آیت ۳۸ میں شوریٰ (باہمی مشورہ) کو اہلِ ایمان کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام الشوریٰ ہے۔
مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سورۂ حٰم السجدہ کے بعد نازل ہوئی ہو گی یعنی مکہ کے درمیانی دور میں۔
خدا اور مذہب کے معاملہ میں حق کیا ہے اس کو جاننے کا ذریعہ وحی الٰہی ہے۔ یہ دین جس کو اللہ کا رسول قرآن کے ذریعہ پیش کر رہا ہے اللہ کا مقرر کردہ دین ہے جس کی وحی اس نے اپنے رسول پر کی ہے۔
آیت ۱ تا۱۲ تمہیدی آیات ہیں جن میں مختصراً وہ باتیں پیش کی گئی ہیں جن سے وحی الٰہی کے تفصیلی مضامین کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
آیت ۱۳ تا ۲۰ میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ وہی دین ہے جس کی وحی انبیاء علیہم السلام کی طرف کی گئی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت کی گئی کہ تم اسی پر جمے رہو اور اسی کی طرف دعوت دو۔ جو لوگ اس سلسلہ میں بحث میں الجھ رہے ہیں ان کے پاس حق کی کوئی حجت نہیں ہے۔
آیت ۲۱ تا ۳۵ میں اپنی طرف سے مذہب ایجاد کرنے والوں اور اس کی پیروی کرنے والوں پر سخت گرفت کی گئی ہے اور ان لوگوں کو خوشخبری سنائی گئی ہے جو اللہ کے دین پر ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں نیز منکرین کے بعض شبہات کا ازالہ بھی کیا گیا ہے۔
آیت ۳۶ تا ۴۳ میں اس دین کو قبول کرنے والوں کے وہ اوصاف بیان کئے گئے ہیں جو کشمکش کے اس مرحلہ سے انہیں سلامتی کے ساتھ گزار سکتے ہیں اور جو کامیابی کی ضمانت ہیں۔
آیت ۴۴ تا ۵۰ میں مخالفین کو ان کی گمراہی پر متنبہ کرتے ہوئے اپنے رب کی پکار پر لبیک کہنے کی دعوت دی گئی ہے۔ آیت ۵۱ تا ۵۳ سورہ کے خاتمہ کی آیات ہیں جن میں اس مضمون کی مزید وضاحت ہے جس سے سورہ کا آغاز ہوا تھا یعنی وحی الٰہی۔
۳۔۔۔۔۔۔اسی طرح اللہ غالب و حکیم تمہاری طرف وحی کرتا ہے اور تم سے پہلے جو (رسول) گزرے ہیں ان کی طرف بھی وحی کرتا رہا ہے۔ ۲*
۴۔۔۔۔۔۔جو کچھ بھی آسمانوں میں ہیں اور جو کچھ بھی زمین میں ہے سب اسی کا ہے۔ وہ نہایت بلند اور عظیم ہے۔ ۳*
۵۔۔۔۔۔۔قریب ہے کہ آسمان اپنے اوپر سے پھٹ پڑیں۔ ۴* فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور زمین والوں کے لیے معافی کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ ۵* سنو! اللہ ہی بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ ۶*
۶۔۔۔۔۔۔جن لوگوں نے اس کو چھوڑ کر دوسرے کارساز بنا رکھے ہیں ۷* اللہ ان پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔ ۸* اور تم کو ان پر ذمہ دار مقرر نہیں کیا گیا ہے۔ ۹*
۷۔۔۔۔۔۔اور (اے نبی!) اس طرح ہم نے تم پر عربی قرآن وحی کیا ہے تاکہ تم ام القریٰ ۱۰ * (مکہ) اور اس کے گرد و پیش رہنے والوں کو خبردار کرو۔ ۱۱ * اور جمع ہونے کے دن سے ڈراؤ جس کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ ۱۲ * ایک گروہ جنت میں جائے گا ۱۳ * اور دوسرا گروہ دوزخ (بھڑکتی آگ) میں۔ *۱۴
۸۔۔۔۔۔۔اگر اللہ چاہتا تو سب کو ایک ہی امت بنا دیتا ۱۵ * لیکن وہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے *۱۶ اور ظالموں کا نہ کوئی کارساز ہے اور نہ مددگار۔
۹۔۔۔۔۔۔کیا انہوں نے اس کو چھوڑ کر دوسرے کارساز بنا رکھے ہیں۔ ۱۷ کارساز تو اللہ ہی ہے اور وہ مُردوں کو زندہ کرے گا۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
۱۰۔۔۔۔۔۔جس چیز میں بھی تم لوگوں نے اختلاف کیا ہے اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہے۔ ۱۸ * وہی اللہ میرا رب ہے۔ اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔
۱۱۔۔۔۔۔۔ آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا جس نے تم ہی میں سے تمہارے جوڑے بنائے اور مویشیوں کے بھی جوڑے پیدا کئے۔ وہ تمہاری نسلیں اس میں پھیلاتا ہے۔ ۱۹ * اس کے مثل کوئی چیز نہیں۔ ۲۰ * وہ سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ہے۔
۱۲۔۔۔۔۔۔آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کے قبضہ میں ہیں ۲۱ * وہ جسے چاہتا ہے کشادہ رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے۔ ۲۲ * وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔
۱۳۔۔۔۔۔۔اس نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کی ہدایت اس نے نوح کو کی تھی اور جس کی وحی (اے نبی!) ہم نے تمہاری طرف کی ہے اور جس کی ہدایت ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو کی تھی کہ اس دین کو قائم رکھو اور اس معاملہ میں تفرقہ میں نہ پڑو۔ ۲۳ * مشرکین پر وہ چیز شاق ہے جس کی طرف تم انہیں دعوت دے رہے ہو۔ ۲۴ * اللہ جسے چاہتا ہے اپنی راہ کے لیے چن لیتا ہے اور اپنی طرف رہنمائی اسی کی کرتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔ ۲۵ *
۱۴۔۔۔۔۔۔اور لوگ جو تفرقہ میں پڑے تو اس کے بعد پڑے کہ ان کے پاس علم آ چکا تھا محض آپس کی ضد کی بنا پر۔ ۲۶ * اور اگر تمہارے رب کا فرمان ۲۷ * ایک مدتِ مقرر کے لیے صادر نہ ہو چکا ہوتا تو ان کے درمیان فیصلہ چکا دیا گیا ہوتا۔ ۲۸ * اور ان (گزرے ہوئے) لوگوں کے بعد جو لوگ کتاب کے وارث بنائے گئے وہ اس کی طرف سے شک میں پڑے ہوئے ہیں جس نے انہیں الجھن میں ڈال دیا ہے۔ *۲۹
۱۵۔۔۔۔۔۔لہٰذا تم اسی دین کی دعوت دو اور اس پر قائم رہو جیسا کہ تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ ۳۰ * اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو ۳۱ *۔ اور کہو اللہ نے جو کتاب اتاری ہے اس پر میں ایمان لایا ۳۲ * مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان عدل کروں۔ ۳۳ * اللہ ہمارا رب بھی ہے۔ اور تمہارا رب بھی۔ ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے۔ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی بحث نہیں۔ ۳۴ * اللہ ہم سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے۔
۱۶۔۔۔۔۔۔جو لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بعد اس کے کہ اس کی پکار پر لبیک کہا جا چکا ہے ۳۵ * ان کی حجت ان کے رب کے نزدیک باطل ہے۔ ۳۶ * اور ان پر غضب ہے اور ان کے لیے سخت عذاب ہے۔
۱۷۔۔۔۔۔۔اللہ ہی ہے جس نے کتاب حق کے ساتھ اتاری ہے اور میزان بھی۔ ۳۷ * اور تمہیں کیا خبر شاید قیامت کی گھڑی قریب آ لگی ہو۔ ۳۸ *
۱۸۔۔۔۔۔۔اس کے لیے جلدی وہی لوگ مچاتے ہیں جو اس پر ایمان نہیں رکھتے۔ ۳۹ * ایمان رکھنے والے تو اس سے ڈرتے ہیں ۴۰ * اور جانتے ہیں کہ وہ ایک حقیقت ہے۔ سنو! جو لوگ اس گھڑی کے بارے میں بحث میں الجھ رہے ہیں وہ گمراہی میں دور جا پڑے ہیں۔ ۴۱ *
۱۹۔۔۔۔۔۔اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے رزق دیتا ہے۔ اور وہ بڑی قوت والا اور غالب ہے۔ ۴۲ *
۲۰۔۔۔۔۔۔جو کوئی آخرت کی کھیتی کا طالب ہوتا ہے ہم اس کی کھیتی کو بڑھاتے ہیں ۴۳ * اور جو دنیا کی کھیتی کا طالب ہوتا ہے ہم اس کو اسی میں سے دیتے ہیں مگر آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔ ۴۴ *
۲۱۔۔۔۔۔۔کیا ان کے کچھ ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے مذہبی طریقے ایجاد کئے ہیں جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی۔ ۴۵ * اگر فیصلہ کی بات (کہ وقتِ مقرر پر کیا جائے گا) طے نہ پا چکی ہوتی تو ان کا فیصلہ چکا دیا گیا ہوتا۔ ۴۶ * یقیناً ان ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
۲۲۔۔۔۔۔۔تم دیکھو گے کہ ظالم اپنی کمائی کے وبال سے ڈر رہے ہوں گے اور وہ ان پر ا کر رہے گا۔ البتہ جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے وہ جنتوں کے باغیچوں ۴۷ * میں ہوں گے۔ وہ جو کچھ چاہیں گے ان کو ان کے رب کے پاس ملے گا۔ یہی ہے بہت بڑا فضل۔
۲۳۔۔۔۔۔۔یہی وہ چیز ہے جس کی خوشخبری دیتا ہے اللہ اپنے ان بندوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔ (اے نبی! ان سے) کہو میں اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت ہے (جس کا تقاضا پورا کر رہا ہوں۔ ) ۴۸ * جو کوئی نیکی کرے گا ہم اس کے لیے اس کی نیکی میں خوبی کا اضافہ کریں گے۔ اللہ بڑا بخشنے والا اور بڑا قدر داں ہے۔ ۴۹ *
۲۴۔۔۔۔۔۔کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے۔ اگر اللہ چاہے تو (اے نبی) تمہارے دل پر مہر لگا دے۔ ۵۰۔۔۔۔۔۔* وہ باطل کو مٹاتا ہے اور حق کو اپنے کلمات سے حق ثابت کر دکھاتا ہے۔ ۵۱ * یقیناً وہ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ ۵۲ *
۲۵۔۔۔۔۔۔وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور برائیوں سے درگزر فرماتا ہے ۵۳ * اور جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔
۲۶۔۔۔۔۔۔وہ ان لوگوں کی دعا قبول کرتا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے ۵۴ * اور اپنے فضل سے انہیں مزید عطا کرتا ہے۔ رہے کافر تو ان کے لیے سخت عذاب ہے۔
۲۷۔۔۔۔۔۔اگر اللہ اپنے بندوں کو فراخی کے ساتھ رزق دے دیتا تو وہ زمین میں زیادتی پر اتر آتے مگر وہ ایک خاص مقدار میں جس طرح چاہتا ہے اتارتا ہے۔ ۵۵ * وہ اپنے بندوں سے باخبر ہے اور انہیں دیکھ رہا ہے۔
۲۸۔۔۔۔۔۔وہی ہے جو لوگوں کے مایوس ہو جانے کے بعد بارش بھیجتا ہے ۵۶ * اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے۔ وہی کارساز ہے لائقِ حمد۔ ۵۷*
۲۹۔۔۔۔۔۔اور اس کی نشانیوں میں سے ہے آسمانوں اور زمین کی پیدائش ۵۸ * اور جاندار جو اس نے ان میں پھیلائے ہیں۔ ۵۹۔۔۔۔۔۔* اور وہ ان کو جب چاہے اکٹھا کرنے پر قادر ہے۔
۳۰۔۔۔۔۔۔جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تمہارے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے پہنچتی ہے۔ ۶۰ * اور بہت سی برائیوں سے وہ درگزر بھی فرماتا ہے۔
۳۱۔۔۔۔۔۔تم زمین میں اس کے قابو سے نہیں نکل سکتے اور نہ اللہ کے مقابل میں تمہارا کوئی کارساز و مددگار ہے۔ ۶۱*
۳۲۔۔۔۔۔۔اس کی نشانیوں میں سے سمندر میں چلنے والے جہاز ہیں گویا پہاڑ۔ ۶۲*
۳۳۔۔۔۔۔۔اگر وہ چاہے تو ہوا کو ساکن کر دے تو وہ اس کی سطح پر ٹھہرے ہی رہ جائیں۔ ۶۳ * یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو۔ ۶۴ *
۳۴۔۔۔۔۔۔یا (وہ چاہے) تو ان کے کرتوتوں کی پاداش میں ان جہازوں کو تباہ کر دے۔ اور (چاہے تو) بہت سی باتوں سے درگزر فرمائے۔
۳۵۔۔۔۔۔۔اور (اگر تباہ کر دے تو اس لیے تاکہ) وہ لوگ جو ہماری آیتوں میں جھگڑتے ہیں جان لیں کہ ان کے لیے کوئی مفر (بھاگنے کی جگہ) نہیں ہے۔
۳۶۔۔۔۔۔۔تمہیں جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ محض دنیوی زندگی کا سامان ہے اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ کہیں بہتر اور پائیدار ہے۔ *۶۵ ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے اور اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ ۶۶ *
۳۷۔۔۔۔۔۔جو بڑے گناہوں ۶۷ * اور بے حیائی کے کاموں ۶۸ * سے بچتے ہیں اور جب غصہ آ جاتا ہے تو معاف کرتے ہیں۔ ۶۹ *
۳۸۔۔۔۔۔۔جو اپنے رب کی پکار پر لبیک کہتے ہیں ۷۰ * اور نماز قائم کرتے ہیں ۷۱ * اور اپنے معاملات آپس کے مشورہ سے چلاتے ہیں ۷۲ * اور جو ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے خرچ کرتے ہیں۔ ۷۳*
۳۹۔۔۔۔۔۔اور جب ان پر ظلم ہوتا ہے تو وہ اپنی مدافعت کرتے ہیں۔ ۷۴ *
۴۰۔۔۔۔۔۔اور برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے ۷۵ * پھر جو کوئی در گزر کرے اور اصلاح کرے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔* ۷۶۔۔۔۔۔۔ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ ۷۷ *
۴۱۔۔۔۔۔۔اور جنہوں نے اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیا ان پر کوئی الزام نہیں۔ ۷۸ *
۴۲۔۔۔۔۔۔الزام تو ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی کرتے ہیں۔ ۷۹ * ایسے لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
۴۳۔۔۔۔۔۔البتہ جس نے صبر کیا اور معاف کیا تو یہ بڑی عزیمت کا کام ہے۔ ۸۰ *
۴۴۔۔۔۔۔۔جس کو اللہ گمراہ کر دے تو اس کے بعد اس کا کوئی کارساز نہیں۔ ۸۱ * تم ظالموں کو دیکھو گے کہ جب وہ عذاب کو دیکھ لیں گے تو کہیں گے۔ ہے کوئی واپسی کی راہ !۸۲ *
۴۵۔۔۔۔۔۔اور تم دیکھو گے کہ وہ جہنم کے سامنے اس طرح پیش کئے جائیں گے۔ ۸۳ * اس وقت اہل ایمان کہیں گے کہ اصل خسارہ میں رہنے والے وہی ہیں جنہوں نے قیامت کے دن اپنے آپ کو اور اپنے متعلقین کو خسارہ میں ڈالا۔ ۸۴ * خبردار ! یہ ظالم قائم رہنے والے عذاب ۸۵ * میں ہوں گے۔
۴۶۔۔۔۔۔۔اور ان کے کوئی دوست نہ ہوں گے جو اللہ کے مقابل ان کی مدد کر سکیں۔ اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کے لیے کوئی راہ نہیں۔
۴۷۔۔۔۔۔۔اپنے رب کی دعوت قبول کر لو قبل اس کے کہ اللہ کی طرف سے ایک ایسا دن آئے جس کو ٹالا نہ جا سکے گا۔ ۸۶* اس دن تمہارے لیے کوئی جائے پناہ نہ ہو گی اور نہ تم (عذاب کو) دفع کر سکو گے۔ ۸۷ *
۴۸۔۔۔۔۔۔لیکن اگر یہ منہ پھیر لیتے ہیں تو (اے نبی!) ہم نے تمہیں ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا ہے۔ ۸۸ * تم پر صرف پہنچانے کی ذمہ داری ہے۔ اور انسان کو جب ہم اپنی رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو اس پر اترانے لگتا ہے اور اگر اس کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی مصیبت اس پر آتی ہے تو ہ ناشکرا بن جاتا ہے۔ ۸۹ *
۴۹۔۔۔۔۔۔آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے۔ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے۔
۵۰۔۔۔۔۔۔یا ان کو لڑکے اور لڑکیاں دونوں عطا فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے۔ وہ جاننے والا قدرت والا ہے ۹۰ *
۵۱۔۔۔۔۔۔کسی بشر کی یہ شان نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کی صورت میں یا پردہ کے پیچھے سے یا یہ کہ کسی فرشتہ کو بھیج دے جو اس کے حکم سے وحی کرے جو وہ چاہے۔ ۹۱ * وہ بلند مرتبہ اور حکمت والا ہے۔ ۹۲ *
۵۲۔۔۔۔۔۔اور اسی طرح (اے نبی!) ہم نے تمہاری طرف ایک روح اپنے فرمان سے وحی کی ہے۔ ۹۳ *تم نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ۹۴ *مگر ہم نے اس کو ایک نور بنا دیا ۹۵ * جس کے ذریعہ ہم ہدایت دیتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں۔ اور یقیناً تم سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کر رہے ہو۔ ۹۶ *
۵۳۔۔۔۔۔۔اللہ کے راستے کی طرف جو آسمانوں اور زمین کی ساری چیزوں کا مالک ہے۔ خبردار ہو جاؤ! سارے معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹتے ہیں۔ ۹۷ *
۱۔۔۔۔۔۔ یہ الگ الگ حروف ہیں جن سے کلام کا آغاز کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ ان کی تلاوت آدمی کو چونکا دیتی ہے اور وہ اصل کلام کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورہ بقرہ نوٹ ۱)
اس سورہ میں حمٰ کا اشارہ اللہ کے حکیم ہونے کی صفت کی طرف ہے جس کا ذکر آیت ۳ میں اور ۵۱ میں ہوا ہے۔ اسی طرح "ع" کا اشارہ اللہ کے عزیز (غالب) ، علی (بلند) اور علیم (علم والا) ہونے کی صفات کی طرف ہے جن کا ذکر بالترتیب آیت ۳، ۴ اور ۵۰ میں ہوا ہے۔ "س" کا اشارہ اللہ کے سمیع (سننے والا) ہونے کی صفت کی طرف ہے جس کا ذکر آیت ۱۱ میں ہوا ہے۔ اور "ق" کا اشارہ اللہ کے قدیر (قدرت والا) اور قوی (قوت والا) ہونے کی طرف ہے جن کا ذکر آیت ۹ اور ۱۹ میں ہوا ہے۔
۲۔۔۔۔۔۔ "وحی" پیغام رسانی کا وہ مخفی ذریعہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے لیے اختیار کرتا ہے۔ عام انسان اس ذریعہ کا ادراک نہیں کر سکتے اس لیے جو حقیقت پسند نہیں ہوتے انہیں اس پر تعجب ہوتا ہے اور وہ اس کا انکار کر بیٹھتے ہیں۔ قرآن کے وحی الٰہی ہونے کو بھی تعجب کی نگاہ سے دیکھا جا رہا تھا اس لیے اس کے ایک امر واقعہ ہونے کا یقین دلاتے ہوئے فرمایا کہ پیغام رسانی کا یہی طریقہ ہم نے اس رسول کے معاملہ میں بھی اختیار کیا ہے اور یہی طریقہ اس سے پہلے بھی رسولوں کے بارے میں اختیار کیا جاتا رہا ہے۔ آیت میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے لیکن سمجھا نا ان لوگوں کو مقصود ہے جو وحی کو تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
آج کا ماڈرن انسان بھی خدا اور مذہب کے معاملہ میں تعصب کی بنا پر وحی کو جو اس بارے میں علم کا سبب سے زیادہ یقینی ذریعہ ہے ماننے کے لیے تیار نہیں ہے جب کہ خود انسان نے آسمان کی فضاء میں ایسے سٹیلائٹ داغے ہیں جن کے سگنل وہ سنتا اور سمجھتا ہے۔
۳۔۔۔۔۔۔ علی (بلند) ہے مرتبہ کے اعتبار سے اور عظیم ہے تعظیم و تکریم کے اعتبار سے۔
۴۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی ہیبت آسمانوں پر ایسی طاری ہے کہ عجب نہیں کہ وہ پھٹ پڑیں۔ اور قیامت کے دن وہ واقعی پھٹ پڑیں گے۔
۵۔۔۔۔۔۔ زمین والوں سے مراد زمین بسنے والے اہل ایمان ہیں جیسا کہ سورۂ مومن آیت۷ میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے یہاں واضح کرنا یہ مقصود ہے کہ فرشتے آسمان میں رہتے ہوئے زمین پر بسنے والے اہل ایمان سے گہرا قلبی ربط رکھتے ہیں اور ان کی ہمدردی میں ان کی معافی کے لیے اللہ کے حضور دعا گو ہوتے ہیں۔
اس آیت میں جو کچھ بیان ہوا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کی کیا شان ہے اور کیسا جلال ہے آسمان میں !
۶۔۔۔۔۔۔ یعنی گناہوں کو بخشنا اور رحم کرنا اللہ ہی کا کام ہے۔ فرشتے صرف دعا کر سکتے ہیں اس لیے اپنے گناہوں کی بخشش اللہ ہی سے مانگنا چاہیے اور اسی سے رحم کی درخواست کرنا چاہیے۔
اس سے عیسائیوں کے اس عقیدہ کی آپ سے آپ تردید ہوتی ہیں کہ حضرت مسیح کفارہ ہیں اور قیامت کے دن وہ اپنے ماننے والوں کے گناہ بخش دیں گے۔
۷۔۔۔۔۔۔ ولی (کارساز) کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ کہف نوٹ ۱۲۔۸ نیز سورۂ اعراف نوٹ ۶۔
۸۔۔۔۔۔۔ اور جب اللہ ان پر نگاہ رکھے ہوئے ہے تو وہ ضرور ان کے اس مجرمانہ رویہ پر گرفت کرے گا۔
۹ یعنی ان کے عمل کے تم ذمہ دار نہیں ہو۔ تمہارا یہ کام نہیں کہ اللہ کے دن کا زبردستی انہیں قائل کراؤ بلکہ تمہارا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے۔
۱۰۔۔۔۔۔۔ ام القریٰ کے معنی ہیں بستیوں کا مرکز۔ مکہ نہ صرف عرب علاقہ کا مرکزی شہر تھا بلکہ دینی اعتبار سے بھی مرکزی حیثیت رکھتا تھا اس لیے اسے ام القریٰ کہا گیا۔
۱۱۔۔۔۔۔۔ چونکہ قرآن کے مخاطب اول مکہ اور اس کے اطراف کے لوگ تھے اور ان کی زبان عربی تھی اس لیے قرآن کو بھی عربی زبان میں نازل کیا گیا۔
۱۲۔۔۔۔۔۔ قیامت کے دن سے خبردار کرنا نزولِ قرآن کا اہم مقصد ہے اس لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت ہوئی کہ آپ قیامت کے دن سے لوگوں کو ڈرائیں۔ دعوتِ قرآنی کا یہ اہم ترین پہلو ہے جس کا لحاظ ان لوگوں کو کرنا چاہیے جو دعوتِ دین کی خدمت انجام دینے کے لیے اٹھیں۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ایمان لا کر نیک عمل کرنے والوں کا گروہ۔
۱۴۔۔۔۔۔۔ یعنی کافروں اور مشرکوں کا گروہ۔
۱۵۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ چاہتا تو بزور سب کو ایک ہی دین__اسلام__ کا پیرو بنا دیتا۔ کسی دوسرے مذہب کا وجود ہو ہی نہیں سکتا تھا لیکن اللہ کی مشیت یہ ہوئی کہ انسان کو انتخاب و اختیار کی آزادی دے کر آزمایا جائے کہ وہ اپنی عقل و بصیرت کو استعمال کر کے اس دین کو قبول کرتا ہے جو اللہ نے وحی کی ذریعہ اور رسولوں کی معرفت بھیجا ہے یا قوموں اور فرقوں کے خود ساختہ مذاہب میں سے کسی مذہب کا پیرو بن کر رہ جاتا ہے۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ مائدہ نوٹ ۱۵۔۹۔
۱۶۔۔۔۔۔۔ یعنی جس کو دینِ حق پر چلنے کی توفیق ملی وہ اللہ کی رحمت میں داخل ہوا۔ اور یہ توفیق ان ہی کو ملتی ہے جو اس کی سچی طلب رکھتے ہیں۔ اللہ کی مشیت اس کی حکمت کے عین مطابق ہوتی ہے۔
۱۷۔۔۔۔۔۔ یہاں خاص طور سے اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جنہوں نے الگ الگ مذہب بنائے اور ان کے بانیوں کو ان کے عقیدت مندوں نے اپنا سر پرست اور کار ساز بنا لیا اور ان گمراہ پیشواؤں کے پیچھے چل کر گمراہ ہوتے رہے۔
۱۸۔۔۔۔۔۔ یہ اور اس طرح کی دوسری آیتیں صراحت کرتی ہیں کہ تمام اختلافی اور متنازعہ امور میں فیصلہ کا حق اللہ ہی کو ہے لہٰذا اللہ کے دین نے جن باتوں کو بھی اپنے دائرہ میں لیا ہے ان میں سے کسی معاملہ میں بھی کسی اور کے فیصلہ کو قبول نہیں کیا جاسکتا خواہ اس کا تعلق عقائد و عبادات سے ہو یا معاشرتی ، تمدنی اور سیاسی امور سے۔ اس آیت میں اللہ کی حاکمیت کو دو ٹوک انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اس سے لازم آتا ہے کہ : اولاً لوگوں کے درمیان مذہب کے تعلق سے جو اختلافات رونما ہو گئے ہیں ان کے سلسلہ میں وہ اللہ کی کتاب __قرآن__کو حَکم مانیں۔
ثانیاً حلال و حرام، عائلی (نکاح، طلاق، نفقہ وغیرہ) تہذیبی (آرٹ وغیرہ) تمدنی اور سیاسی مسائل میں اللہ ہی کے احکام کی طرف رجوع کریں اور ایسی کوئی قانون سازی نہ کریں جو اس کے قانون اور اس کے رسول کے طریقہ (سنت) کے خلاف ہو۔ ثالثاً اللہ کے دین میں نے کوئی اضافہ کیا جائے اور نہ کمی۔ جو بدعتیں مسلمانوں کے مختلف فرقوں نے ایجاد کی ہیں ان کو رد کر دیا جائے اور اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے آگے کسی کے قول کو کوئی وزن نہ دیا جائے اور نہ کسی کی تقلید کا قلادہ اپنی گردن میں ڈالا جائے۔ کھلے ذہن سے ہر اس بات کو قبول کیا جائے جس کا حکم اللہ نے دیا ہے اور جو اس کے رسول کی سنت سے ثابت ہے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔ یعنی اسی خلق (پیدائش) میں اللہ نے یہ برکت رکھی کہ نسلیں پھیلتی چلی جا رہی ہے۔
۲۰۔۔۔۔۔۔ یہ بات کہ اللہ کے جیسی کوئی چیز نہیں عقائد کے باب میں بہت بڑی حقیقت کا اعلان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنی ذات اور صفات میں یکتا اور بے مثال ہے۔ مخلوق پر خالق کو نہ قیاس کیا جا سکتا ہے اور نہ مخلوق سے اسے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ اہل مذاہب کی گمراہی کی اصل وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اپنے خالق اور اپنے رب کو مخلوق اور بندوں پر قیاس کیا اور پھر گمراہ کن فلسفے ایجاد کئے۔ مسلمانوں میں بھی جو کلامی بحثیں اٹھ کھری ہوئیں وہ بھی اس اصل سے انحراف ہی کا نتیجہ تھیں۔ عقیدہ کی صحت کے لیے ضروری ہے کہ کسی قسم کی فلسفیانہ بحث میں پڑے بغیر اس سادہ حقیقت پر یقین کیا جائے کہ اللہ کے جیسی کوئی چیز نہیں۔
۲۱۔۔۔۔۔۔ اس کی تشریح سورۂ زمر نوٹ ۱۱۰ میں گزر چکی۔
۲۲۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ رعد نوٹ ۵۸۔
۲۳۔۔۔۔۔۔ اس آیت کے مفہوم کو صحیح طور سے سمجھنے کے لیے سلسلہ کلام کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ سورہ کا آغاز اس بات سے ہوا تھا کہ یہ قرآن اسی طرح کی وحی ہے جس طرح کی وحی وہ رسولوں کی طرف بھیجتا رہا ہے۔ یہ کوئی نرالی چیز نہیں ہے جس سے انسان نا آشنا ہو۔ پھر اس ہستی کی معرفت بخشی گئی ہے جس کی طرف سے وحی نا زل ہوتی ہے اور اس سلسلہ میں توحید کی نشانیوں کی طرف متوجہ کیا گیا۔ اسی سیاق میں یہاں واضح کیا جا رہا ہے کہ جس دن کی دعوت قرآن اور اس کا پیغمبر پیش کر رہا ہے وہ دین توحید ہے اور یہ وہی دین ہے جو تمام جلیل القدر انبیاء علیہم السلام کا دین رہا ہے لہٰذا اسی دین توحید کی مخلصانہ پیروی کرو اور اس میں نئی راہیں (بدعتیں نہ نکالو) کہ دینِ حق کا سرا ہاتھ سے چھوٹ جائے اور الگ الگ مذہبی گروہوں اور فرقوں میں بٹ کر رہ جائے۔
حضرت نوح پہلے رسول تھے جو انسانی آبادی کی طرف بھیجے گئے تھے انہیں جس دین پر چلنے کی ہدایت اللہ تعالیٰ نے فرمائی تھی وہی دین اس نے اس رسول پر بھی نازل کیا ہے اور یہی دین ان جلیل القدر انبیاء علیہم السلام کا رہا ہے جس کی طرف مختلف ملتیں منسوب ہیں۔ یہ دین__اسلام__ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہی ہے گو شریعتیں مختلف رہی ہیں جیسا کہ ارشاد ہوا ہے۔
لِکُلِّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شرْعَۃً وَمِنَہَاجاً (مائدہ۔ ۴۸)" ہم نے تم میں سے ہر ایک (گروہ) کے لیے ایک شریعت اور ایک منہاج (راہِ عمل) ٹھہرا دی ہے۔ "
شریعتوں کا یہ اختلاف فروع کی حیثیت رکھتا ہے جن کا اصولِ دین پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اصول دین میں توحید، آخرت، رسالت، ایک اللہ کی عبادت و اطاعت ، تقویٰ و پرہیزگاری، حق کی تلقین اور عدل و احسان جیسے بنیادی امور شامل ہیں اور شریعت تو اللہ کی اطاعت کی شکل اور اس کی تفصیل ہے جو دین کا لازمہ ہے۔ شریعت پر بھی اگرچہ دین کا اطلاق ہوا ہے جیسا کہ آیت اَلْیوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (مائدہ ۳)" آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا"۔ میں ہوا ہے تاہم یہاں چونکہ انبیاء علیہم السلام کے مشترک دین کو پیش کیا گیا ہے اس لیے یہاں دین سے مراد اصولِ دین ہی میں لیکن اس کا مطلب یہ لینا صحیح نہ ہو گا کہ شریعت دین سے بالکل خارج ہے کیوں کہ اصول دین میں جیسا کہ ہم نے اوپر واضح کیا اللہ کی عبادت و اطاعت شامل ہے اور اسی کی عملی شکل اور اس کا تفصیلی عمل نظامِ شریعت ہے۔ قرآن میں دین کا لفظ جامع مفہوم میں بھی استعمال ہوا ہے اور کبھی اس کے کسی خاص پہلو کے لیے بھی مثلاً
وَاذاَغشِیہُم مَوْجٌ کالظَّلَل دَعَوُااللّٰہَ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّینَ (لقمان:۳۲) "اور جب موجیں سائبانوں کی طرح ان پر چھا جاتی ہیں تو وہ اللہ کو پکارتے ہیں دین (خضوع و بندگی) کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ "
اس آیت میں دین کا لفظ خضوع اور بندگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے کیوں کہ مشرکین کا طوفان سے دو چار ہونے پر اللہ ہی کو پکارنا اس سے عاجزی کرنے کے مفہوم میں ہے نہ کہ اس کی شریعت کو خالصتہً قبول کرنے کے معنی میں۔ اس لیے اگر آیت زیر بحث میں دین کا لفظ اصولِ دین کے معنی میں استعمال ہوا ہے تو یہ محل کلام کے تقاضے کے تحت ہوا ہے لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ تکلف سے کام لیکر شریعت کی تفصیلات کو بھی اس میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے۔ جمہور مفسرین نے بھی اس آیت کی تفسیر میں دین سے اصول دین ہی مراد لیے ہیں۔ امام رازی لکھتے ہیں۔
" تو ضروری ہے کہ دین سے مراد وہ امور ہوں جو اختلاف شرائع کی بنا پر مختلف نہیں ہوتے اور وہ ہیں اللہ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور یومِ آخر پر ایمان، اور ایمان سے لازم آتا ہے کہ آدمی دنیا سے اعراض کرے اور آخرت کی طرف متوجہ ہو جائے ، مکارم اخلاق کے لیے کوشش کرے اور رذائل سے احتراز کرے۔ " (التفسیر الکبیر ج ۲۷ ص ۱۵ ۶)
" مراد دینِ اسلام کی اقامت ہے جو اللہ کی توحید اور اس کی اطاعت اور اس کے رسولوں ، اس کی کتابوں اور یومِ جزا پر ایمان نیز ان تمام باتوں پر مشتمل ہے جن کو قائم کرنے سے آدمی مسلم ہو جاتا ہے اور مراد شریعتیں نہیں ہیں جو امتوں کے حسبِ حال مصالح پر مشتمل ہوتی ہیں کیوں کہ وہ مختلف اور متفاوت ہوتی ہیں۔ " (الکشاف ج۳ ص ۴۶ ،۳ )۔
قریب قریب یہی بات علامہ آلوسی نے بھی اپنی تفسیر میں لکھی ہے۔ (ملاحظہ ہو روح المعانی ج ۲ ص ۲۱ )
" یعنی قدر مشترکہ ان (انبیاء) کے درمیان ایک اللہ کی عبادت ہے جس کا کوئی شریک نہیں اگرچہ ان کی شریعتیں اور ان کے منہاج مختلف ہیں۔ " (تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص ۱۰، ۹۔
مولانا امین احسن اصلاحی صاحب فرماتے ہیں : " اللہ کا دین شروع سے اسلام ہے جیسا کہ ارشاد ہے اِنَّ الدِّینَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاسْلَامِ (اصل دین اللہ کے نزدیک اسلام ہے)۔ اس دین کی بنیاد خالص اور کامل توحید پر ہے۔ یہی دین اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام بلکہ حضرت آدم علیہ السلام کو بھی دیا اور یہی دین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر بھی نازل کیا۔ اس کے عقائد اور اس کے اساسات شروع سے آخر تک بالکل ایک ہی ہیں۔ فرق اگر ہوا ہے تو جزئیاتِ شریعت میں ہوا ہے جس کو قرآن نے شریعۃ و منہاج کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ " (تدبر قرآن ج ۶ ص۱۵۳)
لیکن صاحبِ تفہیم القرآن نے ان لوگوں پر سخت گرفت کی ہے جنہوں نے اس موقع پر دین سے مراد شرعی احکام و ضوابط نہیں لیے ہیں بلکہ صرف اصولی باتیں مراد لی ہیں جو تمام انبیاء علیہ السلام کے درمیان مشترک رہی ہیں۔ فاضل مفسر نے اس رائے کو خطرناک قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ:
"اگر اس کی اصلاح نہ کر دی جائے تو آگے بڑھ کر بات دین و شریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں مبتلا ہو کر سینٹ پال نے دین بلا شریعت کا نظریہ پیش کیا اور سیدنا مسیح علیہ السلام کی امت کو خراب کر دیا۔ اس لیے کہ جب شریعت دین سے الگ ایک چیز ہے اور حکم صرف دین کو قائم کرنے کا ہے نہ کہ شریعت کو تو لا محالہ مسلمان بھی عیسائیوں کی طرح شریعت کو غیر اہم اور اس کی اقامت کو غیر مقصود بالذات سمجھ کر نظر انداز کر دیں گے اور صرف ایمانیات اور موٹے موٹے اخلاقی اصولوں کو لیکر بیٹھ جائیں گے۔ " (تفہیم القرآن ج ۴ص ۴۸۴)
مگر یہ صریح مغالطہ ہے کسی بھی مفسر نے یہ بات نہیں کہی کہ شریعت دین سے خارج ہے یا شریعت پر دین کا اطلاق نہیں ہوتا اور نہ کسی مفسر نے شریعت کی اہمیت گھٹا دی ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ سورہ شوریٰ کی اس آیت میں جو زیر بحث ہے متعدد مفسرین شرعی احکام و ضوابط کو شامل نہیں سمجھتے ان کے نزدیک ان کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قرآن میں کہیں بھی دین کا لفظ شریعت کے معنی میں نہیں آیا ہے یا دین کا لفظ جہاں بھی آیا ہے اس میں شریعت شامل نہیں ہے۔ قرآن میں ایسے کتنے الفاظ ہیں جو ایک جگہ محدود معنی میں استعمال ہوئے ہیں اور دوسری جگہ اپنے وسیع تر معنی میں۔ مثال کے طور پر طاغوت کا لفظ کہیں بت کے لیے استعمال ہوا ہے تو کہیں شیطان کے لیے اور کہیں گمراہ پیشواؤں اور حاکموں کے لیے تو کہیں سرکش اور مفسد لوگوں کے لیے۔ اب اگر ایک مفسر ایک آیت میں محلِ کلام کو ملحوظ رکھتے ہوئے طاغوت سے مراد بت لیتا ہے تو اس پر یہ الزام کیسے عائد کیا جاسکتا ہے کہ وہ دوسری چیزوں کے طاغوت ہونے کا منکر ہے ؟
آیت زیر تفسیر میں دین کے ساتھ "اَقیموا" کا لفظ آیا ہے جس کا مصدر اقامۃ ہے اور اقامۃ کے معنی عربی میں کسی چیز کا حق پوری طرح ادا کرنے کے ہیں :
اِقامۃ اشیِیٔ توفیۃُ حقہ (مفردات راغب ص۴۲۹)" کسی چیز کی اقامت اس کے حق کو پورا پورا ادا کرنا ہے۔ "
امام راغب نے آگے صراحت کی ہے کہ اقامت صلوٰۃ سے مقصود محض نماز پڑھنا نہیں بلکہ نماز کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے۔ اور (سورۂ مائدہ آیت ۶۸ میں) تورات و انجیل کو قائم کرنے سے مراد علم و عمل سے ان کے حقوق پورے پورے ادا کرنا ہے۔
اَ قَامَ الشیٔ: ادَامہٗ من قولہ تعالیٰ: وَیقیمُون الصَّلوٰۃَ۔ "کسی چیز کو قائم کرنا یعنی اس کو دائمی طور پر کرتے رہنا ہے۔ اسی معنی میں ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد " وہ نماز کو قائم کرتے ہیں "۔ (لسان العرب ج ۱۲ ،ص۴۹۸)
اور اقامت کے معنی سیدھا رکھنے کے بھی آتے ہیں۔
وَ اَنْ اَقِمْ وجْہَکَ للدّینِ حَنیفاً (یونس:۱۰۵)" اپنا رخ دینِ حنیف کی طرف سیدھا رکھو۔ "
وَاَقِیمُواوُجوہَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مسجدٍ (اعراف۔ ۲۹ )" اور اپنا رُخ سیدھا رکھو ہر عبادت گاہ میں۔ "
لہٰذا اقیمو الدین کے معنی ہوئے دین کو سیدھا رکھو، اس پر عمل پیرا ہو جاؤ اور اس کے حقوق پوری طرح ادا کرو۔ اور دین کا حق سب سے پہلے اپنی ذات سے متعلق ہوتا ہے اس کے بعد دوسروں سے متعلق۔ اس لیے خطاب کا رُخ یہاں فرد کے اپنے عقائد و اعمال اور اس کی اپنی اصلاح کی طرف ہے کیونکہ یہی نقطۂ آغاز ہے اور دین میں اس کو اولیت حاصل ہے۔ علامہ آلوسی نے اس کی وضاحت اس طرح کی ہے :
" اس کی اقامت سے مراد اس کے ارکان کی تعدیل اور اس بات سے اس کی حفاظت کرنا ہے کہ اس میں کوئی ٹیڑھ نہ پیدا ہو جائے نیز اس پر ہمیشہ عمل پیرا رہنا ہے۔ " (روح المعانی ج۹ ص ۲۱ )
علامہ شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں :
" یعنی سب انبیاء اور ان کی امتوں کو حکم ہوا کہ دین الٰہی کو اپنے قول و عمل سے قائم رکھیں اور اصل دین میں کسی طرح کی تفریق و اختلاف کو روانہ رکھیں۔ " (تفسیر مولانا شبیر احمد عثمانی ص ۶۲۸)
اور مولانا امین احسن صاحب فرماتے ہیں :
قائم رکھنے سے مراد یہ ہے کہ اس کی جو باتیں ماننے کی ہیں وہ سچائی کے ساتھ مانی جائیں جو کرنے کی ہیں وہ دیانت داری اور راست بازی کے ساتھ کی جائیں نیز لوگوں کی برابر نگرانی کی جائے کہ اس سے غافل یا منحرف نہ ہونے پائیں۔ اور اس بات کا بھی پورا اہتمام کیا جائے کہ اہل بدعت اس میں کوئی رخنہ نہ پیدا کر سکیں۔ (تدبر قرآن ج ۶ ص ۱۵۳)
اور اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا ولا تَتَفَرَّقُوافِیہِ یعنی اس معاملہ میں تفرقہ میں نہ پڑو۔ تو تفرقہ میں پڑنا اقامتِ دین کی ضد ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے دین کے معاملہ میں نئی نئی راہیں نہ نکالو، اس پر اپنی طرف سے نہ کوئی اضافہ کرو اور نہ کمی، اپنی طرف سے مذاہب نہ تراشو، اور نہ کسی مذہب کا جوڑ اس دین سے لگاؤ، بدعتیں اس میں داخل نہ کرو دین کی اصل شاہراہ سے ہٹ جاؤ اور فرقوں میں بٹ کر رہ جاؤ۔ اللہ کا دین ایک چشمۂ صافی ہے اور یہی انسانیت کے لیے آبِ حیات ہے۔ لہٰذا اس کو ہر طرح کی آمیزش سے ہمیشہ پاک اور خالص رکھو۔ اس میں جو چیز بھی ملائی جائے گی وہ زہر ہی ہو گا۔
یہ ہے اقامتِ دین کا سیدھا سادا مفہوم جس کی تائید عربی لغت سے بھی ہوتی ہے اور جمہور مفسرین کی تشریحات سے بھی لیکن موجودہ دور کی اسلامی تحریکیں اقامتِ دین کو ایک جامع اصطلاح کے طور پر مسلمانوں کے نصب العین کی حیثیت سے پیش کر رہی ہیں جس کا اثر دین کے مزاج پر بھی پڑ رہا ہے اور دعوت کے مزاج پر بھی۔ سورۂ شوریٰ کی یہ آیت اقامت دین کو فریضہ کی حیثیت سے پیش کرتی ہے نہ کہ نصب العین کی حیثیت سے۔ فریضہ تو بندہ کی ذمہ داری ہوتی ہے جسے لا محالہ اسے ادا کرنا ہوتا ہے جب کہ نصب العین منزلِ مقصود اور کوششوں کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی چیز ہے۔ قرآن نے فلاحِ آخرت اور اس کی کامیابی پر ہی نگاہوں کو مرتکز کرتی ہیں اور مدنی سورتوں میں بھی اسی کو گوہرِ مقصود کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔
پھر اقامتِ دین کو جامع اصطلاح قرار دے کر اس کی تشریح و توضیح اس طرح کی جا رہی ہے کہ دین کے وہ تقاضے جو اجتماعی زندگی سے متعلق ہیں ابھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔ اسلام کے معاشرتی، معاشی اور سیاسی نظام کے قیام کو اولین حاصل ہو جاتی ہے اور عقیدہ و عبادت کا پہلو جسے قرآن نے یہاں ابھارا ہے دب جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اَقِیمُو الدین کا ترجمہ" اسلامی نظامِ زندگی قائم کرو" کیا جاتا ہے اور قائم کرو سے زمین پر قائم کرنا مراد لیا جاتا ہے اور زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ اقتدار حاصل کر کے اسلام کے سیاسی نظام کو قائم کر دو اور اس کے قوانین نافذ کر دو۔ ان میں سے کوئی بات بھی بجائے خود غلط نہیں ہے کیوں کہ قرآن میں ان سب باتوں کی ہدایت کی گئی ہے لیکن ہر بات کا ایک محل ہے۔ سورۂ شوریٰ کی یہ آیت اس کا محل نہیں ہے اس لیے اسلام کے اجتماعی تقاضوں کو یہاں چسپاں کرنا سراسر تکلف ہے۔ اس تکلف سے عربی کی مستند تفاسیر پاک ہیں مگر موجودہ زمانہ میں سیاسی و معاشی نظاموں کی کشمکش نے ذہنوں کو متاثر کیا ہے اور اس کے زیر اثر اسلامی تحریکیں دین کو نئے اسلوب میں پیش کر رہی ہیں جس میں بنیاد کو قائم کرنے سے پہلے ہی عمارت کو تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا جاتا ہے۔ گویا جو چیز دین میں اولین توجہ کی مستحق تھی اس کی اہمیت کو پوری طرح ملحوظ نہیں رکھا گیا اور جو چیز بعد کے مرحلہ کی تھی اس کو ابتدائی مرحلہ ہی میں مرکزِ توجہ بنا دیا گیا۔ نتیجہ یہ کہ جو دین دلوں پر قائم ہوتا ہے وہ بہت کم زیر بحث آتا ہے اور جو دین زمین پر قائم ہوتا ہے وہ بحث کا اصل موضوع بنتا ہے۔
جن انبیاء علیہم السلام کا اس آیت میں ذکر ہوا ہے ان کا اسوہ بھی اقامتِ دین کے مفہوم کو متعین کرتے وقت سامنے رہنا چاہیے۔ حضرت نوح نے اپنی طویل زندگی قوم کو دعوت دینے میں گزاری۔ یہ دعوت بت پرستی اور شرک کو چھوڑ دینے اور توحید کو قبول کرنے کی تھی۔ البتہ جب قوم پر عذاب آیا تو اس کی تباہی کے بعد اہل ایمان کو اقتدار حاصل ہوا اور اسلام نے اجتماعی ہیئت کی شکل اختیار کر لی۔ دوسری شخصیت ابراہیم علیہ السلام کی ہے۔ آپ نے بھی اپنی بت پرست قوم کو جھوٹے معبودوں کو چھوڑنے اور توحید کو قبول کرنے کی دعوت دی اور حق و باطل کی اسی کشمکش میں آپ کو بالآخر ہجرت کرنا پڑی۔ ہجرت کے بعد آپ نے اپنی اولاد کو آزاد ماحول میں بسایا تا کہ ان پر اللہ ہی کے دین کا اقتدار قائم ہو اور وہ اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کام انجام دیں اس مقصد کے لیے انہوں نے فلسطین اور مکہ دونوں کا انتخاب کیا۔ تیسری شخصیت موسیٰ علیہ السلام کی ہے۔ آپ نے فرعون اور اس کی قوم کے سامنے دعوتِ توحید پیش کی اور بنی اسرائیل کو جو پہلے سے مسلمان تھے صبر کے ساتھ اسلام کے بنیادی احکام پر عمل کرنے کا حکم دیا یہاں تک کہ مصر کو چھوڑ کر آپ بنی اسرائیل کے ساتھ نکل گئے اور جب کوہِ طور کے دامن میں آپ کو شریعت عطا ہوئی تو اس آزادانہ ماحول میں اس کے احکام بنی اسرائیل پر نافذ کئے گئے۔ چوتھی شخصیت عیسیٰ علیہ السلام کی ہے۔ آپ برنی اسرائیل کے طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے اور بنی اسرائیل پر رومیوں کی حکومت تھی۔ چونکہ اس وقت بنی اسرائیل میں بگاڑ عام ہو گیا تھا، ان کی سرکشی اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی اور دینداری محض رسمی حیثیت سے باقی رہ گئی تھی اس لیے آپ نے دین کی اصل حقیقت کو اجاگر کیا اور اللہ کی اطاعت و بندگی کی دعوت دی۔ ایک مسلمان قوم کے موجود ہوتے ہوئے آپ نے یہ نہیں کہا کہ قیصر کی حکومت کو ہٹاؤ اور اسلامی نظام حکومت قائم کر دو۔ اور ایسا نہ کہنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ آپ کے دین کا سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا اور آپ وقت کے سیاسی نظام میں انہیں فٹ کرنا چاہتے تھے بلکہ اس لئے کہ مسلمانوں کا معاشرہ بالکل کھوکھلا ہو گیا تھا اور ابھی وہ مرحلہ نہیں آیا تھا کہ کوئی سیاسی اقدام کیا جاتا۔ ورنہ تورات میں سیاسی احکام تو اس وقت بھی موجود تھے جو اسلام کے لیے اقتدار کے متقاضی تھے۔ آخری شخصیت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ہے۔ آپ نے تیرہ سال تک مکہ میں جو دعوت دی وہ شرک و بت پرستی کو ترک کرنے اور توحید، آخرت، رسالت جیسی حقیقتوں کو قبول کرنے کی دعوت تھی اور اہل ایمان کی جو جماعت تشکیل پائی اس کے لیے تقویٰ کی بنیادیں فراہم کیں تاکہ ہر ہر فرد کی زندگی سنور جائے یہاں تک کہ ہجرت کا مرحلہ پیش ا گیا اور آپ کو مدینہ میں آزاد اسلامی ریاست قائم کرنے کے مواقع میسر آئے اور اسی دوران شریعت کے وہ احکام بھی نازل ہوئے جن کا تعلق اسلام کے غلبہ اور اس کے سیاسی نظام کو قائم کرنے سے ہے۔ بلا شبہ آپ نے اسلام کے سیاسی نظام اور اجتماعی نظام کو قائم اور نافذ کر کے دکھایا لیکن سوال یہ ہے کہ جس وقت سورۂ شوریٰ کی آیت اَنْ اَقیمو الدین (دین کو قائم کرو) نازل ہوئی تو کیا آپ نے اسی وقت مسلمانوں کو اسلام کا سیاسی نظام قائم کرنے کی دعوت دی یا آپ اس کے لیے زمین ہموار کرتے رہے ؟ اگر زمین ہموار کرتے رہے تو یہی کام موجودہ دور میں بھی مجبور کن حالات میں کیا جاسکتا ہے یعنی ایسے حالات میں جہاں مسلمانوں کو اقتدار حاصل نہ ہو یا اس کے حصول کی راہیں بظاہر مسدود ہوں۔ لہٰذا اس سلسلہ میں جو خدمت بھی انجام دی جائے گی وہ اقامت دین ہی کا کام ہو گا۔ مگر موجودہ اسلامی تحریکیں اقامتِ دین کو اپنا طرۂ امتیاز سمجھتی ہیں اور دوسروں کی دینی خدمات اور ان کی دعوتی جدوجہد کو اقامتِ دین سے تعبیر کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ غلط ذہنیت اس لیے پیدا ہو گئی ہے کہ انہوں نے قرآن کے اس سادہ حکم کو کہ دین قائم کرو نظامِ اسلامی اور اس طرح کی دوسری ترکیبیں بہ کثرت استعمال کر کے ایک خاص اصطلاح کی حیثیت دے دی اور پھر اس معیار پر دوسروں کے کام کو جانچنا شروع کیا تو ان کو اپنے سوا کوئی بھی اقامتِ دین کا علمبردار نظر نہیں آیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سب جزئی کام کر رہے ہیں اور دین کی کلی خدمت ان ہی کے حصہ میں آئی ہے۔
واضح رہے کہ اقیموا الدین (دین کو قائم رکھو) کی ترکیب پورے قرآن میں صرف ایک جگہ ہی آئی ہے اور وہ ہے سورۂ شوریٰ کی یہ آیت۔ جب کہ قرآن نے اس حکم کو جو ان الفاظ میں یہاں بیان ہوا ہے دوسرے الفاظ اور دوسری ترکیبوں میں متعدد مقامات پر بیان کر دیا ہے۔ پھر اقامت دین کے الفا ظ ہی کو نصب العین کی تعبیر کے لیے کیوں ضروری قرار دیا جائے ؟
اقامتِ دین کے موضوع پر راقم سطور کی وہ تحریریں جو تفسیر دعوۃ القرآن سے پہلے کی ہیں اور آیت کی اس تشریح و توضیح سے مطابقت نہیں رکھتیں ان سے راقم سطور رجوع کرتا ہے)۔
۲۴۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم توحید کی دعوت دے رہے تھے اور یہی بات مشرکین کو سخت ناگوار تھی۔
۲۵۔۔۔۔۔۔ اللہ کی مشیت اس کی حکمت کے مطابق ہوتی ہے۔ جو شخص اس کی طرف رجوع کرتا ہے اللہ تعالیٰ ضرور اس کی رہنمائی کا سامان کرتا ہے اور توفیق عطا کرتا ہے کہ وہ اللہ کی راہ پر چلے۔ دین حق کو قبول کر کے اس کی روشنی میں چلنے کی سعادت ان ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جن کو اللہ تعالیٰ اس کارِ عظیم کے لیے منتخب فرماتا ہے۔
۲۶۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۳۰۹ اور سورۂ آل عمران نوٹ ۲۸ ، سورۂ حمٰ السجدہ نوٹ ۲۸۔
۲۷۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا میں عمل کی مہلت دینے کا فرمان۔
۲۸۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ حم السجدہ نوٹ ۶۹۔
۲۹۔۔۔۔۔۔ یعنی اہل کتاب نے جو تحریف شدہ کتابیں تورات، انجیل وغیرہ ورثہ میں پائی ہیں ان کے بارے میں وہ خود شک اور الجھن میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ انہیں یقین اور وثوق حاصل نہیں ہے کہ موجودہ کتابوں میں جو باتیں بیان ہوئی ہیں وہ ٹھیک ٹھیک وہی ہیں جو اصل کتاب میں موجود تھیں۔ اب اس شک سے نکلنے کا ذریعہ قرآن ہے جو اللہ کا محفوظ کلام ہے۔
۳۰۔۔۔۔۔۔ یعنی جب صورتِ حال یہ ہے کہ لوگوں نے اپنے الگ الگ مذہب بنا لئے ہیں اور فرقوں میں بٹ گئے ہیں تو تمہارا کام ان سب کو دین حق کی طرف دعوت دینا ہے اور خود اس پر جمے رہنا ہے۔
یہاں بھی اقامتِ دین کا یہ پہلو نمایاں ہے کہ دینِ حق پر خود بھی قائم رہ اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دو۔
۳۱۔۔۔۔۔۔ یعنی دین کے معاملہ میں اتباع وحی الٰہی کی ہونی چاہیے نہ کہ لوگوں کی خواہشات کی۔ لوگوں نے جب اپنی خواہشات کو دین میں داخل کیا تو اس میں طرح طرح کی بدعتوں نے راہ پائی یہاں تک کہ دین کا حلیہ بگڑ کر رہ گیا اور نت نئے مذاہب وجود میں آ گئے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ فرقوں میں بٹ کر رہ گئے۔
۳۲۔۔۔۔۔۔ یعنی اس شان کی کتاب کہ وہ حق کو دو ٹوک انداز میں پیش کرتی ہے۔
۳۳۔۔۔۔۔۔ یعنی کسی فرد یا فرقہ کے ساتھ جانب داری نہ برتوں اور نہ کسی فرد یا مذہب کے خلاف ایسی بات کہوں جو عدل و انصاف کے خلاف ہو۔ بے لاگ انصاف کی بات کہنا میرا فرض منصبی ہے۔
۳۴۔۔۔۔۔۔ یعنی دلائل واضح ہو جانے کے بعد اگر تم نہیں مانتے تو بحث کا خاتمہ ہو جانا چاہیے۔ معاملہ اللہ کی عدالت کے سپرد ہے وہاں اس نزاع کا فیصلہ ہو جائے گا۔
۳۵۔۔۔۔۔۔ یعنی جب کہ انسان کی فطرت اپنے رب کی پکار پر لبیک کہہ چکی ہے۔ فطرتِ انسانی ایک خدا ہی سے جو اس کا خالق ہے آشنا ہے اور دنیا میں آنے سے پہلے ہر شخص کی روح اپنے ربِ حقیقی کا اقرار کر چکی ہے۔ (سورۂ اعراف آیت ۲۶۵)
۳۶۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کے بارے میں ایسی حجتیں پیش کرنا جو انسان کی فطرت سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور اس کے قلب و ضمیر کی آواز کے خلاف ہیں کٹ حجتی کے سوا کچھ نہیں۔ اور اللہ کے بارے میں کٹ حجتی اور منطق چھانٹنا بالکل باطل ہے۔
۳۷۔۔۔۔۔۔ میزان یعنی عدل و انصاف کو قائم کرنے والی چیز کتاب الٰہی خدائی میزانDivine Balance ہے جو انسانی سوسائٹی کے لیے قیام عدل کا ذریعہ ہے۔ یہ ایسے اصول اور ایسے احکام و قوانین پر مشتمل ہے جن کو رو بہ عمل لانے اور جن کے مطابق متنازعہ امور کا فیصلہ کرنے سے انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں عدل کا دور دورہ ہو جاتا ہے۔ یہ میزان ہر چیز کی قدر متعین کرتی ہے کہ کون سا عمل کیا اہمیت اور فضیلت رکھتا ہے اور کن باتوں کو دین میں اولیت حاصل ہے۔ یہ میزان بندگانِ خدا کے باہمی حقوق بھی تول کر رکھ دیتی ہے تاکہ کسی کے ساتھ کوئی نا انصافی نہ ہو۔
واضح رہے کہ میزان کا اطلاق شریعت پر بھی ہوتا ہے جس کے احکام قرآن اور سنت دونوں میں بیان ہوئے ہیں کیونکہ وہ ایک عادلانہ نظام ہے۔
۳۸۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ نے کتاب اور میزان اس لیے نہیں نازل کی ہے کہ لوگوں کے لیے اس کا ماننا اور نہ ماننا یکساں ہو بلکہ اس لیے نازل کی ہے تاکہ اس کو ماننے اور نہ ماننے کے الگ الگ نتائج ظاہر ہوں جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے قیامت کا دن مقرر کیا ہے جو عجب نہیں کہ قریب ہی آ لگا ہو۔
۳۹۔۔۔۔۔۔ یعنی وہ کہتے ہیں کہ قیامت کو اگر آنا ہے تو وہ آ کیوں نہیں جاتی۔ اس طرح وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔
۴۰۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ کی عدالت میں حاضر ہونے اور اس کے حضور جواب دہی سے وہ خائف رہتے ہیں۔
۴۱۔۔۔۔۔۔ قیامت کا انکار صریح گمراہی ہے اور اس کے بارے میں بحث میں الجھنا گمراہی میں دور نکل جانا ہے۔
۴۲۔۔۔۔۔۔ یہ اس شبہ کا ازالہ ہے کہ جب حقیقت وہ ہے جو اوپر بیان ہوئی تو اللہ کافروں کو رزق کیوں دیتا ہے ؟ فرمایا اللہ اپنے بندوں پر مہربان ہے اس لیے وہ کافروں کو بھی رزق دیتا ہے۔ رزق کا معاملہ اس کی مشیت پر موقوف ہے وہ جس کو چاہے رزق دے اور اس کی مشیت پوری ہو کر رہتی ہے۔ اس کو روکنے والا کوئی نہیں۔ اللہ اگر اپنے بندوں پر مہربان نہ ہوتا تو کفر کرنے پر ان کا دانا پانی فوراً بند کر دیتا مگر وہ انہیں مہلتِ عمل دیتا ہے تاکہ ان میں اپنے رب کے مہربان ہونے کا احساس پیدا ہو اور وہ اس کی طرف پلٹیں۔
۴۳۔۔۔۔۔۔ یعنی جو آخرت کے لیے نہ بیج بوئے گا اور اس کی آبیاری کرے گا اللہ اس کی نشو و نما کرے گا اور جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو اپنی فصل کو بالکل تیار پائے گا۔
یہ آیت اور قرآن کی دوسری کتنی ہی آیتیں آخرت کو نصب العین، مقصود اور غایت کی حیثیت سے پیش کرتی ہیں اس لیے آخرت کو عمل کے لیے صرف محرک سمجھنا صحیح نہیں۔ وہ محرک بھی ہے اور مقصود بھی لہٰذا نگاہیں آخرت کی کامیابی پر ہی مرتکز ہونی چاہئیں۔
۴۴۔۔۔۔۔۔ یعنی جو شخص آخرت کو مقصود بنانے کے بجائے دنیا کو مقصود بناتا ہے اس کو دنیا کی ساری چیزیں تو نہیں ملتی البتہ جس قدر اللہ چاہتا ہے اسے دنیا ہی میں دے دیتا ہے لیکن اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا کیوں کہ جب اس نے آخرت کو مقصود نہیں بنایا تو اس کو آخرت کی نعمتیں کیوں ملنے لگیں۔ جب اس نے وہاں کے لیے کچھ بویا ہی نہیں تو فصل کس طرح اُگے گی؟
۴۵۔۔۔۔۔۔ یعنی کیا انہوں نے اپنے مذہبی پیشواؤں اور لیڈروں کو شریکِ خدا کی حیثیت دی ہے کہ انہوں نے ان کے لیے مذہب ایجاد کر دیئے جن کی اللہ نے ہرگز اجازت نہیں دی اس سوال میں کئی اہم حقیقتیں پوشیدہ ہیں :
ایک یہ کہ جن مذہبی پیشواؤں نے اپنی طرف سے مذہب ایجاد کئے یا جن لیڈروں نے اپنی طرف سے مذہبی طور پر طریقے رائج کئے یا اللہ کے قوانین کے مقابلہ میں اپنی مرضی سے قوانین بنائے۔ انہوں نے اپنے کو اللہ کے اختیارات میں شریک سمجھا ورنہ اللہ نے ان کو یہ اجازت ہرگز نہیں دی تھی کہ وہ لوگوں کے لیے کوئی مذہب ایجاد کریں یا مذہبی طریقہ مقرر کریں یا اپنی مرضی سے شریعت بنائیں یا قانون سازی کریں خواہ وہ اللہ کی شریعت اور اس کے قوانین کے خلاف ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔
دوسری یہ کہ جو لوگ اپنے مذہبی پیشواؤں اور لیڈروں کے پیچھے چل رہے ہیں اور اللہ کے دین اور اس کی شریعت کے مقابل ان کے مقرر کئے ہوئے طور طریقوں یا قوانین کی پیروی کر رہے ہیں انہوں نے در حقیقت ان کو شریکِ خدا کی حیثیت دے رکھی ہے خواہ وہ زبان سے ان کو شریکِ خدا کہیں یا نہیں کہیں کیوں کہ بندوں کے لیے مذہبی طور طریقے مقرر کرنا یا قانون زندگی بنانا اللہ ہی کا حق ہے اس کے حق میں دوسروں کو شریک کرنا ان کو خدا کا شریک ٹھہرانے کے ہم معنی ہے۔
تیسری یہ کہ اللہ کے منظور کردہ دین۔اسلام۔کے سوا جو مذہب بھی بنائے گئے ہیں ان میں سے کسی کی پیروی کے لیے بھی وجہ جواز نہیں ہے اس لیے جس مذہب کی بھی پیروی کی جائے گی وہ اللہ کا منکر اور نافرمان قرار پائے گا۔
چوتھی یہ کہ اللہ کے دین نے جن باتوں کو اپنے دائرہ میں لیا ہے ان میں سے کسی کے مقابل کوئی طریقہ رائج کرنے یا قانون سازی کرنے کا کسی کو اختیار نہیں ہے۔ جو شخص یہ حرکت کرتا ہے وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے۔
۴۶۔۔۔۔۔۔ یعنی آخری فیصلہ کے لیے قیامت کا دن مقرر نہ کیا گیا ہوتا تو دنیا ہی میں فیصلہ چکا دیا گیا ہوتا۔
۴۷۔۔۔۔۔۔ "روضات" یعنی باغیچے ، مراد جنت کے پر بہار مقامات ہیں۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ روم نوٹ ۲۱۔
۴۸۔۔۔۔۔۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا قریش سے خطاب ہے جن سے آپ کی قریب ترین رشتہ داری تھی۔ مدعا یہ ہے کہ میں اللہ کا جو پیغام تمہیں پہنچا رہا ہوں اس پر تم سے کسی بھی صلہ کا طالب نہیں ہوں بلکہ یہ تمہاری رشتہ داری کی محبت ہے جس کے تقاضے کو پورا کر رہا ہوں تاکہ تم اس پیغام کو جس کو لیکر میں آیا ہوں قبول کرو۔ اس طرح تم جہنم کے عذاب سے بچو گے اور تمہیں ابدی فلاح حاصل ہو گی۔
آیت میں اِلاّ استثناء منقطع ہے جو لیکن اور بلکہ کے معنی دے رہا ہے اور یہ ایسا ہی استثناء ہے جیسا کہ سورہ فرقان کی آیت ۵۷ میں ہے :
قُلْ مَااَسْئَلُکُمْ عَلَیہِ مِنْ اَجْرٍ الاَّمَنْ شَاءَ اَنْ یتَّخِذَ اِلٰی رَبِّہِ سَبِیلاً۔ " کہو میں تم سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں طلب کر رہا ہوں مگر یہ کہ جو چاہے اپنے رب کی راہ اختیار کرے۔ "
ظاہر ہے یہاں کسی کا اپنے رب کی راہ اختیار کرنا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے تبلیغ کا معاوضہ نہیں ہے۔ اسی طرح اس سلسلے میں قریش کی قرابت داری کی محبت کا حوالہ معاوضہ اور صلہ کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس کے تقاضے کو پورا کرنے کے معنی میں ہے۔ ایک رسول تبلیغ کا کام ایک فریضہ کی حیثیت سے انجام دیتا ہے اور فریضہ بھی ایسا جو اس کا فرضِ منصبی ہوتا ہے لیکن جس قوم سے اس کا نسبی تعلق ہوتا ہے اس کی فطری محبت اسے اس صورت میں اور زیادہ بے چین کر دیتی ہے جب وہ کفر کی راہ اختیار کر کے اللہ کے عذاب کو دعوت دیتی ہے۔
بعض مفسرین نے آیت کی یہ تاویل کی ہے کہ میں تم سے اس کام پر کوئی صلہ طلب نہیں کرتا مگر چاہتا ہوں کہ تم کم از کم رشتہ داری کی محبت کا لحاظ کرو۔ مگر یہ بات ایک نبی کے مقام سے فرو تر ہے کہ وہ اپنے مخالفین سے رشتہ داری کی محبت کا مطالبہ کرے۔ قرآن میں ہر رسول کی زبان سے یہی بات ادا ہوئی ہے کہ :
مَااَسْئَلُکُمْ عَلَیہِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلاَّ عَلٰی رَبِّ الْعَالَمِینَ " میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا میرا جو رب العلمین کے ذمہ ہے۔ " (شعراء۔ ۱۰۹۔
اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت فرمائی کہ فرمائیں :
قُلْ مَاسَأَلْتُکُمْ مِنْ اَجْرٍ فَہُوَ لَکُمْ اِنْ اَجْرِیَ اِلاَّ عَلَی اللّٰہِ۔ " کہو اگر میں نے تم سے کوئی اجر مانگا ہے تو وہ تمہارے ہی لیے ہے۔ میرا اجر تو اللہ ہی کے ذمہ ہے۔ " (سبا۔ ۴۷)
اور مسلمانوں کے ایک فرقہ نے جو حضرت علی کی امامت اوران کے بارے میں اپنے غلو آمیز عقیدہ کو قرآن سے ثابت کرنا چاہتا ہے اِلاَّ الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے قرابت دار حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین کی محبت مراد لی۔ حالانکہ جس وقت یہ سورہ نازل ہوئی تھی اس وقت نہ حضرت حسن کا وجود تھا اور نہ حضرت حسین کا۔ اور آپ کے اکثر قرابت دار مشرک تھے اس لیے اس فقرہ کے یہ معنی لینا کسی طرح درست نہیں کہ میں اس تبلیغ کے کام پر یہ چاہتا ہوں کہ تم میرے قرابت داروں سے محبت کرو۔ قرآن میں انبیاء علیہم السلام کی بے لوث خدمت کے سلسلہ میں جو کچھ ارشاد ہوا ہے اور جن آیتوں کا ہم نے اوپر حوالہ دیا ہے ان کے پیش نظر ایسے معنی لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
۴۹۔۔۔۔۔۔ یہ اللہ کی طرف سے قدر افزائی ہے کہ بندہ جب اس کی طرف بڑھتا ہے اور نیکی کرتا ہے تو وہ اس میں مزید حسن و خوبی پیدا فرماتا ہے۔ اگر ایک شخص کے بنائے ہوئے محل کو چاندنی رات چار چاند لگا دیتی ہے تو اللہ جب کسی شخص کی نیکی کو آراستہ کرے گا تو اس کے نکھار اور اس کے حسن کا کون اندازہ کر سکتا ہے !
۵۰۔۔۔۔۔۔ یعنی جو وحی تمہارے قلب پر نازل ہوتی ہے اس کا سلسلہ بند کر دے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسی سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد ہوئی ہے :
وَلَوْشِئنَا لَنَذْھَبَنَّ بِالِّذِیْ اَوْ حَینَااِلَیکَ " اور اگر ہم چاہیں تو جو وحی ہم نے تم پر کی ہے اس کو چھین لیں۔ " (بنی اسرائیل۔ ۸۶)
اور مقصود اس سے یہ واضح کرنا ہے کہ یہ کلام وحی الٰہی ہے جو اللہ کے نازل کرنے سے نازل ہوا ہے اور وہ چاہے تو اس وحی کو سلب بھی کرسکتا ہے۔ اس میں پیغمبر کا اپنا کوئی دخل نہیں ہے لہٰذا یہ الزام بالکل بے بنیاد ہے کہ قرآن کو پیغمبر نے گڑھا ہے۔
۵۱۔۔۔۔۔۔ یعنی آنکھیں کھول کر دیکھو کہ اس کلام کے ذریعہ حق ثابت ہو رہا ہے یا نہیں۔ اگر حق ثابت ہورہا ہے اور یقیناً ثابت ہو رہا ہے تو یہ اس کے اللہ کی طرف سے نازل ہونے کا کھلا ثبوت ہے۔
۵۲۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے ان لوگوں کی طرف جو دل میں محسوس کرتے ہیں کہ یہ کلام حق ہے لیکن تعصب اور ناجائز مصلحتوں کی بنا پر اس کے حق ہونے کا اعتراف نہیں کرتے اور ان کا یہ رویہ ان کے ضمیر کے خلاف ہوتا ہے مگر اللہ دل کے راز جانتا ہے اس لیے ایک دن آئے گا جب وہ انہیں بتائے گا کہ انہوں نے اپنے ضمیر کی آواز کو کس طرح دبا کر رکھا تھا۔
۵۳۔۔۔۔۔۔ یہ توبہ کی ترغیب ہے کہ گنہگاروں کے لیے اب بھی موقع ہے کہ وہ سنبھل جائیں اور اللہ کے حضور توبہ کریں۔ جو شخص بھی خلوصِ دل سے اللہ کے حضور توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دھتکارتا نہیں ہے بلکہ اس کی توبہ کو قبولیت بخشتا ہے اور گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔
۵۴۔۔۔۔۔۔ یعنی ایمان لاؤ اور نیک عمل کرو تو اللہ تمہاری دعائیں ضرور سنے گا کہ نیک لوگوں کی دعائیں اللہ کے ہاں شرفِ قبولیت حاصل کر لیتی ہیں۔
واضح رہے کہ نیک بندوں کی دعائیں دنیوی نعمتوں کے حصول سے زیادہ جہنم کے عذاب سے بچنے اور اخروی کامیابی کے حصول کے لیے ہوتی ہے اور اللہ ان کی ان دعاؤں کو ضرور قبول فرماتا ہے۔
۵۵۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں ایک بہت بڑی معاشی حقیقت پر سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ دنیا میں کسی کو کشادہ رزق ملتا ہے اور کسی کو نپا تلا۔ ایسا کیوں نہیں ہوا کہ ہر شخص کو وافر پیمانہ پر رزق ملتا یہاں تک کہ وہ اپنی معاشی ضرورت کے لیے دوسرے کا دستِ نگر نہ رہتا۔ ایسا کرنا یقیناً اللہ کے لیے کچھ بھی مشکل نہ تھا اور اس سے اللہ کے خزانوں میں ہرگز کوئی کمی واقع نہ ہوتی لیکن بندوں کی مصلحت متقاضی تھی کہ ایک خاص مقدار ہی میں انہیں رزق دیا جائے کیوں کہ رزق کو وافر مقدار میں پا کر انسان غرور اور گھمنڈ میں مبتلا ہو جاتا اور یہ غرور اور گھمنڈ اسے سرکش بنا دیتا ہے اور اس بات پر آمادہ کرتا کہ دوسرے لوگوں پر برتری حاصل کرے جس کے لیے وہ ظلم و زیادتی پر اتر آتا۔ اس طرح انسانی سوسائٹی میں بڑے پیمانہ پر خون خرابہ ہوتا اور اودھم مچ جاتا۔ جن لوگو پر رزق کے دروازے کشادہ ہو گئے ہیں ان کی نفسیات اور ان کا طرزِ عمل ایسا ہی ہے اور اس سے یقیناً انسانی سوسائٹی میں ظم و زیادتی کی کثرت ہو گئی ہے تاہم یہ صورت ایک خاص حد تک ہی پائی جاتی ہے لیکن اگر رزق کے دروازے سب کے لیے کشادہ ہو جاتے تو ظلم و زیادتی کا بالکل غلبہ ہو جاتا اور انسانی سوسائٹی میں بہت بڑے پیمانہ پر فساد پھوٹ پڑتا۔
موجودہ دور میں جو معاشی ترقی ہوئی ہے اور اس کے نتیجہ میں خوشحالی جو عام ہوتی جا رہی ہے اس کی نسبت سے بدامنی، انار کی، دہشت گردی اور خوں ریزی میں بھی اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ جو دن نکلتا ہے شر و فساد کی وحشت ناک خبریں سناتا ہے اور جنگ میں انسانوں کو مارنے کے لیے ایسے مہلک ہتھیار استعمال کئے جاتے ہیں کہ انسانیت کانپ اٹھے انسان کش کیمیائی دواؤں اور اسلحہ سازی پر بے شمار دولت صرف کی جاتی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو اور زیادہ خوشحال بنا دے تو وہ فساد اور ظلم و زیادتی کا کیسا طوفان زمین پر برپا کریں گے۔
۵۶۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورہ روم نوٹ ۸۶۔
۵۷۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ ساری کار فرمائی اسی کی ہے اور وہی ہے تعریف اور شکر کا مستحق اس کے سوا نہ کسی کا عالم اسباب پر تصرف ہے اور نہ کوئی ہستی بندوں پر نوازشیں کرنے والی ہے کہ حمد کی مستحق قرار پائے۔
۵۸۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ نوٹ ۱۹۶۔
۵۹۔۔۔۔۔۔ زمین پر تو جاندار مخلوق پھیلی ہوئی ہے ہی فضا میں بھی پرندے اڑتے پھرتے ہیں۔ یہ جاندار تو اپنی جان کے بھی مالک نہیں۔ پھر کون ہے جو ان کا مالک اور رب ہے ؟ اس کا جواب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہی جس نے ان کو پیدا کیا اور ان کو زمین اور فضا میں پھیلا رہا ہے۔
آیت کے ان الفاظ میں کہ وَبَثَّ فِیہما " ان دونوں میں (یعنی زمین اور آسمان میں) جاندار پھیلا دیئے " اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ آسمانی دنیا میں بھی جاندار مخلوق موجود ہے۔
۶۰۔۔۔۔۔۔ آیت میں خطاب کافروں اور نا فرمانوں سے ہے۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ یہ تمہارے کرتوت ہی ہیں جو تمہارے لیے ایک نہ ایک مصیبت لاتے رہتے ہیں۔ ایک شخص جو برائیاں کماتا ہے اس کے نتیجہ میں اس پر کوئی نہ کوئی افتاد پڑتی ہے اور جو سوسائٹی برائیاں سمیٹ لیتی ہے وہ اجتماعی طور پر مصیبت کا شکار ہو جاتی ہے۔ آیت کا مدعا اسی حقیقت کو واضح کرتا ہے ورنہ مصیبتوں کا نزول نیک لوگوں پر بھی ہوتا ہے جس سے ان کی آزمائش مقصود ہوتی ہے مگر یہاں یہ پہلو زیر بحث نہیں ہے۔
۶۱۔۔۔۔۔۔ یعنی اللہ جب چاہے تمہاری آزادی سلب کر سکتا ہے اور تم اس کے عذاب کی گرفت میں آ سکتے ہو۔ نہ تمہارا اپنا یہ بل بوتا ہے کہ تم اس کی گرفت میں آنے سے اپنے کو بچا سکو اور نہ تمہارا کوئی کار ساز یا مددگار ہو سکتا ہے جو تمہیں اس سے بچا سکے۔
۶۲۔۔۔۔۔۔ یعنی بڑے بڑے جہاز جو پہاڑوں کی طرح سمندر میں کھڑے رہتے ہیں۔
۶۳۔۔۔۔۔۔ اس زمانہ میں صرف بادبانی جہاز تھے جو ہوا کے بغیر چل نہیں سکتے تھے اور ہوائیں اللہ ہی چلاتا ہے۔ اگر وہ ہواؤں کو روک دے تو ان جہازوں کا چلنا بند ہو جائے۔ اور موجودہ زمانہ میں ہوائی جہاز ایجاد ہوئے ہیں جن کا چلنا ہوا ہی پر منحصر ہے۔ یہ اس بات کی واضح نشانی ہے کہ عالمِ اسباب پر متصرف (اختیار رکھنے والی اور کنٹرول کرنے والی) صرف اللہ کی ذات ہے۔ پھر کسی اورکو متصرف مان کر اس کو اپنی حاجت روائی کے لیے پکارنے میں کیا معقولیت ہے ؟
۶۴۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ لقمان نوٹ ۵۳۔
۶۵۔۔۔۔۔۔ دنیا میں جو مال و متاع بھی انسان کو ملتا ہے وہ یہاں کی چند روزہ زندگی ہی کے لیے ہوتا ہے۔ جب موت آتی ہے تو آدمی سب کچھ یہاں چھوڑ کر رخصت ہو جاتا ہے اور کوئی چیز بھی اس کے ساتھ منتقل نہیں ہوتی کہ موت کے بعد والی زندگی میں اس کے کام آئے۔ بخلاف اس کے آخرت کی نعمتیں دنیا کی نعمتوں کے مقابل میں بدرجہا بہتر بھی ہیں اور ہمیشہ باقی رہنے والی بھی۔ اب یہ انسان کا اپنا ظرف ہے کہ وہ اپنے لیے کم درجہ کے اور عارضی سامان کا انتخاب کرتا ہے یا اعلیٰ درجہ کے اور مستقل رہنے والے سرو سامان کا۔ اگر وہ پہلی چیز کا انتخاب کرتا ہے تو دنیا اس کا مقصود قرار پائے گی اور وہ اپنی فکر اور اپنی عملی زندگی میں آخرت کو نظر انداز کرے گا لیکن اگر وہ دوسری چیز کا انتخاب کرتا ہے تو اس کی فکر پر آخرت کا غلبہ ہو گا اور وہ آخرت ہی کو مقصود بنا کر زندگی گزارے گا۔
۶۶۔۔۔۔۔۔ یہاں ان لوگوں کے اوصاف بیان کئے جا رہے ہیں جو آخرت کی نعمتوں سے مالا مال ہوں گے۔ ان کی اولین صفت یہ ہے کہ وہ ان باتوں پر ایمان لائے ہیں جن پر ایمان لانے کی دعوت قرآن دیتا ہے۔ پھر اس ایمان ہی کا اثر ہے کہ ان کے اندر ہی توکل کی صفت پیدا ہو گئی لہٰذا ان کا بھروسہ عالم اسباب پر نہیں بلکہ مسبب اسباب پر ہوتا ہے۔
توکل یہ ہے کہ آدمی بہتر سے بہتر تدبیر کرے لیکن سب کچھ تدبیر ہی کو نہ سمجھے بلکہ اس یقین کے ساتھ معاملہ اللہ کے حوالہ کرے کہ ہوتا وہی ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ کوئی تدبیر بھی کار گر اسی وقت ہوتی ہے جب مشیت الٰہی اس کے لیے سازگاری پیدا کرتی ہے۔
واضح رہے کہ اسلام اور کفر کی کشمکش میں توکل اہل ایمان کے لیے نہایت ضروری ہے اور اسی مناسبت سے یہاں ان کا یہ وصف نمایاں کیا گیا ہے۔
۶۷۔۔۔۔۔۔ گناہِ کبیرہ کی تشریح کے لیے دیکھئے سورہ نساء نوٹ ۷۹۔
۶۸۔۔۔۔۔۔ فواحش (بے حیائی کے کام) کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انعام نوٹ ۲۷۷۔
۶۹۔۔۔۔۔۔ کسی شخص کی طرف سے اذیت پہنچنے پر غصہ آنا بالکل فطری بات ہے مگر درگزر سے کام لینا اور معاف کرنا ایک مومن کی بہترین صفت ہے۔ یہ صفت جذبات پر کنٹرول، بندگانِ خدا کے ساتھ حسن سلوک اور عدل و انصاف پر آمادہ کرتی ہے۔ غصہ کو پی جانا یقیناً بڑی خوبی ہے لیکن اس سے بڑی خوبی یہ ہے کہ غصہ آنے پر قصوروار کو معاف کر دیا جائے۔ مگر جو لوگ خدا سے بے خوف ہوتے ہیں وہ غصہ میں بے قابو ہو جاتے ہیں اور ظلم و زیادتی پر اتر آتے ہیں۔
۷۰۔۔۔۔۔۔ یعنی اپنے رب کا ہر حکم دل کی آمادگی کے ساتھ سنتے ہیں اور اسے قبول کرتے ہیں۔ بخلاف اس کے نام نہاد مسلمانوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے رب کی دعوت پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور نہ ان کو اس کے احکام سننے سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے۔
۷۱۔۔۔۔۔۔ یعنی نماز کی پابندی کرتے ہیں اور اس فریضہ کو بڑے اہتمام کے ساتھ ادا کرتے ہیں جس میں دل کا خشوع بھی شامل ہوتا ہے اور وقار اور سکون بھی نیز ان باتوں کا لحاظ بھی جن کا لحاظ کرنا شریعت نے ضروری قرار دیا ہے۔
اقامتِ صلوٰۃ ایک جامع اصطلاح ہے جس میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا اور اس کے لیے صف بندی کرنا بھی شامل ہے۔
سَوُّواصَفُوْفَکُمْ فَاِنَّ تَسْوِیۃَ الصُّفُوْفِ مِنْ اِقَامَۃِ الصَّلوٰۃِ " صفوں کو درست رکھو کہ صفوں کو درست رکھنا اقامتِ صلوٰۃ میں سے ہے۔ " (بخاری کتاب الصلوٰۃ)
صَلُّوْاکَمَارأیتُمُونِی اُصَلِّیْ " اسی طرح نماز پڑھو جس طرح تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ " (بلوغ المرام بروایۃ البخاری)
اس لیے کتاب و سنت میں نماز کا جو طریقہ بتایا گیا ہے اس کے مطابق نماز ادا کرنے ہی سے اقامتِ صلوٰۃ کا منشاء پورا ہو سکتا ہے۔
۷۲۔۔۔۔۔۔ امر سے مراد اجتماعی معاملات ہیں جو ایک نظم کے متقاضی ہوتے ہیں۔ اسی مناسبت سے ان لوگوں کو جن کے ہاتھ میں اجتماعی معاملات کی باگ ڈور ہوتی ہے اُولی الامر (اصحابِ امر) کہا جاتا ہے۔ یہاں اہل ایمان کی ایک اہم صفت کے طور پر یہ بات بیان ہوئی ہے کہ ان کے معاملات باہمی مشورہ سے طے پاتے ہیں۔
واضح رہے کہ سورۂ مکی ہے اور مکی دور میں مسلمان اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ اپنا سیاسی نظام قائم کریں اس کے باوجود شوریٰ کے ذریعہ معاملات کو طے کرنے کی ہدایت کی گئی جس کا مطلب یہ تھا کہ کافروں کے اقتدار کے باوجود مسلمان اپنے جن اجتماعی امور و مسائل کے سلسلہ میں کوئی فیصلہ اور کوئی اقدام کرسکتے ہیں ان کیلئے وہ شورائی طریقہ اختیار کریں۔ یہ بہت بڑی رہنمائی ہے ان مسلمانوں کے لیے بھی جو کسی غیر اسلامی ملک میں رہتے ہیں۔ ان کو اپنے دینی مسائل کے سلسلہ میں ملی سطح پر شورائی نظم کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ ملت کی صحیح نمائندگی ہو اور اس کے فیصلوں کو پوری ملت عملی جامہ پہناسکے۔
اس آیت میں شورائیت کو جس اہمیت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے وہ اسلام کے سیاسی نظام کی بہت بڑی بنیاد ہے یعنی مسلمانوں میں اقتدار وہی لوگ سنبھالیں گے جن کو وہ اس کام کے لیے منتخب کریں گے۔ من مانی کرنے والے افراد کا اس پر مسلط ہونا بڑی زیادتی کی بات ہے۔ یہ شورائیت آمریت اور "ملوکیت" (جس میں بادشاہ ہی کو سارے اختیارات حاصل ہوتے ہیں) کی جڑ کاٹ دیتی ہے۔ پھر موجودہ دور کی جمہوریت اور اسلام کی شورائیت میں جوہری فرق یہ ہے کہ جمہوریت شتر بے مہار کی طرح بالکل آزاد ہوتی ہے۔ اگر وہ پابند ہوتی ہے تو اپنے ہی بنائے ہوئے دستور کی اس لیے اس کے فیصلے خلافِ حق، برائیوں کو فروغ دینے والے اور ظلم و زیادتی پر مبنی ہوتے ہیں۔ بخلاف اس کے اسلامی شورائیت اللہ کے احکام اور اس کے رسول کی ہدایت کی پابند ہوتی ہے وہ اس بات کی مجاز نہیں ہوتی کہ شریعت کے خلاف کوئی فیصلہ کرے یا شرعی حدود سے تجاوز کر جائے وہ کتاب و سنت کی روشنی میں پیش آمدہ مسائل پر غور کرتی ہے اور ان ہی کی روشنی میں فیصلے کرتی ہے۔
شوریٰ کا فیصلہ اسی کو کہا جاسکتا ہے جس پر اتفاق رائے ہوا ہو یا جس کی تائید میں شوریٰ کی اکثریت ہو تنہا امیر یا خلیفہ کی رائے کو شوریٰ کا فیصلہ نہیں قرار دیا جاسکتااور نہ شوریٰ کی اقلیت کی رائے کو شوریٰ کے فیصلے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے کیونکہ کسی بھی معاملہ میں حکم غالب چیز ہی کا ہوتا ہے۔ اور اگر امیر شوریٰ کی اکثریت (جمہور) کے فیصلے کا پابند نہ ہو تو شوریٰ بے وزن ہو کر رہ جاتی ہے۔
شوریٰ یا مشورہ کے لیے وہی لوگ موزوں ہو سکتے ہیں جو متقی، اہل الرائے اور قابل اعتماد ہوں ، فاسق و فاجر اور سطیحت پسند لوگ معاملات کو سلجھانے کے بجائے الٹا الجھا دیتے ہیں۔
آیت میں نماز سے متصل شوریٰ کا ذکر ہوا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شورائیت نماز کا فیضان ہے اور وہی شوریٰ خیر و برکت کا باعث ہو سکتی ہے جو نماز کو قائم کرنے ولی ہو۔ بے نمازی لوگ شوریٰ کے لیے ہرگز موزوں نہیں ہیں۔ اس موقع پر سورۂ آل عمران کی آیت وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ (آیت ۱۵۹) کے تشریح نوٹ ۹۱ کو پیش نظر رکھا جائے۔
۷۳۔۔۔۔۔۔ مراد اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے جس میں زکوٰۃ، صدقہ اور دینی مقاصد کے لیے خرچ کرنا شامل ہے۔ (دیکھئے سورۂ بقرہ آیت ۲۶۲، انفال آیت ۶۰ ، توبہ آیت ۲۳)
۷۴۔۔۔۔۔۔ انتصار کے معنی عربی میں مدافعت کرنے کے بھی اور بدلہ لینے کے بھی۔ اسلام کی تعلیم ہرگز یہ نہیں ہے کہ جو ظلم بھی ہوس سہتے رہو اور جوابی کاروائی کرنے کا تم کو کوئی حق نہیں ہے یہ دین ایک نظام عمل ہے نہ کے خیالی باتوں اور نا قابلِ عمل نظریات کا مجموعہ اس لیے اس کو نہ اہنسا (عدم تشدد کے فلسفہ) سے کوئی مناسبت ہے اور نہ عیسائیت کی اس تعلیم سے کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے تو تم اپنا دوسرا گال اس کے آگے کرو۔ وہ تشدد کا جواب تشدد سے دینے اور دشمن کے دانت کھٹے کرنے کی اجازت دیتا ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے جیسا کہ بعد کی آیت سے واضح ہے۔ دراصل اسلام نے ہر طرح کے حالات کا لحاظ کیا ہے اور مختلف مزاجوں کی رعایت کی ہے۔ کبھی حالات اس بات کے متقاضی ہوتے ہیں کہ تشدد کا جواب تشدد سے دیا جائے تاکہ ظالم کا زور ٹوٹے اور بعض طبیعتیں بھی ہر وقت درگزر سے کام لینے کی متحمل نہیں ہو سکتیں اس لیے اسلام نے جو تعلیم دی ہے وہ اعتدال پر مبنی ہے۔ اس نے بدلہ لینے کو مذموم نہیں ٹھہرایا ہے بلکہ اس کی اجازت دیدی ساتھ ہی صبر اور درگزر سے کام لینے کی ترغیب دی اور اس کی حوصلہ افزائی کی۔
رہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وہ قول جو بائبل میں ان کی طرف منسوب ہے کہ:
"تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے دہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے اور اگر کوئی تجھ پر نالش کر کے تیرا کُرتا لینا چاہے تو چوغہ بھی اسے لے لینے دے "۔ (متی ۵:۳۸ تا۔ ۴۱)
تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا منشا تورات کے اس حکم کو جو بدلہ سے متعلق ہے مسنوخ کرنا نہیں تھا بلکہ اس وقت کے حالات میں انہوں نے اپنے پیروؤں کو جو گنتی کے چند تھے اور اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ کوئی جوابی کاروائی کرسکیں صبر کی تلقین کی اور استعارہ کے انداز میں فرمایا کہ کوئی تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دینا۔ مطلب یہ تھا کہ رومی حکومت اور مفسد عناصر تم پر ظلم کریں گیاور تمہارے پاس اپنی مدافعت کا کوئی سامان نہیں ہو گا۔ ایسی صورت میں تمہیں اس بات کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ ایک طمانچہ کے بعد دوسرا طمانچہ بھی کھانا پڑے گا۔ یہ ایک اخلاقی ہدایت تھی نہ کہ شرعی قانون کی بات اور اس اخلاقی ہدایت کا بھی وہ مطلب نہیں تھا جو عیسائیوں نے سمجھا بلکہ ایک استعارہ ہے جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا اور لوقا کی انجیل میں بھی یہ ہدایت اس طرح بیان ہوئی ہے کہ تورات کے اس حکم کا کہ آنکھ کے بدلہ آنکھ کوئی حوالہ نہیں ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تورات کے احکام کو منسوخ کرنے کے لیے نہیں آئے تھے لہٰذا ان کی طرف کسی ایسے قول کو منسوب کرنا جو تورات کے شرعی حکم کو منسوخ کرنے کے ہم معنی ہو صحیح نہیں ہو سکتا۔
۷۵۔۔۔۔۔۔ یعنی جتنی تکلیف کسی نے پہنچائی ہے اس کو اتنی ہی تکلیف پہنچائی جا سکتی ہے اور جتنا نقصان کسی نے پہنچایا ہے اس سے اسی کے بقدر تلافی کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ اپنی مدافعت کرنے یا بدلہ لینے میں عدل و انصاف کا دامن نہیں چھوڑا جا سکتا۔ کسی نے اگر ایک شخص کا گلاس توڑ دیا ہے تو اس کے جواب میں اس شخص کا اس کے گھر کو آگ لگا دینا سراسر ظلم ہو گا۔
۷۶۔۔۔۔۔۔ ترغیب درگزر کرنے ، صلح و صفائی کی بات کرنے اور اصلاحی کام کرنے ہی کی ہے اور اس عمل پر اللہ تعالیٰ نے اجر کا وعدہ کر رکھا ہے۔
۷۷۔۔۔۔۔۔ اس میں تنبیہ ہے کہ اگر تم نے بدلہ لینے میں حد سے تجاوز کیا تو یاد رکھو یہ ظلم ہو گا اور اللہ ظلموں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔
۷۸۔۔۔۔۔۔ یعنی مظلوم کو حق پہنچتا ہے کہ وہ ظالم سے بدلہ لے۔ لہٰذا اگر کوئی مظلوم ظالم سے برابری کا بدلہ لیتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی مذمت کی جائے۔ اس سے کوئی مواخذہ نہیں ہو گا۔
۷۹۔۔۔۔۔۔ یعنی قابلِ مذمت وہ لوگ ہیں جو بندگانِ خدا پر ظلم کرتے ہیں اور اللہ کے سرکش بن کر رہتے ہیں اور سوسائٹی میں فساد پھیلاتے ہیں۔ مواخذہ ایسے ہی لوگوں سے ہو گا۔
۸۰۔۔۔۔۔۔ یعنی کوئی شخص زیادتی کر ہی بیٹھا تو اس پر صبر کرنا اور درگزر سے کام لینا اور اپنے دشمنوں کو معاف کرنا بہت بڑی اخلاقی فضیلت ہے۔ یہ وہ صفت ہے جو انسان کے کردار کو مضبوط بناتی اور اس کے حوصلوں کو بلند کرتی ہے۔ یہ عزم و ہمت کا کام ہے جو انسان کو عظمت کرتا ہے۔
۸۱۔۔۔۔۔۔ یعنی کوئی نہیں جو اس کو ہدایت دے سکتا ہے اور اس کی کوششوں کو صحیح رُخ پر لگا سکتا ہے۔ اس کا کوئی دوست ایسا نہیں ہو سکتا جو اس کی تدبیروں کو کارگر اور اس کے کاموں کو نتیجہ خیز بنائے۔
۸۲۔۔۔۔۔۔ یعنی دنیا میں واپسی کی کوئی صورت ہے کہ وہاں جا کر ایمان لائیں اور نیک بنیں۔
۸۳۔۔۔۔۔۔ یعنی جس طرح ایک مجرم دی جانے والی سزا سے نظریں بچانے کی کوشش کرتا ہے وہی حال ان لوگوں کا ہو گا وہ جہنم کو دیکھنے سے نظریں چرائیں گے۔ یہ ان مجرموں کی ذلت اور بے بسی کی تصویر ہے۔
۸۴۔۔۔۔۔۔ یعنی اس روز اہل ایمان برملا کہیں گے کہ اصل خسارہ دنیا کا خسارہ نہ تھا بلکہ آخرت کا خسارہ ہے لہٰذا جن لوگوں نے آخرت کو نظر انداز کر رکھا تھا وہ آج ابدی خسارہ سے دو چار ہیں نیز ان کے اہل و عیال بھی جن کی انہوں نے غلط رہنمائی کی تھی اور وہ ان کے پیچھے چل کر گمراہ ہوئے تھے۔
۸۵۔۔۔۔۔۔ یعنی آخرت کا مستقل عذاب۔
۸۶۔۔۔۔۔۔ اندازِ کلام انسانی نفسیات کو بڑا ہی اپیل کرنے والا ہے۔ قرآن کی دعوت ہر شخص کے اپنے رب کی دعوت ہے لہٰذا تم اپنے رب کی پکار پر لبیک کہو اور اس کی دعوت کو قبول کر کے اپنی اخروی نجات کا سامان کرو۔ قیامت کا دن تو لازماً آنا ہے کوئی نہیں جو اس کو ٹال سکے۔
۸۷۔۔۔۔۔۔ یعنی تمہاری بس میں نہیں ہو گا کہ عذاب کو دفع کر سکو یا جو فرشتے تم کو گرفتار کرنا چاہیں گے ان کو گرفتاری سے روک سکو۔
۸۸۔۔۔۔۔۔ پیغمبر سے خطاب ہے کہ تم ان لوگوں کے عمل کے ذمہ دار نہیں ہو کہ ان کو زبردستی راہِ ہدایت پر چلاؤ۔
۸۹۔۔۔۔۔۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ روم نوٹ ۶۴۳، ۶۵۔
۹۰۔۔۔۔۔۔ آسمانوں اور زمین کا فرمانروا اللہ ہی ہے اور اس کی فرمانروائی کی شان یہ ہے کہ جو چاہے پیدا کرے اور جس کو چاہے لڑکیاں دے اور جس کو چاہے لڑکے دے یا لڑکے اور لڑکیاں دونوں عطا کرے نیز جس کو چاہے بے اولاد رکھے۔ وہ پورے علم اور کمالِ قدرت کے ساتھ فرمانروائی کر رہا ہے۔ اس کے سوا کوئی نہیں جو اس بات کا اختیار رکھتا ہو کہ کسی کو اولاد بخشے۔
اس سے جہاں مشرکوں کے اس عقیدہ کی تردید ہوتی ہے کہ فلاں دیوی اور دیوتا اولاد بخشتے ہیں وہاں جاہل مسلمانوں کے بھی اس عقیدہ کی تردید ہوتی ہے کہ فلاں پیر اور فلاں ولی اولاد عطا کرتے ہیں۔ اس بد عقیدگی کی بنا پر عورتیں درگاہوں کے چکر کاٹتی ہیں اور اولاد کے لیے پیروں کے نام سے منتیں مانتی ہیں۔ یہ عقیدہ بالکل باطل اور یہ عمل صریح مشرکانہ ہے مگر جاہل مسلمانوں نے اسلام کے ساتھ اس کا جوڑ لگا دیا ہے۔
۹۱۔۔۔۔۔۔ یعنی کوئی انسان بھی بشری کمزوری کی بنا پر اس بات کی تاب نہیں لا سکتا کہ اللہ اس سے روبرو کلام کرے۔ اس کا جلال اور اس کی عظمت ایسی ہے کہ انسان اس کو دیکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ کی درخواست پر جب اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر بجلی فرمائی تھی تو وہ ریزہ ریزہ ہو گیا تھا اور حضرت موسیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑے تھے (دیکھئے سورۂ اعراف آیت ۱۴۳) اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں اور رسولوں سے کلام کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا اس کی تین صورتیں رہی ہیں :
ایک یہ کہ اللہ اپنے رسول کے قلب پر براہِ راست اپنا پیغام وحی کرے۔ وحی کے معنی جیسا کہ نوٹ ۲ میں واضح کیا جا چکا اشارہ کرنے یا مخفی طریقہ سے بات کرنے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول یا نبی سے مخفی طریقہ سے بات کرتا ہے اور اسے اپنے پیغام اور احکام و ہدایت سے آگاہ کرتا ہے جسے دوسرا کوئی شخص سننے نہیں پاتا۔ پیغام رسانی کے اس غیبی ذریعہ کا نام قرآن کی اصطلاح میں " وحی" ہے۔
دوسری صورت یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو شرفِ ہم کلامی بخشے مگر اس کو وہ دکھائی نہ دے۔ یعنی رسول، اللہ کی آواز اور اس کا کلام سن لے اس سے ہم کلام بھی ہو لیکن اللہ کی ذات اس کے سامنے جلوہ گر نہ ہو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ یہ صورت اختیار کی گئی تھی چنانچہ ان کو منصبِ رسالت عطا کرتے وقت بھی ہم کلامی کا شرف بخشا گیا سورۂ طہٰ آیت ۱۱ ،۱۲ اور کوہِ طور پر شریعت عطا کرتے وقت بھی۔
تیسری صورت یہ کہ اللہ تعالیٰ فرشتہ کو قاصد بنا کر بھیج دے جو اس کے پیغام کو رسول تک مخفی ذریعہ سے پہنچائے۔
ان میں سے پہلی اور تیسری صورت میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی کا نزول ہوتا رہا ہے۔ حدیث میں ان دونوں صورتوں کا ذکر اس طرح ہوا ہے :
" ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حارث بن ہشام نے پوچھا اے اللہ کے رسول! آپ پر وحی کس طرح آتی ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کبھی تو گھنٹی کی آواز کی طرح آتی ہے اور یہ صورت مجھ پر بہت گراں ہوتی ہے۔ پھر جب میں اسے محفوظ کر لیتا ہوں تو یہ کیفیت ختم ہو جاتی ہے اور کبھی یہ صورت ہوتی ہے کہ فرشتہ انسان کی شکل میں میرے سامنے آ جاتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے تو میں اسے یا د کر لیتا ہوں۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے سخت سردی کے دن وحی نازل ہوتے ہوئے دیکھی ہے ادھر وحی ختم ہوتی اور ادھر آپ کا یہ حال ہوتا کہ پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا۔ " (بخاری کتاب الوحی)
واضح رہے کہ پیغمبروں پر اللہ کے کلام کے نازل ہونے کا ذکر تورات، زبور اور انجیل تینوں میں بہ کثرت موجود ہے مثال کے طور پر تورات میں ہے :
" ان باتوں کے بعد خداوند کا کلام رویا میں ابرام (ابراہیم) پر نازل ہوا۔ " (پیدائش ۱۵:۱)
" تو خدا نے اسے جھاڑی میں سے پکارا اور کہا اے موسیٰ! اے موسیٰ اس نے کہا میں حاضر ہوں۔ " (خروج ۳:۴)
" تب خداوند نے موسیٰ سے کہا فرعون کے پاس جا کر اس سے کہہ کہ خداوند عبرانیوں کا خدا یوں فرماتا ہے کہ میرے لوگوں کو جانے دے کہ وہ میری عبادت کریں۔ " (خروج ۹:۱)
" تیرا کلام میرے قدموں کے لیے چراغ اور میری راہ کے لیے روشنی ہے۔ " (زبور ۱۱۹ ،۱۰۵)
" اور پھر یسوع روح القدس سے بھرا ہوا یردن سے لوٹا۔ " (لوقا ۳:۱)
" جب بھیڑ اس پر گری پڑتی تھی اور خدا کا کلام سنتی تھی۔ " (لوقا ۱:۵)
اس طرح کلام الٰہی اور " وحی" کا جو تصور آسمانی کتابوں کے ذریعہ پہلے سے چلا ا رہا تھا اس کو قرآن نے پوری وضاحت کے ساتھ پیش کر دیا تاکہ اس ذریعہ علم پر لوگ یقین کریں۔ یہ بھی واضح رہے کہ " وحی" اور الہام میں بہت بڑا فرق ہے۔ " وحی" بہت واضح ہوتی ہے اور اس کے اللہ کی طرف سے ہونے میں کوئی اشتباہ نہیں ہوتا اور قرآن تو لفظاً لفظاً وحی اور اللہ کا کلام ہے الفاظ اور معانی دونوں کے اعتبار سے۔ اور جہاں تک ہندو مذہب کا تعلق ہے اس میں الہام کا دھندلا سا تصور موجود ہے جس کو وہ شروتی (Shruti) (Revelation) سے تعبیر کرتے ہیں۔
۹۲۔۔۔۔۔۔ اللہ عَلِّی (بلند مرتبہ) ہے اس لیے انسان کا یہ مقام نہیں کہ وہ اس کے رو برو ہو کر کلام کرے۔ اور وہ حکمت والا ہے اس لیے اس کی حکمت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ وہ اپنا کلام اپنے پیغمبروں پر نازل کر کے انسان کی ہدایت کا سامان کرے۔
۹۳۔۔۔۔۔۔ اس آیت میں " روح" سے مراد قرآن ہے اور اس کو روح سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ وہ انسان کو حقیقی زندگی عطا کرتا ہے ، وہ انسان کے لیے آبِِ حیات ہے اور ایسا لطیف اور موثر کلام ہے کہ باطن کو ایک خاص روح (Spirit) سے بھر دیتا ہے۔
۹۴۔۔۔۔۔۔ یعنی تم ایمان اور کتاب سے اس طرح آشنا نہیں تھے جس طرح کہ اب ہوئے ہو۔ مقصود رسالت کے معجزانہ پہلو کو واضح کرنا ہے کہ جس شخص کی اچھی خاصی عمر اس طرح گزری ہو کہ نہ اسے ایمان کا تفصیلی علم حاصل ہوا ہو اور نہ کتابِ الٰہی کو وہ یکایک ایمان کی حقیقت کس طرح بیان کرنے لگا اور کتابِ الٰہی کی آیتیں کس طرح پیش کرنے لگا! یہ اس کی رسالت کا واضح ثبوت ہے۔ آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نبوت سے پہلے ایمان سے بالکل نا واقف تھے اور یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ اللہ نے کوئی کتاب بھی نازل کی تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک نبی فطرتِ سلیمہ پر قائم ہوتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم بھی قبل از نبوت اپنی فطرتِ سلیمہ پر قائم تھے۔ توحید آپ کا بنیادی عقیدہ تھا، بت پرستی اور شرک سے بالکل در رہے یہاں تک کہ بتوں کے نام کا ذبیحہ کھانے سے پرہیز کرتے تھے۔ دین ابراہیمی جس شکل میں باقی تھا اس کے پیرو تھے جس کا ایک اہم رکن حج تھا اور آپ کا غارِ حراء میں اللہ کی عبادت میں مشغول ہونا بھی ثابت ہے۔ اس لیے یہ کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ آپ ایمان سے بالکل نابلد تھے۔ اسی طرح کتابِ الٰہی کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آپ کو اس سلسلہ میں کوئی بات بھی معلوم نہیں تھی۔ یہود و نصاریٰ مکہ کے قرب و جوار میں آباد تھے اور ان کا اہل کتاب ہونا سب کو معلوم تھا اس لیے آپ اس بات سے نا واقف کس طرح رہ سکتے تھے کہ حضرت موسیٰ پر تورات اور حضرت عیسیٰ پر انجیل نازل ہوئی تھی لیکن چونکہ آپ اُمّی تھے اس لیے نہ آپ نے ان کتابوں کو پڑھا تھا اور نہ آپ کو اس سلسلہ میں کوئی خاص معلومات تھیں مگر قرآن کے نزول نے نہ صرف آپ کے علم میں اضافہ کیا بلکہ آپ کو وہ روشنی عطا کی کہ ایمان کی حقیقت کھول کر بیان کریں اور کتابِ الٰہی کی آیتیں سنائیں اور ان کا درس دیں۔
۹۵۔۔۔۔۔۔ یعنی قرآن کو نور بنا دیا ہے کہ وہ ہدایت کی راہ روشن کرتا اور علم کی روشنی عطا کرتا ہے۔
۹۶۔۔۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جس راستہ کی طرف رہنمائی کی ہے وہی سیدھا راستہ ہے جو اللہ تک پہنچتا ہے اور اسی کی نام اسلام ہے۔
۹۷۔۔۔۔۔۔ یعنی آگاہ ہو جاؤ کہ جس نے خدا اور مذہب کے تعلق سے جو رویہ بھی اختیار کیا ہو گا بالآخر اسے اللہ کے حضور اس کی جواب دہی کرنا ہو گی کیونکہ سارے معاملات فیصلہ کے لیے اسی کے حضور پیش ہونے والے ہیں۔