٰی میں اپنے آپ کو الٰہ اور رب اعلٰی کہتا تھا اگر فرعون کا یہ دعویٰ محض سیاسی معنٰی میں ہوتا تو وہ لوگوں سے یہ نہ کہتا کہ " اِنّیْ اَخَافُ اَنْ یَّبَدِّلَ دِیْنَکُمْ " ( مجھے اندیشہ ہے کہ موسیٰ تمہارا دین بدل نہ ڈالیں ) (المومن ۲۶) کیونکہ محض سیاسی حاکمیت کا دعویٰ کرنے والے شخص کو اس سے کیا مطلب کہ لوگوں کا مذہب برقرار رہتا ہے یا تبدیل ہو جاتا ہے؟ اسی طرح فرعون حضرت موسیٰ سے یہ بھی نہ کہتا کہ اَجِئتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَیْہِ آبَاءَنَا (کیا تو اس لئے آیا ہے کہ ہمیں اپنے آبائی مذہب سے ہٹادے ؟ یونس : ۷۸ )
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جن لوگوں کے اندر خدا کا کچھ خوف ہے ان کے لئے اس واقعہ میں بڑا سبق ہے سبق اس بات کا یہ دنیا اندھیر نگری نہیں ہے بلکہ اﷲ اپنے قانون عدل کے ساتھ اس پر فرمانروائی کر رہا ہے۔ فرعون جیسے جابر پر شکوہ بادشاہ پر بھی اس کا تازیانہ عبرت برسا ہے اس لئے نافرمانوں کو اس دنیا میں بظاہر جو ڈھیل ملتی ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں کہ انسان کو اﷲ کے حضور اپنے طرز عمل کے سلسلہ میں جوابدہی کرنا نہیں ہے اور نہ ہی قانون مکافات عمل کی کوئی حقیقت ہے۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آسمان کی تخلیق جو بےشمار ستاروں، محیرالعقول کہکشاؤں، عظیم الشان سیاروں اور زبردست نطام شمسی پر مشتمل ہے اور جن کے درمیان کمال درجہ کا نظم پایا جاتا ہے کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن جب اﷲ تعالٰی کے لئے اس عظیم الشان عالم کی تخلیق آسان ہوئی تو پھر انسان کو دوبارہ پیدا کرنا اس کے لئے کیوں مشکل ہو ؟ کیا اتنی واضح بات بھی تمہاری عقل میں نہیں سماتی ؟
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ آسمان کی بلندی کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ بعض ستارے اتنی دوری پر ہیں کہ ان کی روشنی زمین پر پہنچنے میں کئی نوری سال لگ جاتے ہیں۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آسمان کا صرف مادہ پیدا کر کے نہیں چھوڑا بلکہ اس کا مادہ پیدا کرنے کے بعد اس سے ایک عظیم الشان کائنات تشکیل دی ، اسے باہم مربوط کیا۔ اور ایسا آراستہ کیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ عالم بالا ایک سجی سجائی اور پر رونق بزم ہے جو ہر دیکھنے والے کو غور و فکر کی دعوت دے رہی ہے۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ دن اور رات کو آسمان کی طرف منسوب کرنا اس اعتبار سے ہے کہ انسان کو رات اور دن کے آثار آسمان پر ظاہر ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پہلے آسمان کو پیدا کیا اور اس کے بعد زمین کو بلکہ مطلب یہ ہے کہ آسمان کے علاوہ زمین کو بھی پیدا کیا اور اسے بچھایا۔ آسمان کے کمالات اور زمین کی نعمتیں دونوں لائق غور ہیں۔
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین کا یہ مربّیانہ اور حکمیمانہ نظام ایک عظیم منصوبہ کی نشاندہی کرتا ہے اور قرآن اس منصوبہ کی وضاحت کرتا ہے کہ وہ حیات بعد الموت اور جزاۓ عمل ہے۔
۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی قیامت جو اس کائنات کا سب سے بڑا ہنگامہ ہے۔
۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان جو کچھ دنیا میں کرتا ہے وہ سب اس کے ذہن کے پردوں پر نقش ہو جاتا ہے اسی بنا پر وہ اپنی زندگی کے گزشتہ سالہا سال کے واقعات اپنے حافظہ کی مدد سے یاد کرتا ہے۔ یہ بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کے اعمال کا ریکارڈ خود انسان کا ذہن تیار کر رہا ہے۔ قیامت کے دن اس کا حافظہ اتنا تیز ہو گا کہ اس کے اعمال کے سارے نقوش اس کے ذہن پر ابھر آئیں گے۔
۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی خدا کا وفادار بندہ بن کر رہنے کے بجائے کفر و بغاوت کا رویہ اختیار کیا ہو گا اوپر فرعون کی سرکشی کی مثال گزر چکی۔
۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی آخرت کے مقابلہ میں دنیا کو مقصود بنایا ہو گا اور اس کے مفاد کو مقدم رکھا ہو گا۔
۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جو دنیا میں اس تصور سے کانپتے رہے کہ اﷲ کی عدالت میں حاضر ہو کر اپنے اعمال کی جوابدہی کرنا ہے۔ ظاہر ہے جس کے اندر جوابدہی کا یہ تصور ہو گا وہ اﷲ کے وفادار بندے ہی کی حیثیت سے زندگی گزارے گا۔
۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی رسول کو قیامت کا وقت بتانے کے لئے نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ اسے متنبہ کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے۔ قیامت تو اپنے وقت پر آ کر رہے گی جس طرح موت کہ اپنے وقت پر آ کر رہتی ہے گو انسان کو اس کا وقت پہلے سے معلوم نہیں ہوتا۔
۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس وقت قیامت کے لئے وہ جلدی مچا رہے ہیں لیکن جب آئے گی تو انہیں محسوس ہو گا کہ بہت جلد آ گئی اور انہیں دنیا میں جو مہلت ملی تھی وہ بہت تھوڑی تھی۔ وقت ایک اضافی چیز ہے گھنٹوں کے مقابلہ میں منٹ وقت کا نہایت قلیل حصہ معلوم ہوتے ہیں اسی طرح دنوں کے مقابلہ میں گھنٹے اور مہینوں اور سالوں کے مقابلہ میں دن۔ قیامت کے دن جب زمان و مکان بدل جایئں گے اور قیامت کا ایک دن ایک ہزار سال کا ہو گا تو جو وقت انسان نے دنیا میں گزارا تھا وہ اسے وہاں کے زمان کی نسبت سے بہت تھوڑا معلوم ہو گا اور اس وقت یہ احساس ابھرے گا کہ کاش اپنے یہ قیمتی لمحات اپنی آخرت بنانے میں صرف کئے ہوتے۔