اس سورہ کے آغاز میں قیامت کے دن آسمان کے پھٹنے کی خبر دی گئی ہے اس مناسبت سے اس سورہ کا نام الانشقاق ہے یعنی وہ سورہ جس میں (آسمان) کے پھٹنے کا ذکر ہوا ہے۔
سورہ مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہوگی جب کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دعوت کا آغاز فرمایا تھا اور قیامت سے لوگوں کو خبر دار کر رہے تھے۔
یوم جزا اور اچھا اور برا انجام ہے۔
سابق سورہ میں بیان کیا گیا تھا کہ انسان کا نامہ عمل اس کے مرنے کے بعد عالم برزخ میں ایک ریکارڈ آفس (سجین یا عِلیین) میں محفوظ رکھا جاتا ہے۔ اس سورہ میں اس بات سے باخبر کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن پیشی سے پہلے ہر شخص کو اس کا نامہ عمل اس کے ہاتھ میں دے دیا جاۓ گا۔
آیت۔ ۱ تا ۵ میں اس انقلاب کا مجملاً ذکر ہے جو قیامت کے ظاہر ہوتے ہی آسمان و زمین میں بر پا ہوگا۔
آیت ۶ تا ۱۵ میں انسان کے عدالت خداوندی کی طرف بڑھنے ، نامہ عمل ہاتھ میں دیے جانے اور اپنے انجام کو پہنچنے کا ذکر ہے۔
آیت ۱۶ تا ۱۹ میں آثار کائنات سے اس بات پر استدلال کیا گیا ہے کہ انسان کو موت کے بعد مختلف مراحل سے گزرنا ہوگا۔
آیت ۲۰ تا ۲۵ میں ان لوگوں کو وعید سنائی گئی ہے جو قرآن کو سن کر خدا کے آگے جھکتے نہیں ہیں بلکہ اس کی تکذیب کرتے ہیں اور ان لوگوں کو کبھی نہ ختم ہونے والے اجر کی خوش خبری دی گئی ہے جو ایمان لا کر عمل صالح کرتے ہیں۔
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب آسمان پھٹ جاۓ گا۔۱ *
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گا اور اس کو لازماً تعمیل کرنا چاہیے۔ ۲ *
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب زمین پھیلا دی جاۓ گی ۳ *
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو کچھ اس کے اندر ہے اسے اگل کر خالی ہو جاۓ گی ۴ *
۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرے گی اور اس کو لازماً تعمیل کرنا چاہیے۔ ۵ *
۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے انسان، تو کشاں کشاں اپنے رب ہی کی طرف جا رہا ہے اور بالآخر اس سے ملنے والا ہے ۶ *
۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جس کا نامہ عمل اس کے دہنے ہاتھ میں دیا گیا۔۷ *
۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے آسان حساب لیا جاۓ گا۔۸ *
۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ اپنے متعلقین ۹ * کے پاس خوش خوش لوٹے گا۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جس کا نامہ عمل اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا گیا ۱۰ *
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ موت کو پکارے گا۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بھڑکتی آگ میں داخل ہوگا۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے گھر والوں میں مست تھا،۱۱ *
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے سمجھ رکھا تھا کہ اس کو کبھی لوٹنا نہیں ہے ۱۲ *
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں نہیں ! اس کا رب تو اس کو خوب دیکھ رہا تھا ،
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ۱۳ *، میں قسم کھاتا ۱۴ * ہوں شفق کی ۱۵ *
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور رات کی اور جو کچھ وہ اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے اس کی ۱۶ *
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور چاند کی جب کہ وہ مہِ کامل ہو جاتا ہے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ تم کو لازماً ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ میں پہنچنا ہے ۱۷ *
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ایمان نہیں لاتے ۱۸ *
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔ ۱۹ *
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ یہ کافر الٹا جھٹلا رہے ہیں۔
۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ لوگ جو کچھ چھپا رہے ہیں اسے اللہ خوب جانتا ہے۔۲۰ *
۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو تم ان کو ایک درد ناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔۲۱ *
۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ جو لوگ ایمان لاۓ اور جنہوں نے نیک عمل کیے ان کے لیے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا۔۲۲ *۔
۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ آسمان محض حد نظر کا نام ہے اور اس کی کوئی مادی حقیقت نہیں۔ اور جب اس کی کوئی مادی حقیقت نہیں تو اس کے پھٹنے کا سوال پیدا ہی کہاں ہوتا ہے ؟ واقعہ یہ ہے کہ سائینس کے نام پر یہ بات ذہن کو محض مرعوب کرنے کے لیے کہی جاتی ہے ورنہ یہ نہ کوئی سائینسی اکتشاف ہے اور نہ اس خیال کے لیے کوئی ٹھوس بنیاد ہی ہے۔جہاں تک موجودہ سائینس کا تعلق ہے واقعہ یہ ہے کہ اس کی رسائی ابھی آسمان تک ہو ہی نہیں سکی ہے۔ وہ کائنات کی پہنائیوں کو ناپنے سے بالکل قاصر ہے۔ علم فلکیات کے مطالعہ سے واضح اندازہ نہیں کر سکے ہیں چنانچہ ماہر فلکیات W . Bartky اپنی کتاب میں کائنات کی حیرت انگیز وسعت کو بیان کرنے کے بعد صاف صاف اعتراف کرتا ہے :
“What Ties beyond no man knows. Whether the stars continue end or whether the universe has a definite boundary remains, and perhaps will always remain, a topic for speculative argument.”
اور جب سائنس یہ بتانے سے اپنے کو عاجز پاتی ہے کہ اس کائنات کی کوئی سرحد ہے یا نہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کائنات کے ’’ حدود اربعہ‘‘ ابھی معلوم نہیں کر سکی ہے ایسی صورت میں یہ دعویٰ کس طرح کیا جا سکتا ہے کہ آسمان کا کوئی مادی وجود ہے ہی نہیں ؟ اصل بات یہ ہے کہ فلکیات Astronomy کی کتابوں میں صرف ان باتوں کے بیان کرنے پر اکتفاء نہیں کیا جاتا جو سائنسی تجربات و مشاہدات کے ذریعہ علم میں آئی ہیں بلکہ ان کے ساتھ قیاسی باتوں کو بھی جوڑ دیا جاتا ہے اور لوگ اس پورے ’’مخلو طے ‘‘ کو ’’ سائنس کے نام سے پیش کر کے غلط باتوں کو بھی صحیح باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
آسمان کے بارے میں قرآن کا بیان بہت واضح ہے مثلاً یہ کہ اس نے آسمان کو اپنے ہاتھ سے بنایا (وَالسَّمَاءَ بَنَیْنَا ھَا بِاَیْدِ (الذاریات،۴) اسے بلند کیا (وَ السَّمَاءَ رَفَعَھَا۔ (الرحمٰن،۷) اسے محفوظ چھت بنایا (سَقْفاً مَحْفُوْظاً (انبیاء ۳۲ ) اسے ستاروں سے مزیّن کیا (وَزَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیَا بمَصَا بیحَ (فصلت۱۲) ساتھ ہی قرآن خبر دیتا ہے کہ قیامت کے دن آسمان پھٹ جاۓ گا (اِذَالسَّمَاءُ اِنْشَقَّت۔ انشقاق ۱۰) اور اس میں دروازے ہی دروازے ہو جائیں گے (فَکَانَتْ اَنْوَاباً۔ النّبا ٍ۔ )
قرآن کے اس بیان سے آسمان کے ایک مادی شئے ہونے ہی کا تصور پیدا ہوتا ہے اس لیے اس کی کوئی ایسی تاویل کرنا صحیح نہ ہو گا جو اس کے ظاہری الفاظ سے متبادر ہونے والے مفہوم کے بالکل خلاف ہو۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انفطار نوٹ۔۱ )
۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی یہ خیال نہ کرو کہ آسمان خدا کے حکم سے سرتابی کر سکتا ہے۔ نہیں بلکہ لازماً اس کو حکم خداوندی کی تعمیل کرنا ہے کیونکہ وہ اس کا خالق و مالک ہے اور اس کی فرمانروائی اس پر پوری طرح قائم ہے لہٰذا جب قیامت کے دن وہ اسے پھٹنے کا حکم دے گا تو وہ یہ حکم سنتے ہی پاش پاش ہو جاۓ گا۔
۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی زمین اپنی موجودہ شکل میں باقی نہیں رہے گی بلکہ اسے تان کر وسیع کر دیا جاۓ گا تاکہ وہ بہت بڑے ہموار میدان کی شکل اختیار کر لے جس پر خدا کے حضور پیشی کے لیے پوری نوع انسانی کے افراد کو جگہ مل جاۓ جو اول سے قیامت تک پیدا ہوتے رہے ہیں۔
۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ زمین مردوں کو اگل کر ان کے بوجھ سے اس طرح خالی ہو جاۓ گی جیسے حاملہ عورت بچہ جننے کے بعد بوجھ سے فارغ ہوتی ہے۔ گویا زمین مردوں سے بوجھل ہو رہی ہے اور ان کو اگلنے ہی کو ہے۔
۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی زمین بھی اپنے رب کے حکم کی تعمیل اشارہ پاتے ہی کرے گی۔ قیامت کے واقع ہونے میں کوئی چیز بھی رکاوٹ پیدا نہیں کر سکتی۔
۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی انسان کو اپنے سفر زندگی کا شعور ہو یا نہ ہو وہ جا رہا ہے اپنے رب ہی کی طرف تاکہ عدالت خداوندی میں حاضر ہو۔ جس طرح زمین کے ساتھ ہم بھی گردش کرتے رہتے ہیں خواہ ہم گردش کرنا چاہیں یا نہ چاہیں اور خواہ ہمیں اس گردش کا شعور ہو یا نہ ہو۔ اسی طرح زندگی کا یہ سفینہ ہمیں لیے ہوۓ رب العالمین کی عدالت کی طرف رواں ہے اور ہماری آخری منزل آخرت ہے لیکن نادان لوگ دنیا ہی کو اپنی منزل سمجھتے ہیں اس لیے انہیں آخرت کی کوئی فکر لاحق نہیں ہوتی۔
اربوں انسان دنیا میں پیدا ہوتے ہیں اور مرتے ہیں مگر کتنے ہیں جنہوں نے اس اہم ترین سوال پر سنجیدگی سے غور کیا ہو کہ ہمارے سفر زندگی کا آغاز کہاں سے ہوا ہے اور سفر کی آخری منزل کیا ہے ؟ اگر ہمیں راستہ میں کوئی شخص ملے اور ہم اس سے پوچھیں کہ تم کہاں سے آ رہے ہو اور وہ جواب دے کہ مجھے نہیں معلوم اور اس کے بعد ہمارے یہ سوال کرنے پر کہ تم کہاں جا رہے ہو وہ یہ جواب دے کہ مجھے نہیں معلوم تو کیا اس کے اس جواب پر ہمیں تعجب نہ ہو گا اور کیا ہم اسے نادان نہیں کہیں گے ؟ مگر دنیا میں بے شمار انسان ایسے ہیں جن سے ان کے سفر زندگی کے بارے میں سوال کیجیے تو یہی جواب ملے گا کہ ہمیں نہ اس سفر کی ابتداء معلوم ہے اور نہ انتہا، نہ آغاز کا ہمیں کچھ پتہ ہے اور نہ انجام کا۔ اپنی منزل متعین کیے بغیر ہم اپنی زندگی کا سفر جاری رکھے ہوۓ ہیں۔ کیسے نادان ہیں یہ لوگ جو انجام سے بے پروا ہو کر اندھیرے میں ٹامک ٹوئیے مار رہے ہیں۔ کاش انہیں شعور ہوتا کہ وہ اسی طرح عدالت خداوندی کی طرف کھینچے چلے جا رہے ہیں جس طرح کہ سوئی مقناطیس کی طرف کِھینچی جاتی ہے۔
۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ نے داہنے ہاتھ کو یہ امتیاز بخشا ہے کہ وہ خیر کی علامت قرار پایا چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جو آداب سکھاۓ ہیں ان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ تمام اچھے کام مثلاً کھانا ، پینا، وضو کرنا، خیرات کرنا وغیرہ اپنے داہنے ہاتھ سے انجام دیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے بخشے ہوۓ اسی شرف کی بنا پر نیکو کاروں کا داہنا ہاتھ قیامت کے دن اس بات کا اہل ہو گا کہ ان کا نامہ عمل ان کے اس ہاتھ میں دیا جاۓ۔
۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیکو کاروں سے آسان حساب لیا جاۓ گا! آسمان حساب سے مراد جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تشریح فرمائی ہے خدا کے حضور جواب دہی کے لیے صرف پیشی ہے۔ اس پیشی کے موقع پر سخت باز پرس نہیں ہوگی بلکہ اللہ تعالیٰ در گزر فرماۓ گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
’’قیامت کے دن جس سے حساب لیا گیا وہ عذاب میں پڑ گیا۔ حضرت عائشہ نے عرض کیا! اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَباً یَّسِیْراً(اس سے آسان حساب لیا جاۓ گا) فرمایا اس کا مطلب سخت باز پرس کرنا نہیں ہے بلکہ صرف پیشی ہے۔ سخت باز پرس جس سے بھی قیامت کے دن کی گئی وہ عذاب میں مبتلا ہوا۔‘‘ (مسلم کتاب الجنۃ )
۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے متعلقین سے مراد اس کے اہل و عیال ہیں جو صاحب ایمان ہوں گے اور جن کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے در گزر کا معاملہ کیا ہوگا۔ وہ جنت میں ایک ساتھ جمع ہوں گے اور انہیں ایک دوسرے کی رفاقت میسر آۓ گی۔ نیز اس مقصد کے لیے ان میں سے کسی کا درجہ گھٹایا نہیں جاۓ گا بلکہ بلند ک دیا جاۓ گا۔ (ملاحظہ ہو سورہ طور آیت ۲۱ )۔
۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ان لوگوں کا انجام بیان ہو رہا ہے جو خدا کے حضور پیشی پر یقین نہیں رکھتے۔ اور اس سے بغاوت کی بنیاد پر زندگی گزارتے ہیں۔ ایسے لوگ عدالت خداوندی میں مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے۔ اس لیے ان کا نامہ عمل پیچھے کی طرف سے ان کے بائیں ہاتھ میں پکڑا دیا جاۓ گا۔ انہوں نے کتاب الٰہی کو پس پشت ڈال دیا تھا اس لیے بجا طور پر وہ اس کے مستحق ہوں گے کہ ان کا نامہ عمل انہیں پیٹھ کے پیچھے سے دیا جاۓ۔
۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اپنی اور اپنے بال بچوں کی عاقبت سے بے پروا ہو کر اپنی اور ان کی دنیا بنانے ہی میں مست تھا۔
۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی جب خدا اسے دیکھ رہا تھا تو وہ اپنے حضور پیشی کے لیے بلاتا کیسے نہیں ؟ اس کے بصیر ہونے کی صفت اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ وہ اپنے بندوں کو اپنے حضور جو اب دہی کے لیے بلاۓ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کو مرنے کے بعد اٹھاۓ۔
۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تر دید ہے منکرین کے اس خیال کی کہ مرنے کے بعد نہ پھر زندہ ہونا ہے اور نہ خدا کی طرف لوٹنا ہے۔
۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم کھانے کا مطلب ان چیزوں کو جن کی قسم کھائی گئی ہے بطور دلیل یا شہادت کے پیش کرنا ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ تکویر نوٹ ۱۴۔
۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شفق اس سرخی کو کہتے ہیں جو سورج کے غروب ہونے کے بعد آسمان پر ظاہر ہوتی ہے۔
۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سمیٹنے سے مراد رات کا اپنے دامن میں ستاروں کو سمیٹ لینا ہے۔
۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے وہ بات جس کی تائید میں آثار کائنات کے کچھ احوال کو پیش کیا گیا ہے۔بالفاظ دیگر انسان کو ان احوال پر اس پہلو سے غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے کہ ان کے مشاہدہ سے قرآن کے اس بیان کی تائید ہوتی ہے یا نہیں کہ انسان کو لازماً ایک ایسے مرحلہ سے دو چار ہونا ہے جہاں پہنچ کر اسے اپنے رب کے سامنے اپنے طرز عمل کے بارے میں جواب دہی کرنا ہو گی۔
سورج کے غروب ہوتے ہی شفق کی سرخی کا نمو دار ہونا، دن کے رخصت ہونے ہی رات کا اپنی بزم کو ستاروں سے آراستہ کرنا اور چاند کا ہلال سے بتدریج بدر کامل بن جانا اس بات کا مکمل ثبوت ہے کہ اس کائنات میں تدریج پائی جاتی ہے اور اس کے خالق نے مرحلہ مقرر کیے ہیں چنانچہ چاند مرحلہ بہ مرحلہ گزر کر ہی کامل بن جانا ہے۔ پھر اس نے انسان کے لیے جس کی خاطر اس بزم کا سجایا گیا ہے آگے کے مراحل کیسے نہیں رکھے ہوں گے اور دنیوی زندگی کے اس ایک مرحلہ ہی میں اس کا خاتمہ کس طرح ہو جاۓ گا؟ پس قرآن یہ جو خبر پیغمبر کی زبانی سنا رہا ہے کہ انسان کو موت کے بعد پھر زندگی کے مرحلہ میں داخل ہونا ہے اور پھر اپنے رب کے حضور پیشی کے مرحلہ سے لازماً دو چار ہونا ہے اور ان مرحلوں سے گزر کر اپنی آخری منزل جنت یا دوزخ میں پہنچ کر رہنا ہے تو اس کی پوری پوری تائید آثار کائنات کے ان احوال سے ہوتی ہے جن کا ذکر اوپر ہوا۔ اگر انسان اس پلو سے ان احوال کا مشاہدہ کرے تو اس کی فکر و نظر کے زاویۓ بدل جائیں۔
۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی لوگوں کا حال عجیب ہے کہ ان واضح شہادتوں کے بعد بھی یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ انسان کو جواب دہی کے مرحلہ سے دو چار ہونا ہے بلکہ اپنے اس خیال پر مصر ہے کہ زندگی اسی دنیا تک ہے اور مرنے کے بعد کوئی مرحلہ پیش آنا نہیں ہے۔
۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قرآن کا یہ حقیقت افروز بیان سن کر وہ اس کی صداقت کا اعتراف کرتے اور اس کی عظمت سے متاثر ہو کر خدا کے حضور سجدہ ریز ہوتے لیکن انہوں نے اس کے بر خلاف جھٹلانے اور اکڑنے کا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔
اس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سجدہ کرنا ثابت ہے چنانچہ حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھی اور آپؐ نے اس مقام پر سجدہ کیا اس لیے میں مرتے دم تک یہ سجدہ کرتا رہوں گا۔(مسلم)۔
۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی حق سے عناد اور اسلام دشمنی کے جذبات اور بے قید اور مفاد پرستانہ زندگی گزرنے کی خواہش جس کو وہ اپنے سینہ میں چھپاۓ ہوۓ ہیں اللہ کو اس کا بخوبی علم ہے۔
۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب کی خبر کو خوش خبری سے تعبیر کرنے ایک لطیف طنز ہے کہ جب تم جنت کی خوش خبری سننے اور اپنے کو اس کا ستحق بنانے کے لیے تیار نہیں ہو تو پھر جہنم ہی کی خوش خبری سن لو۔
۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی نیکو کاروں کو جو اجر آخرت میں ملے گا وہ وقتی اور عارضی نہ ہوگا بلکہ مستقل اور دائمی ہوگا جس کا سلسلہ کبھی منقطع ہونے والا نہیں۔ گویا یہ ایک بہتا ہوا دریا ہے جو ہمیشہ رواں دواں رہے گا۔